• Tue, 30 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نفرت کے ماحول میں محبت کی قابل ستائش پہل

Updated: September 28, 2025, 4:37 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اعظم گڑھ کے رہنے والے راکیش سنگھ اور ان کے بھائیوں نے مسلمانوں کو قبرستان کیلئے اپنی زمین عطیہ کرکے ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے معاملے میں حساس ترین ریاست اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے اسمبلی حلقہ سگڑی میں واقع گاؤں رام نگر کے پانچ بھائیوں کے ایک فیصلے نے پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر دل انسانیت کے جذبے سے معمور ہو تو محبت نفرت کو پسپا کر دیتی ہے۔ رام نگر کے پانچ بھائیوں راکیش سنگھ، اکھلیش سنگھ، دنیش سنگھ، سدھاکر سنگھ اور اومکار سنگھ نے ہمسایہ گاؤں حاجی پور کے مسلمانوں کو قبرستان کیلئے اپنی زمین عطیہ کردی۔ حاجی پور میں مسلمانوں کے تقریباً ۱۰؍گھر ہیں جن کے پاس قبرستان نہ ہونے کے سبب انھیں ایک دوسرے گاؤں رسول پور میں اپنے مردوں کی تدفین کرنی پڑتی تھی۔ حاجی پور کے مسلمانوں کو اس امر میں کئی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ حاجی پور سے رسول پور کی مسافت رام نگر کے مقابلے زیادہ ہے دوسرے یہ کہ رسول پور کے قبرستان میں تدفین کیلئے کمیٹی کے اراکین کی رضا مندی حاصل کرنے میں اکثر دشواریاں پیش آتی تھیں۔ راکیش سنگھ اور ان کے بھائیوں کی عطا کردہ تقریباً ۳۰؍لاکھ روپے مالیت کی اس اراضی سے اب حاجی پور کے مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ 
اس وقت ملک گیر سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا جو کاروبار جاری ہے اور جسے بڑی حد تک اقتدار کی حمایت حاصل ہے اس کا مشاہدہ عوامی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ انتظامیہ، پولیس، عدلیہ میں مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کے سبب ان کی اجتماعی نفسیات میں محرومی اور مایوسی نے گھر بنا لیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسکول، کالج، دفتر، بازار، بس، ٹرین، جہاز اور کسی بھی عوامی مقام یا رہ گزر پر شر پسند عناصرمسلمانوں کے خلاف تشدد کی شکل میں اپنی مذہبی منافرت کا بے دریغ اظہار کرتے ہیں اور بیشتر میں ان کی باز پرس یا قانونی چارہ جوئی بھی نہیں ہوتی۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کو عدم تحفظ کی دائمی کیفیت کا شکار بنا دیا ہے۔ مایوسی، محروی اور عدم تحفظ کی کیفیت میں مبتلا قوم کیلئے برادران وطن کے ایسے فیصلے نفرت کی تپش میں محبت کی اس پھوار کی مانند ہیں جو انھیں تازہ دم رکھنے اور سماج میں محبت اور یگانگت کا پیغام عام کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 
یہ اترپردیش وہی ریاست ہے جہاں سرکاری فرمان کی بنیاد پر بلڈوزر سے مسماری وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کی شناخت کا نمایاں حوالہ بن چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ ایسے اقدامات کو غیر آئینی قرار دئیے جانے کے باوجود وزیر اعلیٰ کا یہ پسندیدہ شغل اب بھی گاہے گاہے اپنی ہیبت ناکی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے اور بیشتر اس کی زد میں مسلمان ہی آتے ہیں۔ اس ریاست میں اب تک ۲۰؍ سے زیادہ مساجد اور مدرسوں کو ناجائز تعمیرات قرار دے کر مسمار کیا جا چکا ہے۔ اس مسماری کی زد پر وہ تعمیرات بھی رہی ہیں جو سو، ڈیڑھ سو برس یا اس سے بھی زیادہ قدیم تھیں۔ مسجدوں، مدرسوں اور مزارات کے علاوہ کئی قبرستانوں پر بھی یہ سرکاری بلڈوزر چل چکا ہے۔ ایسی ہی ایک کارروائی میں گزشتہ ماہ سنبھل کے ایک قبرستان کو ناجائز قبضہ قرار دے کر مسمار کر دیا گیا۔ 
ایک طرف ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ اس حد تک امتیاز برتا جارہا ہے کہ ان کے مکانات، مذہبی مقامات اور قبرستانوں کوناجائز تعمیر قرار دے کر مسمار کر دینے کا سلسلہ جاری ہے وہیں دوسری طرف رام نگر کے وہ پانچ بھائی ہیں جنھوں نے پڑوسی گاؤ ں کے مسلمانوں کو پریشانی اٹھاتے دیکھ کر وسیع اراضی قبرستان کیلئے عطیہ کردی۔ اس وقت فرقہ واریت جس شدت کے ساتھ سر چڑھ کر بول رہی ہے، ایسے ماحول میں سنگھ برادران جیسے دیگر انسانیت نواز اور محبت شناس افراد بھلے ہی کم ہوں لیکن یہ قلت اکثر اس کثرت پر بھاری پڑ جاتی ہے جو مذہب اور ذات کی بنیاد پرنفرت اور تشدد کے ذریعہ سماج کو ایک خلفشار میں مبتلارکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے سماجی ڈھانچے کو مکمل طور پر منہدم ہونے سے بچائے رکھا ہے اور انہی لوگوں کا جذبہ ٔ انسانیت مختلف سطحوں سے جاری ہونے والے نفرت کے سیل رواں کی طغیانی کو کمزور بنا دیتا ہے۔ 
اقتدار اعلیٰ کے اس بیان کی یاد اب بھی امن و اتحاد پسند لوگوں کو اذیت پہنچاتی ہے جس میں انھوں نے قبرستان اور شمشان کا شوشہ چھوڑا تھا۔ یہ بیان بھی اترپردیش کے فتح پور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران اکھلیش حکومت کو ہدف بنانے کی خاطر دیا گیا تھا۔ شمشان، قبرستان، دیوالی، رمضان اور لباس سے شناخت والے بیانات کا ہی اثر ہے کہ اب بے بنیاد وجوہات اور بغیر کسی قانونی یا منطقی جواز کے بہ آسانی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشد د کا اظہار ان شر پسندوں کا مشغلہ بن گیا ہے جنھیں نہ تو دھرم کی حقیقی سمجھ ہے اور نہ ہی اس ملک میں اتحاد و یکجہتی کی روایت اور اس روایت کے ان مفادات کا علم ہے جو اسے ملکی اور عالمی سطح پر ثروت مند اور طاقتور بناتے ہیں۔ ایسے پُرفتن ماحول میں سنگھ برادران اور ان جیسے دیگر لوگوں کے جذبہ ٔ انسانیت کی قدر ہونی چاہئے جو یہ جانتے ہیں کہ دھرم اور سیاست کا لبادہ اوڑھ کر ملک و معاشرہ میں نفرت پھیلانے والے عناصر نہ تو اس ملک کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی ان کانفرت آمیز پروپیگنڈہ بہت دنوں تک عوام کو گمراہ کر سکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK