• Fri, 26 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل کیخلاف عرب ممالک سے کسی سخت اقدام کی توقع ہے؟

Updated: September 25, 2025, 3:04 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

افسوس کی بات ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عرب ممالک کے اقداما ت زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتے، ایسا کب تک چلے گا !۔

A proposal for a NATO-like alliance against Israel by Arab countries is also under consideration, Photo: INN
عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف نیٹو جیسے اتحادکی تجویز بھی زیر غور ہے، تصویر: آئی این این

اسرائیل کے غزہ پر حملے کو۷؍اکتوبر کو۲؍ سال پورے ہوجائیں گے۔ اس دوران جہاں اسرائیل کی جانب سے غزہ کو کھنڈر بنانے سے لےکروہاں غذائی قلت مسلط کرنے، نظام صحت تہس نہس کرنے اور بچوں کی لاشیں لئے والدین کو روتا بلکتا چھوڑ دینے تک سارے انسانیت سوز اقدامات کئے گئے وہیں مسلم یا عرب ممالک کی جانب سےسوائےسخت الفاظ میں مذمت کے اورکچھ نہیں کیاگیا۔ غزہ سے سب سے قریبی ملک مصر آج تک رفح بارڈرکے تعلق سےکو ئی فیصلہ کن اقدام نہیں کرسکا جہاں سےلاکھوں مجبورفلسطینی غزہ سےنکلناچاہتے تھے بلکہ بحران کے عروج کے وقت تو یہ گزرگاہ بند کردی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر عرب ممالک نے بحیثیت طاقت اور اتحاد اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں ایک متحدہ فوج سرگرم ہے لیکن اسرائیل کے خلاف ساری کارروائیاں اب تک صر ف خانہ پُری کی حد تک ہوتی رہی ہیں جبکہ یہاں نہ صرف ایک مضبوط فوجی اتحادکی کہیں زیادہ ضرورت ہے بلکہ باقاعدہ اقدام بھی آج کے حالات میں نا گزیر ہے۔ 
کسی ملک یا اتحادکے فوجی منصوبوں پربراہ راست کوئی تبصرہ یا تنقید نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی بنیاد اس ملک یا اتحاد کی پالیسی پر ہوتی ہےاور اس پالیسی کے تعلق سے جب تک خود وہ ملک یا اتحاد کوئی وضاحت نہ دے تب تک کسی دوسرے کو بیان دینے کا حق نہیں ہوتا لیکن کچھ بظاہر نظر آنے والے پہلو بھی ہوتے ہیں جو بہت کچھ بیان کردیتے ہیں ۔ یہ عرب ممالک کی بظاہر نظر آنے والی کمزوری ہی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل قطر پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچایا۔ قطر وہ ملک ہےجوغزہ جنگ میں ثالثی کررہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین میں ایک ثالث اور اسے حاصل مراعات کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ جنگ ختم کرنے کیلئے ثالثی کررہے ایک ملک پرحملہ جنگی جرائم سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے اور قطر کی حیثیت اس معاملے میں صرف ثالث کی ہی نہیں بلکہ وہ امریکہ کا بھی اتحادی ہے جو ثالثی کے اس عمل میں اسکے ساتھ ہے۔ قطر میں جنگ بندی کی جو اورجیسی بھی کوششیں ہورہی ہیں وہ امریکہ کی سربراہی میں ہی ہو رہی ہیں۔ اگروہاں حماس کے لیڈران مقیم ہیں اوراسرائیلی حکام کے ساتھ ان کےمذاکرات ہوئےہیں تو یہ سب کچھ امریکہ کے سامنے ہے۔ اس کے باوجوداسرائیل نے دوحہ میں حماس کے ٹھکانوں پرحملہ کیا۔ کیا یہ امریکہ پر حملے کے مترادف نہیں ؟قطر امریکہ کا اتحادی ہے ا ورامریکہ اسے اپنا ’غیر نیٹو ‘ اتحادی قراردیتا ہے۔ یعنی اس کے ساتھ تعلقات کوتزویراتی اہمیت کاحامل سمجھتا ہے۔ اب ایسے ملک کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر اس کی جانب سے یہ رد عمل کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا یا نہیں ہونا چاہئے، انتہائی درجے کی منافقت ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سےیہ معاملہ اتنا مضبوط ہوسکتا ہےکہ مسلم ممالک اس کے ذریعے اسرائیل کو الگ تھلگ کر سکتے ہیں لیکن مسلم اورعرب ممالک کی تنظیمیں بس کانفرنس بلالینے اور مذمتی بیان جاری کردینے تک محدود رہتے ہیں گویا اسکے ذریعے انہوں نے اسرائیل کو شکست کے راستے پرڈال دیا ہو۔ 
گزشتہ دنوں دوحہ میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں مسلم ممالک کے سربراہوں نےخود اپنےاس ’ناقص ‘رویےکا اعتراف کیا اوراس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کے خلاف اب صرف مذمتی قراردادوں سے کام نہیں چلے گابلکہ عملی اقدام کا وقت آگیا ہے۔ اب اس عملی اقدام کا رُخ کیا اور کیسےہوگا، اس کیلئےالگ سے ایکشن پلان کی ضرورت ہے، الگ سے پھر کسی اجلاس کی ــضرورت ہے۔ یہاں بھی یہ کہنا کہ(قطر پرحملہ کرکے) اسرائیل نے حدیں پارکردی ہیں ، سرخ لکیریں عبورکردی ہیں، عوام زبانی جمع خرچ سے تھک چکے ہیں، یہ صرف جملے ہیں۔ ان کی حیثیت بھی کسی مذمتی قراردادسےبڑھ کر نہیں ہے۔ عملی اقدام اس وقت ہوگا جب کوئی باقاعدہ منصوبے کا اعلان کیاجائے جیسے امریکہ نے غزہ کو خالی کرنے کےمنصوبےکا اعلان کیاہے، اسے ایک سیاحتی مقام میں بدلنے کیلئے یا جیسے اسرائیل کا غزہ پرمکمل قبضے کا منصوبہ زیر بحث ہے۔ کیا اس طرح کاکوئی اعلان عرب ممالک کے پاس ہے، ایساکوئی منصوبہ وہ پیش کرسکتے ہیں ؟اگرفرض ہی کرلیاجائے توکیا عر ب ممالک یہ یا ایسا کچھ اعلان کرسکتے ہیں کہ’’ ہم نے اسرائیل کو ہر طرف سے گھیر لیا ہےاوراب غزہ پر ایک بھی میزائل تل ابیب یا یروشلم میں ہماری فوجی مداخلت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ ‘‘ظاہر ہےایسا کچھ بھی نہ ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ 
فلسطین اور غزہ کے تعلق سے اسرائیل ہر گزرتے دن کے ساتھ جارح تر ہوتا جارہا ہےاور عرب ممالک اتنے ہی بے بس اور کانفرنسوں تک محدود۔ اب توان کی قرار دادوں اور مذمتی بیانات سے اسرائیل کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف نیٹو جیسے اتحادکی تجویز بھی زیر غور ہے حالانکہ عرب ممالک کا پہلے سے موجود اتحاد نیٹو اتحاد سےمضبوط ثابت ہوسکتا ہے۔ نیٹو اتحاد میں ۳۲؍ممالک ہیں جبکہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)۵۰؍ سےزائد ممالک پرمشتمل ہے۔ ایسے میں نیٹو اتحاد کو اپنے لئے نمونہ تسلیم کرنا احساس کمتری کا اظہار ہے۔ پھریہ کہ مسلم ممالک کیلئےاتحاد کا صرف یہی ایک پلیٹ فارم نہیں ہے بلکہ عرب لیگ بھی ہےجس میں ۲۰؍ سے زائد ممالک ہیں۔ خلیج تعاون کونسل(جی سی سی) بھی ہےجس میں ۶؍ممالک ہیں۔ ان پلیٹ فارموں کی اپنی تجارتی، معاشی اورثقافتی اہمیت بھی ہے اورعالمی سطح پر اسٹرٹیجک لحاظ سے بھی انہیں اہم سمجھا جاتا ہے۔ 
عر ب ممالک کی اپنی افواج کا بھی معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ عرب لیگ کی یورپی یونین ا وراقوام متحدہ کی طرح باقاعدہ تنظیم کی حیثیت سے کوئی آرمی نہیں ہے لیکن رکن ممالک کی اپنی فوجیں ہیں ۔ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کی قیادت میں ۸؍ ممالک کی افواج کا اتحاد قائم کیاگیا جس میں مصر، مراکش، اردن، سوڈان، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور بحرین شامل ہیں۔ ان میں مصر کی فوج کو سب سے بڑی اور مضبوط فوج مانا جاتا ہے۔ اس سے قبل ۱۹۴۸ء کی فلسطین جنگ میں عرب لبریشن آرمی کےقیام کی بھی مثال ملتی ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازع آج جو جاری ہے، اس کی بنیاد ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام سے ہی پڑ گئی تھی اور اس وقت وسیع پس منظر میں اس پورے معاملے کوعرب اسرائیل تنازع کے طورپر ہی دیکھا جاتا تھا۔ یہ اب اسرائیل فلسطین تنازع تک محدود ہوچکا ہےجسے اسرائیل نے قطر پرحملہ کرکے ایک بارپھر عرب ممالک کی حدود تک پھیلانے کا اقدام کیا ہے۔ 
اب معاملہ صرف اسرائیل فلسطین یا غزہ جنگ تک محدود نہیں رہ گیا ہےبلکہ ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ ایسے میں عرب ممالک کی منتشر افواج کوجو بہت محدود پلیٹ فار م پر متحد نظر آتی ہیں، نئے سرے سے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اب آئندہ جب عرب لیگ یا اوآئی سی کا کوئی اجلاس ہوتو اس میں باقاعدہ فوجی تنظیم کا ایجنڈابھی شامل ہو اوراسرائیل کے فوجی اقدامات کو محدود کرنے کا طریقہ زیر بحث آئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK