• Thu, 02 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بلی تھیلے سے باہر: سابق چیف جسٹس چندر چُڈ نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا

Updated: September 30, 2025, 10:03 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

یہ واضح  ہوگیا کہ ثبوت نہ ہونے کے باوجود بابری مسجد کیس کافیصلہ مندر کے حق میں  کیوں سنایاگیا، یہ الگ بات ہے کہ عدلیہ پر اٹھنے والے سوالات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔

Former Chief Justice Chandrachud. Photo: INN
سابق چیف جسٹس چندر چُڈ۔ تصویر: آئی این این

بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندر چُڈجن سے ملک کے انصاف پسند اور سیکولر طبقہ نےبہت زیادہ امیدیں باندھ لی تھیں، انہوں نےسپریم کورٹ میں رہتے ہوئے اور سپریم کورٹ سے سبکدوش ہونے کے بعد ایک سے زائد بار اُن لوگوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ان کی امیدیں بے جاتھیں۔ بابری مسجد کیس جو ہندوستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے متنازع اور اپنے اندر تضاد سے پُر ہے، ملک کے عدالتی نظام پر ہی دھبہ نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ ڈی وائی چندر چُڈ کے دامن پر بھی ایسے داغ کی طرح لگ گیا ہے جسے وہ جتنا صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی وہ پھیلتا چلا جاتاہے۔ اپنی کتاب کے اجراء سے قبل بادی النظر میں اس کی ’’مارکیٹنگ‘‘ کے مقصد سے وہ ان دنوں یکے بعد دیگرے انٹرویو دے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں انہوں نے این ڈی ٹی وی سے شہرت حاصل کرنے والے مایہ ناز صحافی سرینواسن جین سے بھی بات کی۔ سری نواسن نے نیوز لانڈری کیلئے سابق چیف جسٹس کا انٹرویو کرتے ہوئے ان سے وہ سب کہلوا لیاجسے اب تک انہوں نےکہنے سے گریز کیاتھا۔ 
 وہ اس بات پر اصرار کررہے تھے کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ عقیدے کی بنیاد پر نہیں ثبوتوں کی بنیاد پرسنایاگیا ہے مگر جب یکے بعد دیگرے وہ اس کی دلیل پیش نہ کرسکے اور سرینواسن جین نے بابری مسجد کے اندر مورتی رکھ کرمسجد کی بے حرمتی کی جانب ان کی توجہ دلائی اور سوال کیا کہ مسلمان تو مسجد کے باہر ہورہی پوجا پر اعتراض نہیں کررہے تھے، اکثریتی فرقہ کے افراد نے اندر گھس کر مسجد کی بے حرمتی کی اور سزا اُلٹا مسلمانوں کو (ان سے مسجد چھین کر)ملی تو انہوں نے سنگھ پریوار کے بیانیہ کو بطور ثبوت پیش کردیا کہ ’’بنیادی بے حرمتی تو بذات خود بابری مسجد کی تعمیر ہے، اسے آپ کیسے بھول سکتے ہیں۔ ایک بار آپ اسے تسلیم کرلیں گے اور اس کے محکمہ آثار قدیمہ کی کھدائی کی شکل میں ہمارے پاس ثبوت بھی موجود ہیں تو پھر آپ اپنی آنکھیں کیسے بند رکھ سکتے ہیں۔ ‘‘ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسےخود جسٹس چندر چڈ نے تحریر کیا تھا، واضح طو رپر کہتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں اس بات کے ثبوت نہیں ملے کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس فیصلے میں یہ بھی تسلیم کیاگیاتھا کہ مسجد کی شہادت غیر قانونی عمل تھا۔ اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جارہاتھا کہ جب سپریم کورٹ نے یہ مان لیا کہ اس بات کے ثبوت نہیں ہیں کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کربنائی گئی تھی اور اس کی شہادت غیر قانونی تھی تو پھر کورٹ نے مسجد کی زمین مندر کو دینے کافیصلہ کیوں کر سنا دیا۔ اس سوال کا جواب سری نواسن جین کو دیئے گئے چندر چڈ کے انٹر ویو سے مل جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بات کے ثبوت بھلے نہ ہوں کہ بابری مسجد مندر توڑ کر غاصبانہ طور پر بنائی گئی تھی مگر جج اس بیانیہ سے قائل تھےکہ مندر توڑ کر ہی مسجد بنی ہے، سو انہوں نےوہ فیصلہ سنایا جو انہیں سنانا تھا۔ 
۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں نے تاریخی پریس کانفرنس میں ملک کے عوام کو آگاہ کیاتھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ جسٹس چیلامیشور جنہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیاتھا، نے یہ انتباہ بھی دے دیا تھا کہ ’’اگراس ادارہ (سپریم کورٹ ) کو محفوظ نہ رکھا گیا اور یہ ادارہ اگر اپنے وقار و توازن کو برقرار نہ رکھ پایا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ پائے گی۔ ‘‘ آج ملک میں جمہوریت اور اس کی بقا پر اٹھنے والے سوالات ہمارے سامنے ہیں، ساتھ ہی عدالتی نظام پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ سپریم کورٹ کے توازن اور وقار کا سوال اس کےبعد اُس وقت ایک بار پھر شدت سے اٹھا جب وزیراعظم نریندر مودی اُس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کی رہائش گاہ پر گنپتی کی پوجا میں شرکت کیلئے پہنچ گئے اور اس کی باقاعدہ تشہیر کی گئی۔ نظام انصاف سے وابستہ معروف وکیلوں اور ملک کے عام انصاف پسند سمجھدار شہریوں کا اس پر دنگ رہ جانا فطری تھا۔ اس لئے کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان ایک حد فاصل کا برقرار رہنا ضروری ہے۔ یہی ڈی وائی چندر چڈ تھے جب الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ سے ترقی ہو کر انہیں سپریم کورٹ منتقل ہونا تھا۔ ان کیلئے غیر معمولی الوداعی پروگرام کا انعقاد کیا گیاتھا۔ معروف صحافی سورو داس نے ’کارواں ‘ میگزین میں نومبر ۲۰۲۴ء میں شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں اس کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس پروگرام میں اُس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ٹی ایس ٹھاکر سمیت عدالتی اور قانونی شعبے کی تمام اہم شخصیات کو مدعو کیاگیاتھا مگر سیاستدانوں یا وزیروں کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ ہائی کورٹ کے ایک سابق جج نے سوروداس کو بتایا کہ یہ فیصلہ ڈی وائی چندر چڈ کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ ’’اختیارات کی تقسیم‘‘ انہیں اس بات کا پابند کرتی ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ ملک کے وہ طبقہ جو یہ محسوس کررہا تھا کہ ملک میں آمرانہ طرز عمل بڑھ رہا ہے، وہ جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ کے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہونے کا منتظر تھا۔ چندرچڈ نے عہدہ سنبھالا تو لوگوں کو امید تھی کہ وہ حالات کا رخ موڑیں گے اور خرابیوں کو دور کریں گے۔ افسوس کہ انہیں مایوسی ہاتھ لگی۔ اپنے تازہ انٹرویو میں انہوں نے سب کچھ مزید کھول کر رکھ دیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK