پہلگام حملے میں شہیدنیوی افسر وِنے نروال کی بیوہ ہمانشی کے بیان پر نفرتی عناصر نے جو خلفشار سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے وہ سماجی امن کیلئے خطرہ ہے۔
EPAPER
Updated: May 11, 2025, 4:09 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
پہلگام حملے میں شہیدنیوی افسر وِنے نروال کی بیوہ ہمانشی کے بیان پر نفرتی عناصر نے جو خلفشار سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے وہ سماجی امن کیلئے خطرہ ہے۔
گزشتہ۱۵؍ دنوں کے دوران ملک جن حالات اور حادثات سے دوچار رہا وہ اقتدار کی سیاسی حکمت عملی اور عوام کے سماجی رویے کے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ پہلگام حادثہ یقینی طور پر ملک میں فرقہ ورانہ ماحول کو خراب کرنے کی ایک سازش تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے جو لوگ اس سازش کی زد میں آئے ان کے متعلقین اس وقت غم و اندوہ کے جس دور سے گزر رہے ہیں وہ ایسا سوہان روح ہے جس کی ٹیس پوری زندگی انھیں مضطرب رکھے گی۔ ایسے نازک وقت میں حادثے کا شکار ہونے والے مہلوکین کے اعزا اور قرابت داروں کو ایسی دلجوئی درکار ہے جو کسی حد تک ان کے درد کا مداوا کر سکے۔ عوام نے اس حادثے کے متاثرین کے تئیں جس درد مندی کا مظاہرہ کیا وہ یقیناً لائق ستائش ہے۔ یہ اظہار ہمدردی ان دہشت گردوں کیلئے شکست فاش ہے جو اپنے ظالمانہ عمل سے ملک کے سماجی امن کو متاثر کرنا چاہتے تھے۔ تمام ہندوستانیوں نے بلاتفریق قوم ومذہب اس حادثے کی مذمت کی۔ پہلگام میں انسانیت سوز درندگی کو انجام دینے اور ان درندہ صفت دہشت گردوں کی مدد و سرپرستی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پرزور مطالبہ سیاسی اور سماجی سطح پر کیا جاتا رہا۔ وطن عزیز کی فوج کا ’آپریشن سیندور‘ ملک میں فرقہ ورانہ منافرت بھڑکانے کی کوشش کرنے والے عناصر کے منہ پر ایسا طمانچہ ہے جس نے ان کا سارا کس بل نکال دیاہے۔
ایسے نازک وقت میں سماجی امن کو برقرار رکھنا ہر ہندوستانی شہری کا اولین فریضہ ہے۔ اس فرض کی ادائیگی میں تمام مذہب و ملت کے افراد اور سبھی سیاسی پارٹیاں نہ صرف ایک مرکز پر متحد ہیں بلکہ حکومت کے ہر اقدام کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں۔ یہی رویہ اور جذبہ اس ملک کا امتیاز ہے جو صدیوں سے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کا مسکن رہا ہے لیکن اس وقت بھی بعض شر پسند عناصر سماجی امن کو متاثر کرنے کی کوشش میں سرگرم ہیں ۔ ان عناصر کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے لیکن ان کے الفاظ اور بولی میں جو زہر بھرا ہوا ہے وہ کب اثر دکھانا شروع کر دے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ان عناصر کو ایسی زہر افشانی کا حوصلہ جن اسباب و عوامل سے حاصل ہو ا وہ سب پر عیاں ہے لہٰذا ان اسباب و عوامل کی تکرار کے بجائے اس تلخ اور تشویش ناک حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو ان نفرتی عناصر کی وجہ سے سماجی امن کیلئے ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے۔ ان عناصرنے اپنی غیر شائستہ بیان بازی کا دفاع اس مذہبی ٹیگ سے کرنے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے جسے دھرم آمیز سیاست میں مرکزیت حاصل ہے۔ اس طرز سیاست نے فرقہ ورانہ تعصب کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ اس کے اثر میں آنے والا ذہن امن و اتحاد کی بات تک سننا گوارا نہیں کرتا۔
سماجی امن کیلئے خطرہ بن چکے ان نفرتی عناصر نے پہلگام حادثہ کا شکار ہونے والے فوجی ونے نروال کی اس بیوہ کے خلاف بھی زہر افشانی سے گریز نہیں کیا جس نے شادی کے محض چند دنوں بعد ہی اپنا سہاگ کھو دیا۔ اس انتہائی اذیت کے دور سے گزرنے کے باوجود اس حوصلہ مند خاتون نے جس دانائی کا مظاہرہ کیا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر دل میں انسانیت کا احترام اور ملک و معاشرہ کی خوشحالی اور امن و آشتی کا جذبہ موجزن ہو تو بڑے سے بڑا غم سہار جانے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمانشی نروال نے پہلگام حادثہ کے بعد جس طرح کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں اظہار یکجہتی کیا وہ نہ صرف اس کی دانشمندی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس حوصلہ مند خاتون کی پرورش اور تربیت اس ماحول میں ہوئی ہے جو ملک و معاشرہ کی سالمیت اور امن کو ہر شے پر مقدم سمجھتا ہے۔ ہمانشی کے بیان پر نفرتی عناصر نے جو رد عمل ظاہر کیا اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ عناصر ملک سے محبت کا جو بھی دعویٰ کرتے ہیں اس دعوے کی حیثیت محض عارضی اور کاغذی ہے۔ اگر ملک سے محبت کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی ہوتا تو ہمانشی کے متعلق ایسی نازیبا اور بیہودہ زبان نہ استعمال کی جاتی جسے دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
ملک میں ان نفرتی عناصر نے جو خلفشار سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے وہ سماجی امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ یہ عناصر مذہبی منافرت میں اس قدر بدحواس ہو چکے ہیں کہ انھیں یہ بھی احساس نہیں کہ جو عورت کم عمری میں ہی بیوگی کے غم میں مبتلا ہو چکی ہے، اس کے خلاف نازیبا باتیں کہنے کی اجازت وہ دھرم بھی نہیں دیتا جس دھرم کا لیبل لگا کر وہ خود کے دھارمک ہونے اور دھرم آمیز سیاست کے پیروکار ہونے کے ناطے وطن سے محبت اور وفاداری کرنے کا دم بھرتے ہیں۔ ہمانشی نے پہلگام کا انتقام کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں سے نہ لینے کی جو اپیل کی تھی وہ ان دہشت گردوں کی گولیوں سے کہیں زیادہ طاقت رکھتی ہے جن گولیوں نے اس کی ازدواجی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ اس اپیل میں پہلگام حادثہ کے ان تمام متاثرین کی آواز شامل تھی جنھوں نے کسی نہ کسی شکل میں موت کے غم کو برداشت کیا لیکن دہشت گردوں کے ان منصوبوں کو ناکام بنا دیا جو ملک کی فضا کو فرقہ ورانہ تصادم سے مکدر بنانا چاہتے تھے۔ پہلگام حادثے کے مہلوکین کے ان باحوصلہ اور دانا و بینا متعلقین نے جس صبر و تحمل اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا وہ یقیناً لائق ستائش ہےلیکن وہیں دوسری طرف ملک کے بعض حصوں میں کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف جس نفرت اور اشتعال کا مظاہرہ کیا گیا اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل یہ عناصر ہی دہشت گردوں اور شرپسندوں کیلئے وہ نرم چارہ ہوتے ہیں جو ان کے مذموم منصوبوں کو کامیاب بنانے میں آلہ ٔ کار بنتے ہیں ۔
نفرت اور تشدد خواہ کسی بھی شکل یا کسی بھی عنوان سے ظاہر ہو سماج کیلئے نقصان دہ ہے۔ نفرت اور تشدد کے اظہار کا وسیلہ بننے والے عناصر اور ان عناصر کی پشت پناہی کرنے والے دونوں سماج کے گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمانشی نروال کے خلاف نازیبا باتیں کہنے والے عناصر نے سوشل میڈیا پر جس اوچھے پن کا مظاہرہ کیا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان عناصر کی ایسی بیہودہ حرکتوں پر قدغن لگانے یا ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے دانستہ گریز ارباب اقتدار کی ناقص سیاسی فہم کو اجاگر کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’ٹرول‘ اس قدر طاقتور ہو گئے ہیں کہ اقتدار بھی ان کے آگے خود کو بے دست وپا سمجھنے لگا ہے۔ ان نفرتی عناصر کے متعلق اقتدار کی خاموشی یا تو اس کی لاچاری ہے یا ایسی مجبوری جسے ترک کر دینے پر وہ سیاسی زمین کھسک سکتی ہے جسے فرقہ ورانہ رجحان کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ امن و اتحاد کی بات کرنے والوں کے خلاف اشتعال اور نفرت کا مظاہرہ کرنے والے یہ عناصر نہ تو کوئی سماجی ویژن رکھتے ہیں اور نہ ہی دھرم کا وہ بنیادی گیان جو امن و آشتی اور انسانیت نوازی کو ترجیح دیتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک و معاشرہ کے امن کو بگاڑنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈنے والے یہ عناصر خود کو محب وطن کہتے نہیں تھکتے۔ ہمانشی نروال کو نازیبا باتوں کا ہدف بنانے والے یہ عناصر نفرتی جنون میں اس قدر خبطی ہو چکے ہیں کہ اگر تادیر انھیں نفرت کے اظہار کا کوئی بہانہ نہ ملے تو یہ اپنے ہی ناخن سے اپنے سروں کو زخمی کرنے لگیں۔ یہی سبب ہے کہ فرقہ ورانہ سیاست کی راہ پر گامزن سیاست داں اور اقتدار پرست میڈیا ان عناصر کیلئے ایسے مواقع پیدا کرتا رہتا ہے کہ یہ اپنی نفرت اور اشتعال کا مظاہرہ کر سکیں۔
ملک اس وقت جس دور سے گزر رہا ہے اس میں ہر سطح پر اتحاد اور اخوت کے رجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ دائیں بازو کی سیاست کرنے والے اور ان کی حمایت کرنے والے میڈیا اور مذہبی اراکین اس رجحان کے فروغ کی راہ کو مسدود کرنے کی ہرممکنہ کوشش کرتے ہیں اور ایسی کوشش گزشتہ ایک دہائی میں کئی بار کی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں امن و آشتی اور اتحاد و یگانگت کی حمایت کرنے والے ہمانشی نروال جیسے لوگ ان کوششوں کو ناکام بناتے رہے ہیں اور یہی لوگ حقیقی معنوں میں محبت وطن ہونے کے دعویدار ہیں۔