ٹرمپ کے بیان کہ اگر فوجی کارروائی نہیں روکی گئی تو وہ ہندوستان پاکستان سے تجارت بند کر دیں گے، پر ہماری خاموشی افسوس ناک ہے۔
EPAPER
Updated: May 18, 2025, 1:59 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
ٹرمپ کے بیان کہ اگر فوجی کارروائی نہیں روکی گئی تو وہ ہندوستان پاکستان سے تجارت بند کر دیں گے، پر ہماری خاموشی افسوس ناک ہے۔
پہلگام حادثے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہونے والی فوجی کارروائی کو روکنے کا اعلان بلاشبہ ایک اہم اور لائق ستائش فیصلہ تھا۔ اس فیصلے سے دونوں ملکوں کے عوام نے راحت کی سانس لی اور ممکنہ جنگ کے سبب ہونے والے جان و مال کے نقصان کا خدشہ بھی ٹل گیا۔ وزیر اعظم نے ملک سے خطاب میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے جن باتوں کا ذکر کیا ان میں ہندوستان کی امن پسندی اور ملک کی عظمت اور وقار کے تحفظ کیلئے سخت اقدامات سے گریز نہ کرنے پر خصوصی زور دیاگیا۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد اور ان کی پشت پناہی کرنے والے عناصر انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان عناصر کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا۔ اپنے غلیظ اور مجرمانہ ارادوں کو عملی شکل دینے کیلئے یہ کسی بھی مذہب کا مکھوٹا اپنے چہرے پر لگاسکتے ہیں۔ ان شرپسند عناصرکے ایسے مذموم عمل کا مقصد مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور عناد پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس ناپاک مقصد کو ناکام بنانے کیلئے عوام کی دوراندیشی اور اپنے گرد و اطراف کے حالات و معاملات کا معروضی اور معقول تجزیہ کرنے کی صلاحیت بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔ پہلگام حادثے کے بعد ہندوستان کے بیشتر لوگوں نے ایسی معاملہ فہمی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کیا جس نے دہشت گردوں کے مقصد کو ناکام بنا دیا۔ ملک کے عوام کے ساتھ ہی فوج اور سیاسی سطح پر ارباب اقتدار کی حکمت عملی نے خطے میں امن بحالی کیلئے سازگار ماحول تعمیر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پہلگام حادثہ اور اس کے رد عمل میں فوجی کارروائی کے دوران جس طرح کے حالات اور مسائل پیدا ہوئے اگر ان سب کا غیر جانبدارانہ اور معروضی تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہندوستانی فوج نے اپنے فرض کی تعمیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن عوام اور سیاستدانوں خصوصاً ارباب اقتدار نے بعض مراحل پر ایسی عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کیا جو ان حالات اور مسائل کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ عوام کا وہ طبقہ جو حکومت پرستی اور وطن سے محبت کو ایک دوسرے کا متبادل سمجھتا ہے وہ طبقہ اپنی اس ناقص سمجھ کے سبب نہ صرف حساس معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے بلکہ اپنی کارستانیوں سے امن وآتشی کی فضا کو اس قدر آلودہ کر دیتا ہے کہ نفرت اور تشدد کو پروان چڑھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت سماج میں ایسے افراد بہت نمایاں اور سرگرم نظر آتے ہیں جن کا شمار اس طبقہ میں ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ان سیاستدانوں کا بھی ہے جو فرقہ واریت کے د م پر سیاست کرتے ہیں۔ یہ سیاست داں اپنے عارضی سیاسی مفاد کیلئے کبھی کبھی ایسے اقدام بھی کر گزرتے ہیں جو ملک کی عظمت اور وقار کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ کرنل صوفیہ قریشی کے متعلق نازیبا زبان استعمال کرنے والے مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ اور ان کے جیسے دیگر سیاست داں اسی زمرے میں آتے ہیں۔
ایسے نازک وقت میں جبکہ دو ملک ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں، بعض سیاستداں ایسی غیر شائستہ زبان تو استعمال نہیں کرتے لیکن اپنی چرب زبانی کا مظاہرہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں جو پورے معاملے کی نوعیت ہی تبدیل کر دیتی ہے۔ ملک سے وزیر اعظم کے خطاب سے محض چند گھنٹوں قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاک و ہند اور کشمیر تنازع کے متعلق جو بیان دیا اس میں دو باتیں بہت واضح طور پر اُن کی سیاسی فہم اور سپر پاور ہونے کی حیثیت سے ان کے زعم اور تکبر کو نمایاں کرتی ہیں۔ کشمیر تنازع سے متعلق ان کی سیاسی سمجھ کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اسے صدیوں پرانا تنازع قرار دیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کے صدر ہونے کی حیثیت سے وہ خود کو پاک و ہند کے حکمرانوں کا حاکم سمجھتے ہیں۔ اپنے بیان میں ٹرمپ نے جس خود اعتمادی کے ساتھ دونوں ملکوں کو فوجی کارروائی روکنے کی ہدایت دی اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطے میں امریکی عمل دخل کا دائرہ وسیع کرنے کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں۔ کشمیر تنازع کو حل کرنے کیلئے ثالث کا کردار نبھانے کی خواہش کا اظہار وہ اتنی مرتبہ کر چکے ہیں کہ جیسے دونوں ملکوں کے تمام مسائل کا واحد حل ان کی ثالثی میں ہے۔
کشمیر تنازع میں ثالثی کرنے کی خواہش کا بارہا اظہار اسلئے بھی ہے تاکہ دنیا پر یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ امن اور انصاف کی حمایت کرنا امریکی سیاست کا بنیادی موقف ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں کو اپنے ہتھیاروں کے گاہگ کے طور پر دیکھنے والا ملک عالمی امن و آشتی کا خود ساختہ سرخیل بن کر حق و انصاف کی جو باتیں کرتا ہے ان باتوں کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اسرائیل کی غاصبانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود اس کی حمایت اور دلجوئی امریکہ کے ان دعوؤں کی حقیقت عیاں کر دیتی ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں جو خلفشار برپا اس کی ایک وجہ اس خطہ میں امریکی ہتھیاروں کی کھپت بڑھانے کی وہ ہوس بھی ہے جو امریکی معیشت کو مضبوط بناتی ہے اور اس کے عوض میں لاکھوں افراد کو ہمہ وقت جان و مال کے نقصان کے اندیشے میں مبتلا رکھتی ہے۔ دنیا میں قیام امن کی ایسی انوکھی کوشش امریکی سیاست کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔ ٹرمپ اب کشمیر تنازع کو بھی اسی طرز کی کوشش سے حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی اس خواہش کی تردید موثر انداز میں دونوں طرف کی حکومتیں نہیں کر رہی ہیں۔ یہ لاچاری ۱۹۷۲ء میں ہوئے شملہ معاہدہ کی اہمیت اور عالمی سطح پر دونوں ملکوں کے وقار پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔
امریکی صدر نے دونوں ملکوں کو فوجی کارروائی روکنے پر راضی کرنے کا جو سبب بتایا وہ بھی غیر معقول اور نامناسب تھا۔ اس سبب نے دونوں ملکوں کے سیاسی مرتبہ اور قومی وقار کو متاثر کیا ہے جس کی پرزور مخالفت دونوں طرف سے ہونی چاہئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ خاموشی ایک طرح سے ٹرمپ کے اس بیان کی تائید ہے جس میں انھو ں نے کہا تھا کہ اگر فوجی کارروائی روکی نہ گئی تو وہ دونوں ملکوں سے تجارت کرنا بند کر دیں گے۔ ٹرمپ کی دوستی کا دم بھرنے والے سیاست دانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی دوستانہ مشورہ نہیں بلکہ ملک کی معیشت پر اثر انداز ہونے والی کھلی دھمکی تھی۔ جو مسئلہ خالص سیاسی نوعیت کا ہے اسے حل کرنے کیلئے تجارت کا حربہ استعمال کرنا، چہ معنی؟
ٹرمپ کے بیان پر دونوں ملکوں سے ایسا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا جو اس دھمکی بھرے مشورہ سے عدم اتفاق ظاہر کرتا ہو۔ حکمرانوں کی یہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی معاملات پر تجارت حاوی ہو گئی ہے۔ ایسے حساس اور نازک مسئلے کا حل سیاسی دانشمندی اور عوامی ہمدردی کے جذبہ سے ہی نکل سکتا ہے۔ ٹرمپ کے ذریعہ تجارت کو سیاست پر فوقیت دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ بھلے ہی وہ وہائٹ ہاؤس کے پروقار منصب پر فائز ہوں لیکن بنیادی طور پر وہ ایک بزنس مین ہیں جو ملک اور بیرون ملک کے معاملات کو صرف اور صرف نفع و نقصان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
امریکی صدر کے بیان پر ہندوستانی وزیر اعظم کی خاموشی بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ملک کی سالمیت اور امن و خوشحالی سے وابستہ حساس معاملات میں تجارت کا سیاست پر حاوی ہونا ان کے نزدیک کچھ معیوب نہیں ہے۔ تجارت سے سیاست کے ربط کی تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن جب معاملہ ملک کی عظمت اور وقار کا ہو تو اس وقت اس ربط میں غالب حیثیت سیاست کی رہی ہے۔ جب بھی کبھی اس حیثیت نے برعکس صورت اختیار کی ہے تو سماجی امن کو نقصان پہنچا ہے۔ تجارت کرنے والا صرف مالی منفعت کو ترجیح دیتا ہے جبکہ ملک کی سربراہی کرنے والا سیاستداں ملک کی سیاسی خودمختاری کو مستحکم بنانے کے ساتھ ہی سماجی امن و خوشحالی اور معاشی ترقی کی تدابیر کرتا ہے۔ ایک طرف صرف دھن و دولت میں اضافہ کا رجحان اور دوسری طرف پورے ملک و معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کے اسباب و مواقع تلاش کرنے کی کاوش۔ اگر دھن و دولت میں اضافہ کا رجحان اس کاوش پر غالب آ جائے تو سماجی امن اور خوشحالی کی باتیں محض باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔ ہندوستانی عوام گزشتہ ایک دہائی سے ایسی ہی باتیں متواتر سنتے رہے ہیں اور ٹرمپ کے بیان پر خاموشی ایسی باتوں کے جاری رہنے اور اقتدار کے پسندیدہ کارپوریٹ گھرانوں کے مفاد کی راہ ہموار کرتے رہنے کے حکومتی رجحان کو مزید مستحکم بناتی ہے۔