• Thu, 16 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہند-پاک کرکٹ : کھیل کو کھیل کی طرح دیکھنے کا دور کبھی واپس آئیگا ؟

Updated: October 05, 2025, 2:29 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

کھیل اور فن کا میدان ہی ایسا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعطل کوختم کرنے کی راہ نکالی جاسکتی ہے مگرآج یہ بات کہنااورسمجھنا بہت مشکل ہے۔

The kind of cricket happening between the two countries these days does not seem to have any friendly aspect. Photo: INN
ان دنوں دونوں ممالک کے درمیان جس طرح کا کرکٹ ہورہا ہے، اس میں دوستانہ نوعیت کا تو کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ تصویر: آئی این این

ہندوستانی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے درمیان گزشتہ مہینے(ستمبر) میں تین ٹی ٹوینٹی میچوں کی ’سیریز‘ ہوئی البتہ یہ سیریز باہمی نہیں تھی بلکہ ایک بڑے ایونٹ کا حصہ تھی۔ کوئی دوٹیموں کے درمیان اگرایک ہی ایونٹ میں ۳؍ میچ ہوجائیں تو اسے ’سیریز‘ کا نام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ۱۴؍ ستمبر، ۲۱؍ ستمبر اور۲۸؍ ستمبر، اتوار کے یہ تین دن ہندپاک کرکٹ کے نام رہے اورآج بھی ویمنس ورلڈ کپ میں ہندوستان اورپاکستان کا اہم میچ ہونےوالا ہے۔ ۱۴؍ ستمبرکے میچ سے پہلے اپوزیشن نے پُرزور بائیکاٹ مہم چلا ئی اور حکومت پرمیچ رُکوانے کابھرپور دباؤ ڈالا مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔ بعد ازاں بقیہ ۲؍میچوں میں بائیکاٹ اوراس کا اثر کہیں نظر نہیں آیا، اب ہندپاک میچ کا جنون اور روایتی جوش وجذبہ بائیکاٹ پر حاوی ہوگیا لیکن اس دوران بھی دونوں میچ سیاست کے اثر سےآزادنہیں ہوسکے۔ ہندوستانی کپتان سوریہ کمار یادونے ٹاس کے دوران پاکستانی کپتان سے ہاتھ نہیں ملایااور میچ کے بعد ہندوستانی ٹیم کے کسی کھلاڑی نے بھی جذبہ کھیل کو بڑھاوادینے والی یہ رسم نہیں نبھائی۔ اس کا سبب پہلگام میں کیاگیا دہشت گردانہ حملہ اور اس کے جواب میں ہندوستان کی جانب سے انجام دیاگیا آپریشن سیندور تھا۔ 
حالانکہ ہاتھ ملانے کی رسم پرمحمد اظہرالدین جیسےلیجنڈری کرکٹر نےکھل کر اپنے موقف کا اظہار کیااوراس بات کی تائید کی کہ ایک بار جب آپ میدان میں اُتر گئے توپھرکھیل اورمیدان کے تمام ضوابط کی پاسداری کرنی ہی چاہئے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کھیل تو رہے ہیں لیکن مدمقابل ٹیم سےہاتھ نہ ملائیں جو لازمی رسم ہے، اس سے بہتر ہے کہ آپ کھیلنےہی نہ جائیں۔ ایک اورلیجنڈری کرکٹر سید کرمانی نے بھی ایشیاکپ میں دونوں ٹیموں کی جانب سےمختلف اشاروں میں ایک دوسرےکو جواب دئیے جانے پر گزشتہ دنوں بیان دیاتھاکہ ’’کرکٹ میں اب شرافت باقی نہیں رہی۔ میدان پربےہودہ اورمنافرت آمیز اشارے دیکھنے کو ملے ہیں۔ میدان پرکیا سیاست چل رہی ہے۔ یہ سب دیکھ اور سن کربحیثیت کرکٹرمجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ‘‘موجودہ سیاست زدہ کرکٹ کے تعلق سے یہ رائے دوسابق کرکٹروں نے ظاہر کردی۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے لاکھوں عوام بھی اسی رائے کے حامل ہوں گےلیکن ہر کوئی اسے ظاہر نہیں کر سکتا۔ اس کا ثبوت ۲۱؍ اور۲۸؍ستمبر کو ہونے والے میچ ہیں جنہیں شائقین نے پورے جوش اور جذبے کے ساتھ دیکھا۔ سیاست کھلاڑیوں کے درمیان نظر آئی۔ اسٹیڈیم سے کچھ اشارے بازی کے مناظردیکھنے کو ملے لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ دونوں ملکوں کے شائقین ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کے درمیان قربت کے باوجود جہاں دوریاں تھیں وہیں دوریوں کے باوجودقربت بھی نظر آئی۔ 
یہ وہ شائقین ہیں جو دونوں ملکوں کی ٹیموں کو کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے درمیان باہمی سیریز کے خواہشمند ہیں۔ شائقین چاہتے ہیں کہ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان حریفائی کرکٹ کے میدان میں ہو اور اس کا لطف اٹھایا جائے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ۱۹۶۵ء اور۱۹۷۱ء کی راست جنگوں کے بعددہشت گردی کا یہی وہ مسئلہ ہے جوہندوستان کے پاکستان کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھانے میں مانع ہےاور اس کا اثر کرکٹ پر سب سے زیادہ پڑا ہے۔ بہر حال ایسا نہیں ہےکہ یہ مسئلہ رہتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ نہ کھیلا گیاہو۔ آخری بار پاکستانی ٹیم نے ۱۳-۲۰۱۲ء میں ہندوستان کا دورہ کیاتھا۔ اس سے پہلے ۰۴-۲۰۰۳ء میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کاد ورہ کیاتھا جبکہ اس کے بعد ۰۵-۲۰۰۴ء میں پاکستانی ٹیم ہندوستان آئی تھی۔ دونوں ملکوں کے شائقین نے اپنی اپنی سرزمینوں پر دونوں ٹیموں کا شانداراستقبال کیا تھا۔ یکروزہ اور ٹیسٹ سیریز کھیلی گئی تھی اور ایک روایتی مقابلہ بالکل روایتی انداز و جوش وخروش کے ساتھ دیکھا گیا تھا اوراس کا لطف اٹھایا گیاتھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ باہمی سیریز ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب دونوں طرف کے عوام میں کرکٹ کا جنون اپنے عروج پرتھا۔ ہندوستان سے ہارنے کے بعد پاکستان میں ٹی وی سیٹ توڑے جانے کے تعلق سےجو باتیں شائقین سنتے آئے تھے، اس سیریز   میں وہ صورتحال نہیں تھی۔ اس کا واضح مقصددونوں کے درمیان کرکٹ کو بحال کرنا تھا اوراس حوالے سے کہیں نہ کہیں یہ بھی نیت ضرور تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ روابط کی بھی کوئی راہ نکل آئے۔ کنیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہند- پاک کے درمیان ’سہارا کپ‘ کا فی مقبول ہوا ۔ ۹۰ء کی دہائی میں شروع کیاگیا یہ ایونٹ بھی دونوں کے درمیان کرکٹ کو باقی رکھنے کی ہی ایک کوشش تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کو جاری وساری رکھنے کی یہ کوشش ۲۰۱۲ء تک جاری رہی لیکن پھر وہی ’دہشت گردی‘ کے مسائل کےسبب باہمی سیریز بند کردی گئی۔ جب دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کھیلا جارہاتھا، اس وقت بھی میڈیا کا ایک طبقہ بدستور ایسا موجود تھا جودونوں روایتی حریفوں کے درمیان مقابلے کو ’جنگ ‘ سے تعبیر کرتا تھااوراس پربڑے بڑے بلیٹن چلاتا تھا۔ یہ دونوں ممالک کے کھلاڑی تھےجو میدان پربظاہرجارحانہ موڈ میں ہوتے تھے لیکن باہران کے درمیان بالکل دوستانہ تعلقات ہوتے تھےاورکھیل کو کھیل کی طرح دیکھتے تھے۔ شعیب اختر ہندوستان میں گلوکاری اورکامیڈی کے کئی ریالٹی شوز میں مہمان رہ چکے ہیں۔ ایک شو میں ہر بھجن سنگھ کے ساتھ ان کے کئی ایپی سوڈز ہیں۔ وسیم اکرم ’دی کپل شرما شو‘میں نظر آچکے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک سنگنگ ریالٹی شو میں وہ سونونگم کے ساتھ تھے جس میں انہوں نےفلم’ دل چاہتا ہے‘ کا نغمہ ’تنہائی ‘کو انہوں نے اپنا بہترین نغمہ قراردیا تھا۔ ’ دل پردیسی ہوگیا‘ (۲۰۰۳ء)فلم کے ایک ڈائیلاگ میں تو اس معصوم خواہش کا بھی اظہار کیاگیا تھاکہ دونوں ملک اگر ایک ٹیم ہو جائیں تو پھر انہیں دنیا کی کوئی ٹیم نہیں ہراسکتی۔ 
اب جو کرکٹ دونوں ممالک کے درمیان ہورہا ہے، اس میں دوستانہ نوعیت کا تو کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ ۱۲؍ سال سے دونوں ممالک کی ٹیموں نے کوئی باہمی سیریز نہیں کھیلی ہےاوراب میدان پر ہاتھ تک نہ ملانے کی نوبت آگئی ہے۔ یہ صورتحال سیاست سے متاثر ہے لیکن پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہےکہ عوامی جذبات کی عکاس نہیں ہے۔ کھیل اور فن کا میدان ہی ایسا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعطل کوختم کرنے کی راہ نکالی جاسکتی ہے مگرآج کے دور میں یہ بات کہنااورسمجھنا بہت مشکل بنادیاگیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK