غزہ کی تباہی رواں صدی کا وہ انسانی المیہ ہے جس نے انسانی تہذیب و تمدن کی داستان کو لہو لہان کر دیا ہے، وہاں صہیونی مظالم کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔
EPAPER
Updated: November 02, 2025, 2:32 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
غزہ کی تباہی رواں صدی کا وہ انسانی المیہ ہے جس نے انسانی تہذیب و تمدن کی داستان کو لہو لہان کر دیا ہے، وہاں صہیونی مظالم کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔
غزہ میں صہیونی ظلم و استبداد نے عالمی امن و آشتی کے تمام دعوؤں کو بے حقیقت بنا دیا ہے۔ غزہ میں جاری نسل کشی نے دنیا میں ہر طرف امن اور خوشحالی کے خواہاں نام نہاد بڑے لیڈروں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والی مختلف شعبوں سے وابستہ نمایاں شخصیات کے چہروں سے وہ نقاب بھی اٹھا دی ہے جو اُن کے مکروہ اور انسانیت سوز وجود پر مصنوعی محبت اور اخوت کا پردہ ڈالے تھی۔ گزشتہ دنوں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہونے کے باوجود اس خطہ پر صہیونی ظلم واستبداد کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرنے اور مشرق وسطیٰ کو اپنی خونیں خواہشات کا ہدف بنانے والے نیتن یاہو ٹرمپ کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، نہ ہی پوری دنیا میں غزہ کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے ان کے سفاک ارادوں کو کمزور کر پا رہے ہیں۔ جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی یہ واضح کرتی ہے کہ غزہ کی مکمل تاراجی اسرائیلی حکومت کا واحد ہدف ہے جس کی تکمیل کی راہ نہ تو امریکی ثالثی سے مسدود کی جا سکتی ہے، نہ ہی وہ عالمی ضابطے اور احتجاجی مظاہرے اس ہدف کو سر کرنے کے صہیونی ارادوں کو کمزور بنا سکتے ہیں جن کا سہارا لیکر دوسرے ملکوں کا حقہ پانی بندکر دیا جاتا ہے۔
غزہ کی تباہی رواں صدی کا وہ انسانی المیہ ہے جس نے انسانی تہذیب و تمدن کی داستان کو لہو لہان کر دیا ہے۔ اس خطہ پر صہیونی مظالم کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے اور امن کے خودساختہ علمبردار ٹرمپ اب بھی یہ دعویٰ کرنے سے باز نہیں آتے کہ اس کے جنگ بندی معاہدہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسرائیل اور امریکہ سمیت دنیا کے دیگر بڑے ملکوں کے سیاسی کھیل کا تختہ ٔ مشق بننے والے اہل غزہ اتنی مصیبت اور پریشانی جھیلنے کے باوجود جس عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ حق کے حصول اور سچ کے دفاع پر ثابت قدم رہنا ہی اصل انسانیت ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اس خطہ میں جاری فوجی کارروائی کے ذریعہ نسل کشی سے اسرائیل لاکھ انکار کرے لیکن انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم افراد اور تنظیموں نے بارہا یہ کہا ہے کہ اسے دفاعی کارروائی کہنا دراصل صہیونی چھلاوا ہے جس کے ذریعہ نیتن یاہو اپنے گھناؤنے ارادوں کی پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک ۶۸؍ ہزار سے زیادہ فلسطینی صہیونی فوجی کارروائی سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری اور زمینی گولی باری کے سبب تقریباً ۲؍لاکھ افراد زخمی ہوئے ہیں ان میں خاصی تعداد ایسے زخمیوں کی ہے جن کا وجود اب زندہ لاش کی مانند ہو گیا ہے۔
غزہ میں اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس خطہ سے فلسطینیوں کے وجود کو پوری طرح ختم کرنا ہی صہیونیت کا ہدف ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائی کاہدف بننے والوں میں ۷۰؍ فیصد بچے اورخواتین ہیں۔ ان میں طلبہ، صحافی، ڈاکٹر اور دیگر شعبوں سے وابستہ ان افراد کی خاصی تعداد ہے جنھیں ترقی یافتہ اور مہذب دنیا میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
صہیونی سفاکیت کی انتہا یہ ہے کہ امدادی مراکز کو بھی نہیں بخشا گیا اور اس وحشی پن کے جواز میں یہ کہا گیا کہ امداد طلب کرنے والوں کے درمیان موجود حماس کے جنگجوؤں (اسرائیل انھیں دہشت گرد کہتا ہے) کو نشانہ بنایا گیا۔ غزہ میں عام شہریوں کو دانستہ طور پر ہدف بنا نے کی اسرائیلی فوجی کارروائی ۲۱؍ویں صدی کی دو دہائیوں کی ایسی ہیبت ناک اور انسانیت سوزداستان ہے جو ترقی کے تمام انسانی دعووں کو لایعنی بناتی ہے۔ اس صہیونی سفاکیت کے خلاف امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فرانس سمیت دنیا کے ۱۵۰؍ ملکوں میں اب تک تقریباً ۵۰؍ہزار احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں جن میں امن و انصاف پسند عوام نے فلسطینی موقف کی تائید اور غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔ عالمی سطح پر عوام کے ذریعہ غزہ کی حمایت میں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اس خطہ کو اسرائیل کے خونیں پنجوں سے نجات نہیں مل پارہی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عالمی سیاست کے عیار کھلاڑیوں کواپنے مفاد کے مد نظر اہل غزہ سے ہمدردی کم اوراس خطہ میں جاری جنگ و جدل سے دلچسپی زیادہ ہے۔
ان سب کے درمیان دنیامیں ایک قسم ان حیوان نما انسانوں کی بھی ہے جن کیلئے غزہ پر اسرائیلی بمباری ان کی تفریح کا ایک سامان ہے۔ فلم ساز رام گوپال ورما کا شمار بھی بے حسی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جو تباہی کو جشن کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ ورما کی طرح مختلف ملکوں کے وہ سیاسی لیڈر بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جو گزشتہ دو برسوں سے اسرائیل مذمت تو کرتے رہے ہیں لیکن اہالیان غزہ کو تباہی و بربادی سے بچانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام یا کسی منظم حکمت عملی کا مظاہرہ ان کی جانب سے نہیں ہوا۔ غزہ کے متعلق عالمی سیاست کے بڑے کھلاڑیوں کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امن، انصاف اور انسانی حقوق کی بڑی بڑی باتیں کرنا اور ان کیلئے واقعی کوشش کرنا دو الگ چیزیں ہیں ۔ غزہ کی تباہی اور تاراجی کا ایک سبب عالمی انسانی رویہ کا یہ تضاد بھی ہے۔