Inquilab Logo Happiest Places to Work

اےآئی: کیا نوجوان اپنی صلاحیتیں کھودیں گے اور صرف نقلچی بن کر رہ جائیں گے؟

Updated: June 01, 2025, 2:55 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

سرچ (صرف تلاش کرنا) اور ریسرچ (تحقیق) کا فرق مٹتا جارہا ہے۔ کوئی بھی سوال جب پوچھا جاتا ہے، طلبہ اور نوجوان کی ایک بڑی تعداد فوراً اے آئی ایپ کا رُخ کرتی ہے۔ لوگ ذہن پر زور دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ صورتحال باقی رہی تو کہا جاسکتا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

آج سے ٹھیک ۲۰؍برس پہلے اِنہی کالموں میں جب مصنوعی ذہانت کی آمد آمد تھی، ہم نے لکھا تھا : ’’کمپیوٹر سائنس کے شعبے نے مصنوعی ذہانت کی اصطلاح ایجاد کی ہے جس کے تحت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ قدرت کی عطا کردہ انسانی ذہانت پر بھاری ہے البتہ سنجیدہ محققین اس سے اتّفاق نہیں کریں گے کیوں کہ انسان اور انسانی ذہن صرف مشین نہیں ہے۔ انسان بیک وقت بیٹا، شوہر، باپ، چچا، تایا، ماموں، پڑوسی، اُستاد، شاگرد، دوست، بھائی، رفیق کار، ادیب، صحافی، شاعر، مبصّر، مقرّر، مفکّر، ناقد، محقّق، ادیب، مبلّغ، مفسّر، کسی شعبے کا ماہر، ادب کا شوقین، سیاسی نظریات کا حامی، مذہب کا پیروکار، کھیل کود کا رسیا، گرم مزاج، حلیم الطبع، ملنسار، غم گسار، ہمدرد، رازدار، امانت دار، وقت کا قدرداں، وعدے کا پاسدار، ہنسنے والا، رونے والا، ترغیب دینے والا، اپنے جذبات کا اظہار کرنے والا، اتفاق کرنے والا، اختلاف کرنے والا، غرض کہ بہت کچھ ہو سکتا ہے جب کہ دنیا کے کسی سُپر کمپیوٹر میں بھی یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے بہترین سافٹ ویئر یا کھربوں کے حسابات کو فی سیکنڈ جیسی رفتار سے کرنے کے باوجود اس میں یہ صفات موجود ہوں۔ ‘‘ اِن دودہائیوں میں آج مصنوعی ذہانت کا ہرسُو چرچا ہے، کبھی نصاب سے باہر کا ایک مضمون، اب ایک شعبہ بن گیا ہے اور ایک کریئر بھی۔ اب مصنوعی ذہانت کی سُونامی میں بھی ہمیں اپنے ہوش و خرد سے بہرحال کام لینا ہے ورنہ اس کی وجہ سے صرف چند طلبہ، کچھ نوجوان اور چند اِدارے ہی نہیں بلکہ نسلیں تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ 
نوجوانو! مصنوعی ذہانت ایک سافٹ ویئر یا عمل ہے جو انسانی سوچ کی نقل کرنے اور معلومات پر کارروائی کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت میں کمپیوٹر وژن، قدرتی زبان کی پروسیسنگ (این ایل پی)، روبوٹکس اور آخر میں مشین لرننگ جیسی ٹیکنالوجی اور شعبے کی ایک وسیع دنیا وجود میں آئی ہے۔ مشین لرننگ اور اب ڈیپ لرننگ جیسے ذیلی شعبوں سے کئی اُمور میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ طب، صحت، سائبر سیکوریٹی اور بینکنگ وغیرہ میں بڑی تبدیلیاں نمایاں ہورہی ہیں۔ درجن بھر سے زیادہ اے آئی جیسے چیٹ جی پی ٹی، کوپائلٹ، جیمنی، گوگل کلاوڈ، گروک، جیسپر اور گرامرلی وغیرہ ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اوراس کیلئے وہ کسی بھی سطح پر اُتر رہے ہیں مثلاً چین کی مصنوعی ذہانت ڈیپ سیک اور امریکہ کی چیٹ جی پی ٹی ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں سرگرم ہیں۔ 
نوجوانو! مصنوعی ذہانت انسان کی تخلیق یا ترتیب کردہ ذہانت ہے۔ اب سوچئے کہ ساری دنیا اِس کی دیوانی کیوں ہوئی؟دو وجوہات کی بناء پر، اوّل اُس کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور دوم اُس کی رفتار! اِن دونوں معاملات میں قدرت کے عطا کردہ دماغ کے مقابلے میں مصنوعی ذہانت کو برتری کیوں حاصل ہوئی؟ سنجیدگی سے اس پر غور کریں گے تو اس کے اسباب آپ کو واضح طورپر سمجھ میں آئیں گے: (۱) مصنوعی ذہانت ایک مشین ہے اِس میں جو معلومات داخل کی جاتی ہے وہ جمع ہوجاتی ہے کیوں کہ اِس کی یادداشت کے سارے خانے خالی ہیں اورانسانی دماغ؟ اُس کے سارے خانے بھرے پڑے ہیں، حسد، جلن، کھوٹ، کپٹ، بدگمانی وغیرہ سے اٹے پڑے ہیں، اِس دماغ میں مزید کسی ذخیرہ اندوزی کی گنجائش نہیں ہے۔ (۲) مصنوعی ذہانت کی دوسری بڑی خوبی جس پر ایک دنیا فدا ہے وہ ہے: اُس کی رفتار، سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں وہ جواب دیتا ہے۔ انسانی دماغ کی رفتار کو کیا ہوگیا؟ اُس کے دماغ میں اِسپیڈ بریکرس یعنی رفتار کو روکنے یا کم کرنے والی بے شمار رُکاوٹیں ہیں۔ سب کا بُرا چاہنے والی خباثتیں انسانی دماغ کی رفتار کی اصل رُکاوٹیں ہیں۔ 
نوجوانو! اگر انسانی دماغ ساری خباثتوں، بدنیتی اور شرانگیزی سے پاک ہوجائے تو ہر طاقتور مصنوعی ذہانت پر بھاری ہے۔ قدرتی ذہانت ہر مصنوعی ذہانت پر بھاری ہے کیونکہ انسان کے پاس قوّتِ فکر، قوّتِ احساس، بصیرت، حکمت، ہمدردی، انسانیت، تخیّل، احسان مندی، احترام، دُور اندیشی، صبر اور نہ جانے کتنے اوصاف موجود ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے پاس منطقی استدلال اور الگوریتھم ہے تو انسانی ذہن کے پاس وجدان، الہام، جبلّت، شعور اور ضمیر ہے۔ 
نوجوانو! مصنوعی ذہانت کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور اُس رفتار سے آسانیاں تو پیدا ہوجائیں گی البتہ اُس سے پیدا ایک بڑی خرابی کی نشاندہی کرنا چاہیں گے کیوں کہ اس سے تعلیمی و سماجی کئی معاملات میں ناقابل علاج کمزوریاں پیدا ہونے والی ہیں۔ ہُوا یہ ہے کہ جب سے کئی مصنوعی ذہانتوں نے جنم لیا ہے تب سے ہمارے بعض طلبہ اور ہمارے کچھ نوجوان بالکل سہل پسند، تن آسان بلکہ نکمّے بنتے جارہے ہیں۔ کچھ اس حد تک کہ اسکول کے طلبہ اپنا ہوم ورک پورا کرنے کیلئے مصنوعی ذہانت کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی تھیسیس تک اے آئی سے لکھوائی جارہی ہیں۔ اخبارات میں مضامین مصنوعی ذہانت کی مدد سے نقل کئے جا رہے ہیں اور کچھ حضرات توپورے پورے اخبار مصنوعی ذہانت سے نقل کرنے اور ترتیب دینے کا حکم دے کر صحافت کا نام ’اونچا‘ کر رہے ہیں۔ 
ہر ایجاد، ہرٹیکنالوجی کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں، مثبت اور منفی، البتہ مصنوعی ذہانت کے منفی، زیاں رساں اور شدید نقصان دہ پہلو طشت ازبام ہورہے ہیں۔ اب ہمارے کچھ طلبہ، اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز حتّیٰ کہ نام نہاد دانشور بھی کٹ پیسٹ ماسٹر یا نقلچی بن چکےہیں یعنی سرچ (صرف ڈھونڈنا) اور ریسرچ (تحقیق) کا فرق مٹتا جارہا ہے۔ کوئی بھی سوال جب پوچھا جاتا ہے، طلبہ اورنوجوان کی ایک بڑی تعداد فوراً اے آئی ایپ کا رُخ کرتی ہے۔ یہ لوگ ذہن پر زور دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ صورتحال باقی رہی تو کہا جاسکتا ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی اختراعی صلاحیتیں ختم ہوتی جارہی ہیں کیوں کہ اُنھوں نے دانستہ طور پر نقلچی بننا طے کرلیا ہے۔ آج مصنوعی ذہانت اور اُس کے چیٹ بوٹ ایسے کمپیوٹر پروگرامز ہیں جو اکثر سوالات کے جوابات دے سکتے ہیں۔ اسپتالوں، دفتروں اور سوشل میڈیا ایلگوریتھم میں ان کا استعمال ہو رہا ہے البتہ اِس کے خطرات سے اب اس کے بانیان بھی واقف ہوچکے ہیں اور حال ہی میں ٹیسلا کے سربراہ سمیت ایک ہزار سے زائد ماہرین نے ایک خط لکھ کر دنیا بھر کے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام ریسرچ روک دی جائے کیوں کہ اس سے انسانیت کو شدید خطرہ ہے۔ مجھے اس ضمن میں واضح طور پر دو بڑے خطرات سرپر منڈلاتے ہوئے دِکھائی دے رہے ہیں :
(۱)مصنوعی ذہانت کی سونامی میں سب کچھ بہہ جائے گا، ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، ثقافت اور زبان سب کچھ۔ حال ہی میں مَیں نے کئی مصنوعی ذہانتوں سے پوچھا کہ اس ملک کا سب سے ظالم حکمراں کون تھا؟اُنھوں نے یکے بعد دیگرے ۵؍ مسلم حکمرانوں کے نام گِنائے۔ جب مَیں نے پوچھا کہ سمراٹ اشوک کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے کلنگ کی ایک جنگ میں ۷؍ لاکھ لوگوں کا قتل کیا تھا تب وہ ساری ’ذہانتیں ‘ بغلیں جھانکنے لگیں اور سٹپٹاکر جواب دیا کہ ہاں وہ بھی مگر پھر اُس نے جنگ سے توبہ کرلی تھی اور اپنا دھرم تبدیل کرلیا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ ذہانتیں متعصب اور بھرپور جانب دار ہیں۔ ہماری نئی نسلوں کیلئے یہ ایک بڑا خطرہ ہیں۔ 
(۲) ہمارے نوجوان اپنی تخلیقی اور اختراعی صلاحیتوں سے محروم ہونے کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے اورہمارا سب سے بڑا سرمایہ جو ہمارے طلبہ اور نوجوان ہیں، وہ صرف نقلچی بن کر رہ جائیں گے۔ ڈراِس بات کا بھی ہے کہ کہیں ہمارا ادب اور ہماری شاعری بھی نزع کے عالم میں نہ پہنچ جائے اور نظمیں، کہانیاں، افسانے، انشائیے لکھنے کیلئے مصنوعی ذہانت کی کسی ایپ کا سہارا لیا جائے۔ حالانکہ اس بات کا بھی اِمکان ہے کوئی ایسا ایپ وجود میں آجائے جو اِن سارے نقلچیوں کو بے نقاب کرے گا اور بتائے گا کہ یہ مضمون، یہ پیراگراف، یہ جملے کہاں سے نقل(یا چوری) کئے گئے ہیں اور یہ بہت ضروری ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK