• Thu, 02 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مودی سرکار کے’بچت اُتسو‘ کااستقبال ہے لیکن ۸؍ سال کی لوٹ کا حساب کون دے گا؟

Updated: September 30, 2025, 10:00 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

سرکار اپنی تشہیر تو جم کرکررہی ہے مگر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ جن ۸؍ برسوں میں ہر چھوٹی بڑی چیز پرٹیکس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر رکھا گیا، اس کا حساب کون دے گا؟ ’بچت اُتسو‘ کے ساتھ ایک اور پیکیج بھی ضروری ہے’’حساب اور احتساب اُتسو‘‘

Prime Minister Modi explaining the importance of `GST Bachat Utsav` to local traders and businessmen in Arunachal Pradesh. Photo: INN
اروناچل پردیش میں مقامی تاجروں اور کاروباریوں کو ’جی ایس ٹی بچت اُتسو‘ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے وزیراعظم مودی۔ تصویر: آئی این این

ملک میں عجب تماشہ جاری ہے۔ حکومت ہر سال کوئی نہ کوئی نیا ’’اُتسو ایجاد کر دیتی ہے۔ کبھی ’’سب کا ساتھ سب کا وِکاس اُتسو‘‘، کبھی ’’ڈجیٹل انڈیا‘‘ ، کبھی اچھے دن اور اب تازہ کڑی ہے ’’بچت اُتسو‘‘۔ بڑے بڑے پوسٹر، رنگ برنگے بینر، ٹی وی پر گرما گرم مباحثےاور وزیروں کے جلی حروف میں بھاشن گویا بچت کے اس میلے نے غریب عوام کی جیبوں کو خزانہ بنا دیا ہو۔ مگرسوال یہ ہے کہ آٹھ سال سے جو ’’لوٹ اتسو‘ منایا جا رہا تھا، اس کا حساب کون دے گا؟وزیر اعظم اور ان کی ٹیم عوام کو سمجھانے میں مصروف ہیں کہ جی ایس ٹی میں جو اصلاحات کی گئی ہیں وہ ان کا ہزاروں روپیہ بچائیں گی لیکن یہ سوال تب بھی اٹھتا تھا جب آٹھ برسوں تک عوام کی محنت کی گاڑھی کمائی بڑے بڑے صنعت کاروں کے سپرد کی جاتی رہی، تب کسی نے بچت اتسوکا نعرہ کیوں نہیں لگایا؟ جب بڑے بڑے صنعتکاروں کے قرض معاف کئے جاتے رہے اور سرکاری کمپنیاں کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کی گئیں، تب یہ بچت اتسو کہا ں تھا ؟ اب حکومت نے جی ایس ٹی میں جو تخفیف کی ہے وہ بھی بحالت مجبوری کی گئی ہے۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان سے ایکسپورٹ ہونے والی اشیاء پر بھاری ٹیریف نہ عائد کردیتے تو ممکن تھا کہ مودی حکومت کو ٹیکس میں اس بڑی رعایت کا خیال ہی نہیں آتا۔ اگر جی ایس ٹی، جسے راہل گاندھی ’گبر سنگھ ٹیکس ‘ کہتے کہتے نہیں تھکتے، کی وجہ سے معیشت میں کھپت بالکل نہ کے برابر نہ ہوجاتی تو مجال ہے کہ حکومت جی ایس ٹی میں اتنی بڑی تخفیف کا اعلان کرتی اور اپنے خزانہ کو خالی ہونے دینے کی اجازت دیتی۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ ایک تو ٹرمپ کے اقدامات اورڈیمانڈ کم ہوجانے کی وجہ سے معیشت کی دگرگوں حالت کے سبب ہی مودی حکومت نے یہ کڑوی کسیلی گولی نگلنے کی ہامی بھری ہے۔ 
 سرکارنے حال ہی میں بڑے دھوم دھڑاکے کے ساتھ اعلان کیا کہ جی ایس ٹی میں تخفیف کی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ’بچت اُتسو‘ کا آغازہو گا۔ پہلی نظر میں یہ اعلان ایسا لگتا ہے جیسے سرکاری خزانے کے دروازے عوام پر کھول د ئیے گئے ہوں اور ہر گھر میں خوشحالی کا سیلاب آنے والا ہو لیکن جنہیں مہنگائی کی لہر نے دن رات ہانپنے پر مجبور کر دیا ہے، ان کے لیے یہ اعلان ایسا ہی ہے جیسے بھوکے کو تصویری بریانی دکھا کر کہا جائے’’یہ دیکھو! حکومت نے تمہارے لئے خصوصی رعایت کا انتظام کیا ہے۔ ‘‘ ویسے ہمیں مودی حکومت کے اس اقدام کی ستائش کرنی چاہئے کہ وہ ۸؍سال تک عوام کو ٹیکس کے بوجھ تلے دبادینے کے بعد اب راحت دے رہی ہے تو اسےبھی اپنا ہی کمال قرار دے رہی ہے۔ 
’بچت اُتسو‘ کا مطلب عام شہری کے لئے یہ ہے کہ دکان پر جانے کے بعد وہ بل ہاتھ میں پکڑ کر سوچتا ہے کہ واقعی کچھ بچت ہوئی ہے یا یہ محض اعداد و شمار کا کھیل ہےجس میں حساب کرنے والے کا فائدہ ہمیشہ بڑھتا ہے اور خرچ کرنے والا خالی جیب رہ جاتا ہے۔ جی ایس ٹی میں جو تخفیف دکھائی جا رہی ہے، وہ دراصل ان اشیاء پر ہے جو یا تو عموماً کم ہی خریدی جاتی ہیں یا جنہیں لوگ پہلے ہی مہنگائی کے سبب اپنی فہرست سے نکال چکے ہیں۔ یعنی پبلک کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آٹا، دال، تیل اور سبزیاں بدستور اپنی ’’آسمانی پرواز‘‘ میں مصروف ہیں اور ’جشن بچت‘ اُن چیزوں پر ہے جنہیں دیکھ کر عوام کہتے ہیں : ’’بھائی! یہ تو ہم ویسے ہی نہیں خریدپاتے ہیں۔ ‘‘ مثال کےطور پر گاڑیاں سستی ہونے کا خوب غلغلہ بلند کیا جارہا ہے لیکن گاڑیوں کی ضرورت ملک کے ۱۴۰؍ کروڑ میں سے کتنے کروڑ لوگوں کو ہوتی ہے؟ہمارے خیال میں چند فیصد بھی نہیں۔ پھر ایسی بچت کا کیا فائدہ جو عوام کی اکثریت تک پہنچے ہی نہیں۔ 
’بچت اُتسو‘ کے بینروں اور تشہیری مہم میں عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ اب زندگی آسان ہو جائے گی۔ انہیں تمام اشیاء سستی ملنے لگیں گی۔ ایک سروے کے دوران کئی دکانداروں نے یہ اعتراف کیا کہ کچھ چیزیں سستی تو ہو جائیں گی لیکن اتنی نہیں جتنے کی تشہیر کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ایک دو مہینے بعد دوبارہ دام بڑھادئیے جائیں گے۔ یہ کئی مرتبہ ہوا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ سرکار اپنی تشہیر تو خوب کررہی ہے مگر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ جن ۸؍ برسوں میں ہر چھوٹی بڑی چیز پرٹیکس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر رکھا گیا، اس کا حساب کون دے گا؟ اگر واقعی حکومت کو عوام کی فکر ہوتی تو ’اُتسو‘ کے ساتھ ایک اور پیکیج بھی آتا’’حساب اُتسو‘‘ کا، جس میں بتایا جاتا کہ پچھلے برسوں میں کس نے کتنا لوٹا اور کس طرح عوام کی جیب سے پیسہ نکال کر بڑے صنعتکاروں کے خزانے بھرے گئے۔ کانگریس پارٹی نے بھی یہی سوال اٹھایا کہ جی ایس ٹی اب کم کیا گیا لیکن ۸؍ سال تک جو خزانے بھرے گئے ان کا حساب بھی دیا جائے۔ ’بچت اُتسو‘ اقتصادی فیصلہ نہیں بلکہ سیاسی مارکیٹنگ کا نیا تجربہ ہے۔ جیسے سیل لگانے سے پہلے قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں پھر رعایت کا اعلان کر کے گاہک کو خوش کیا جاتا ہے۔ عوام کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ’’دیکھو، تمہاری حکومت کتنی مہربان ہے۔ ‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ بچت جیب میں نہیں بلکہ صرف اشتہارات اور تقریروں میں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ عوام کے پاس کیا واقعی بچانے کیلئے کچھ باقی ہے؟
جب تنخواہیں وہیں کی وہیں ہیں، روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں بلکہ بے روزگاری آسمان پر پہنچی ہوئی ہے اور روزمرہ کے اخراجات بھی آسمان چھو رہے ہیں تو یہ اُتسو محض ایک ایسا جشن ہے جس میں ڈھول تو بج رہا ہے مگر ناچنے والا کوئی نہیں۔ صابن پر سے ٹیکس کچھ کم ہوا ہے، لیکن جو عام آدمی صابن خریدنے کے قابل ہی نہ بچا، اس کے لئے یہ چھوٹ کس کھاتے میں گئی؟ بچوں کی پنسل پر ٹیکس گھٹا دیا گیا، لیکن جن اسکولوں کی فیس جیب کاٹ رہی ہے، وہاں پنسل کہاں سے استعمال ہوگی؟ دراصل حقیقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی میں تخفیف کا اعلان وہی ہے جیسے جلتے گھر کے مکین کو کہہ دیا جائے کہ’’گھبراؤ نہیں، ہم نے آگ کے شعلوں کی اونچائی آدھی کر دی ہے۔ ‘‘اب عوام کو سوچنا ہے کہ یہ جی ایس ٹی کی کمی واقعی راحت ہے یا صرف راحت کا اشتہار؟ حکومت نے رعایت کا جھانسا دے کر اپنی جیب خالی نہیں کی، البتہ عوام کی تالیاں ضرور بجوا لیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ تخفیف صرف ٹی وی اسکرین پر ہے، روزمرہ کی زندگی میں نہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK