Inquilab Logo Happiest Places to Work

تشدد، خوف اور دھمکی کے ذریعہ عالمی دبدبہ قا ئم کرنے کی کوشش

Updated: June 22, 2025, 1:26 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

جی ۷؍ ملکوں نے اسرائیل، ایران جنگ کے حوالے سے جو مشترکہ بیان جاری کیا ہے وہ دراصل دنیا کو کنٹرول کرنے کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ کس حد تک طول کھنچے گی اور اس کا خاتمہ کس صورت میں ہوگا اس کے متعلق ابھی کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ اس مضمون کی اشاعت تک بہت کچھ ایسا واقع ہو چکا ہو جس کا گمان کسی نے نہ کیا ہو۔ ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد سے اب تک یہ جنگ جس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اس کی توقع بھی بہت کم لوگوں نے کی تھی۔ عالمی سیاست اور جنگی معاملات کے تجزیہ کاروں میں اکثریت کا یہی کہنا تھا کہ اگر ایران پر اسرائیل یا امریکہ نے حملہ کیا تو ایران اس حملے کا دفاع موثر انداز میں نہیں کر پائے گا اور اسے جلد ہی میدان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ایران کی قوت مدافعت اور اسرائیل کے اہم ٹھکانوں پر میزائل حملوں نے ان تجزیہ کاروں کو اپنی رائے پر نظر ثانی کیلئے مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ کی سامراجی پالیسی اور مغربی ملکوں کے مفاد کو مد نظر رکھ کر رائے قائم کرنے والے تجزیہ کار اب ایران کے دفاعی اقدامات اور جنگی صلاحیت کے متعلق ایسا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ جیسے ایران سے عالمی امن و امان کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور دنیاکو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے اس کے خلاف عالمی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ابھی حال ہی میں جی ۷؍ ملکوں نے جو مشترکہ بیان جاری کیا ہے وہ بھی اسی پروپیگنڈہ کی توثیق ہے۔ 
عالمی امن کیلئے سرگرم نام امن پسند ممالک جی ۷؍ یا کسی دوسرے عالمی گروپ کا حصہ ہوں، ان کا رویہ نہ تو مبنی بر انصاف ہوتا ہے اور نہ ہی یہ حقائق کو دنیا کے سامنے ان کی اصل شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک کے لیڈروں کے پاس سوائے لن ترانی کے اور کچھ نہیں۔ اس لن ترانی کے ذریعہ ہی وہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عالمی سیاست کے پیچ و خم کا درک نہ رکھنے والے سادہ لوح عوام ایسی لن ترانی کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ نام نہاد امن پسند لیڈر اب اس لن ترانی سے بھی دو قدم آگے نکل کر اپنے موقف (مرضی) کے دفاع میں دھمکی، تشدد اور خوف کی تشہیر اور ترویج کے ذریعہ عالمی دبدبہ قائم کرنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ ان لیڈروں نے شاید یہ سوچ رکھا ہے کہ ان کی معاشی اور جنگی قوت انھیں یہ حق عطا کرتی ہے کہ وہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں اور اس کی مطلق پروا نہ کریں کہ ان کے فیصلے اور اقدامات عالمی سیاسی اخلاقیات کی پیروی اور پاسداری کرتے ہیں یا نہیں ؟ اسرائیل اور ایران کی جنگ کے تناظر میں دیکھیں تو خود کو عالمی امن کا سرخیل سمجھنے والے ملک کے صدرٹرمپ نے نہ صرف کھل کر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کی بلکہ ایران کو دھمکی بھی دی کہ وہ اس کے سامنے ایک پل بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ ٹرمپ کی اس حقیقت آمیز دھمکی کے باوجود ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔ 
اس لڑائی نے یہ بھی صاف کردیا ہے کہ دنیا کو انسانی حقوق کے تحفظ کا پاٹھ پڑھانے والے ممالک اپنے مفاد کو عالمی سیاست میں اپنی فضیلت کے دوام کو ہی مد نظر رکھتے ہیں۔ جب کوئی بھی تنازع یا مسئلہ اس فضیلت اور مفاد کو متاثر کرتا ہے تو وہ اس کا تصفیہ کرنے میں انصاف کے تقاضو ں کو مد نظر رکھنے کے بجائے اپنی مرضی کو فوقیت دیتے ہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکی صدر نے نہ صرف عالمی سیاسی تقاضوں کو نظر انداز کیا بلکہ اپنے بیانات سے ایران کی تضحیک اور تذلیل کرتے رہے۔ ایران کو امریکہ اور اسرائیل کی جنگی قوت سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کرنا اور اسے غیر مشروط خود سپردگی کی دھمکی دینے کے علاوہ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر کو آسان ٹارگیٹ کہہ کر یہ جتانے کی کوشش بھی کی کہ وہ جب چاہیں اس قد آور مزاحمتی پیکر کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اس جنگ میں ایران کو ہر قیمت پر زیر ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے پاس جو جدید ترین جنگی آلات ہیں اور جن کی مدد سے اسرائیل اب تک ایران کی کئی اہم فوجی شخصیات اور سائنسدانوں کو مار چکا ہے، ان آلات کے ذریعہ یقیناً ایران کے سپریم لیڈر کو بھی آسان ٹارگیٹ بنایا جا سکتا ہے لیکن اگر اسرائیل اور امریکہ ایسا کریں گے تو اس جنگ کا خاتمہ ہونے کے بجائے اس میں نئے محاذپیدا ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ کو بھی اس کا اندازہ ہے۔ 
ایران پر اسرائیل کا حملہ کوئی فوری اقدام نہیں تھا بلکہ اس کیلئے برسوں سے منصوبہ سازی کی جارہی تھی۔ یہ بات اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ فلسطین کو ہتھیانے اور مشرق وسطیٰ میں حاکمیت قائم کرنے میں اگر کوئی ملک مزاحم ہو سکتا ہے تو وہ صرف ایران ہے۔ غزہ پر جاری صہیونی مظالم اور غرب ممالک کے علاوہ دیگر مسلمان ملکوں کی زبانی ہمدردی والی خانہ پری سے بھی بڑی حد تک اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کا حوصلہ ملا۔ اس حوصلے کی بنا پر اسرائیل نے جو توقعات قائم کر رکھی تھیں اب وہ بیشتر اس کی غلط فہمی کے طور پر اجاگر ہو رہی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ امریکہ کو براہ راست اس جنگ میں شامل کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ نے اب تک ایران کے متعلق جس دھمکی آمیز زبان کا استعمال کیا ہے وہ صریح طور پر ان عالمی سیاسی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے جو بین الملکی روابط میں سیاسی پیچیدگیوں اور باہمی وقار کی بقا کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈہ کی بنیاد پر دیگر ملکوں پر جنگ مسلط کرنے کیلئے سابقہ امریکی صدور کو کوسنے والے ٹرمپ اب اس معاملے میں ان پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ ان کے کردار کے دوغلے پن کو نمایاں کرتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں دنیا کو جنگ کے خطرات سے باہر نکالنے کو اپنی ترجیح بتایا تھا۔ 
۲۰؍جنوری ۲۰۲۵ء کو امریکہ کے ۴۷؍ ویں صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک ٹرمپ کا رویہ کسی مہذب سیاست داں سے زیادہ ایسے اوباش اور سرکش شخص کا رہا ہے جو اپنی طاقت کے زعم میں خود کو تمام طرح کے اصولوں اور ضابطوں سے بالاتر سمجھتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت والے ملک کے سربراہ کے طور پر وہ خود کو پوری دنیا کا حاکم سمجھنے لگے ہیں ۔ یہ کوئی قیاسی یا جذباتی فقرہ نہیں ہے بلکہ ان کا اب تک کا رویہ یہی ظاہر کرتا ہے۔ روس یوکرین یا ابھی حال ہی میں پاک و ہند کے تصادم کے حوالے سے اگر ان کے رویے کا تجزیہ کیا جائے تو خود کو عالمی حکمراں سمجھنے والے ان کے رویے کی تردید مشکل ہی سے کی جا سکے گی۔ دنیا کے بیشتر ملکوں کے قدرتی وسائل اور ان کی معاشی پالیسیوں میں امریکی مفاد کو یقینی بنانے کی خاطر امریکہ جس حکمت عملی پر گامزن ہے اس کا مقصد دنیا کو اپنے چشم و ابرو کے اشارے پر چلانا ہے۔ اس مقصد کی تعمیل اور تکمیل کیلئے وہ انسانی حقوق کے تحفظ، قیام امن اور معاشی استحکام کا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسرائیل جیسے غاصب ملک کے دفاع میں بھی یہی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ 
ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ عالمی سیاست کو ایک نیا رنگ و آہنگ دینا چاہتے ہیں۔ چونکہ بنیادی طور پر وہ ایک بزنس مین ہیں لہٰذا بین الاقوامی سیاسی روابط میں ہمیشہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اسی مفاد پرست نفسیات کے زیر اثر وہ دیگر ملکوں سے متعلق معاملات میں ’ڈیل‘ کا لفظ بہت برجستہ انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ ٹرمپ اپنے حلیفوں کی حمایت اور حریفوں کی مخالفت میں اس لفظ کا استعمال جس تواتر کے ساتھ کر رہے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ عالمی سیاسی فرہنگ میں اس لفظ کی اہمیت اور مقبولیت دوچند ہونے والی ہے۔ ٹرمپ کا ہر ملک سے ڈیل کرنے کا اصرار یہ بھی واضح کرتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں اپنی ڈیل کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ 
اسرائیل کی حمایت میں امریکی صدر ایران سے بھی ڈیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ڈیل کا مقصد ایران کو نچلا بٹھانا ہے اور ایران اس کیلئے قطعی راضی نہیں ہے۔ اس نے بہت واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ جبراً تھوپی گئی جنگ سے پیچھے ہٹنے اور اسی طرح جبراً مسلط کئے گئے امن کو قبول نہیں کر سکتا۔ ایران کا یہ بیان قومی وقار کے تحفظ کیلئے جاں نثاری کے اس کے جذبہ کو آشکار کرتا ہے اور موجودہ دور میں یہ عزم اور حوصلہ بہت کم ملکوں کے پاس ہے جو اپنی محدود طاقت کے دم پر دنیا کے طاقتور ترین ملکوں سے لوہا لینے سے پیچھے نہ ہٹیں۔ ایران کا یہ عزم و حوصلہ ان ملکوں کیلئے بھی ایک سبق ہے جو اپنے قومی وقار کو بالائے طاق رکھ کر امریکہ کے آگے کمر خمیدہ ہونے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK