Inquilab Logo

لوک سبھا انتخابات کے سلسلے میں غیر شائستہ بیان بازی کا آغاز

Updated: April 02, 2024, 2:25 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

بی جےپی امیدواروں کی فہرست میں کنگنا کی شمولیت کے ساتھ ہی ان کی حمایت اور مخالفت میں بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

Supriya Sharinita. Photo: INN
سپریہ شرینیت۔ تصویر : آئی این این

۱۸؍ویں لوک سبھاکی انتخابی مہم میں سیاسی نیتاؤں کی جانب سے عوام کو بہت کچھ غیر متوقع دیکھنے اور سننے کو مل سکتا ہے۔ انتخابی عمل کی نگہداشت اور اس عمل کی تکمیل میں شفافیت کو یقینی بنانے کی خاطر الیکشن کمیشن جیسا ادارہ تو ہے لیکن خود اس ادارے کا طرز عمل شفافیت کو یقینی بنانے میں اکثر ناکام رہا ہے۔ اس ادارے پر اقتدار کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت کا الزام لگتا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام امیدواروں کیلئے ہموار سطح کی فراہمی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اگر یہ ادارہ اپنے اس موقف کو غیر جانب دارانہ طور پر عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ انتخابی مہم میں امیدواروں کے ذریعہ ان سیاسی اخلاقیات کی پاسداری کی جائے گی جس میں گزشتہ کچھ انتخابات کے دوران مسلسل گراوٹ دیکھی گئی ہے، لیکن مختلف سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے ساتھ ہی سیاسی ’توتو میں میں ‘ کا سلسلہ جس انداز میں شروع ہوا ہے اس سے ایسا لگتا نہیں کہ انتخابی مہم میں سیاسی اخلاقیات اور تہذیب و شائستگی کا لحاظ رکھا جائیگا۔ 
 بی جےپی امیدواروں کی فہرست میں کنگنا راناوت کی شمولیت کے ساتھ ہی ان کی حمایت اور مخالفت میں بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کانگریس کی سپریہ شرینیت کی جانب سے مبینہ طور پر ایسا بیان جاری کیا گیا جو کسی بھی صورت میں مہذب معاشرہ کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ اس ضمن میں سپریہ شرینیت نے اپنی طرف سے صفائی بھی پیش کر دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مخالف سیاسی پارٹی سے وابستہ افراد پر تنقید کرتے وقت ان کی ذاتی زندگی یا کردار کو ہدف بنانا کس حد تک درست ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت اس سیاسی رویےکو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو دائیں باز و کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ طرز سیاست، سیاسی اہداف کے حصول میں ہر طرح کی شدت پسندی کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس طرز سیاست نے انتخابی مہم میں بھی شدت پسندی کا وہ رنگ گھول دیا ہے جو سیاسی افکار و نظریات سے تجاوز کرکے لیڈروں پر ذاتی حملے کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ انتخابی مہم میں غیر شائستہ بیان بازی کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں کا موازنہ کیا جائے تو دائیں بازو کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اس ضمن میں مثال کے طور پر صرف کنگنا ہی کے سابقہ بیانات کا جائزہ اس دعوے کی تصدیق کر دے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے:اصلاح کے نام پر تعلیمی نظام کیساتھ کھلواڑ معمول بنتا جارہاہے

کنگنا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے افکار و نظریات کے اظہار میں ’بےباکی‘کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ اس اظہار میں بات بے باکی اور جرأت مندی سے آگے بڑھ کر بیہودہ بیان بازی کے دائرے میں پہنچ جاتی ہے۔ مثلاً آجکل کنگنا کے اس بیان کا خوب چرچا ہو رہا ہے جو انھوں نے ارمیلا ماتونڈکر کے بارے میں دیا تھا۔ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں ارمیلا کو کانگریس کی جانب سے ٹکٹ ملنے پر کنگنا نے جو کچھ کہا تھا وہ صریح طور پر بدتمیزی میں شمار ہوتا ہے۔ کنگنا نے ارمیلا کو نیم فحش فلموں کی اداکارہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب انھیں ٹکٹ مل سکتا ہے تو مجھے کیوں نہیں ؟ بی جے پی نے اس بار ان کے اس سوال کا جواب ہماچل کے منڈی حلقے سے ٹکٹ کی شکل میں انھیں دے دیا ہے۔ ممکن ہے کہ کنگنا لوک سبھا پہنچ بھی جائیں لیکن وہ جس طرح سے شدت پسند ہندوتوا کی حمایت میں تمام اقدار و اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتی رہی ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی کریئر میں اسی راہ پر آگے بڑھتے رہنے کو ترجیح دیں گی۔ 
 بی جے پی کے امیدواروں کی فہرست میں اپنے نام کی شمولیت کے فوراً بعد کنگنا نے میڈیا میں جو رد عمل ظاہر کیا وہ بھی بڑا مضحکہ خیز تھا۔ انھوں نے ابھی سے ہی اپنی ممکنہ جیت کیلئے وزیر اعظم کو کریڈٹ دینا شروع کر دیا ہے۔ ویسے بھی اس سے ہر کوئی واقف ہے کہ ان کی سیاسی سمجھ کس درجے کی ہے؟ ملک کی موجودہ سیاست پر ان کے بیانات میں اس شدت پسند مذہبی فکر کا پرتو صاف نظر آتا ہے جو ہندوستان میں قومی اتحاد اور سماجی ہم آہنگی کی پرزور مخالفت کرتا ہے۔ یہ شدت پسند فکر جد و جہد آزادی کو بھی ایک مخصوص زاویہ سے دیکھتی ہے۔ اس کا اظہار بھی کنگنا نے کچھ برس قبل کھلے اسٹیج سے اس دعوے کی شکل میں کیا تھا کہ ملک کو آزادی ۱۹۴۷ء میں نہیں ۲۰۱۴ء میں حاصل ہوئی۔ اقتدار کی خاص نظر عنایت اور میڈیا کی ضمیر فروشی کی بدولت ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے متعلق ایسا حساس بیان دینے پر بھی کنگنا کی کوئی سرزنش نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا نامی وبا کے پروردہ غلیظ افکار کے حامل وائرس خاصی تعداد میں اس وقت کنگنا کی حمایت میں سامنے آگئے تھے جب انھوں نے کھلے عام مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو اپنے منافرت آمیز افکار کی کسوٹی پر غیر اہم قرار دیا تھا۔ 
  اس جمہوری ملک کے انتخابی عمل کایہ ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ۲۰۱۴ء سے انتخابی مہم کا مزاج پوری طرح تبدیل ہو گیا ہے۔ اب انتخابی مہم میں عوامی مسائل پر کم بات ہوتی ہے اور مذہب، زبان اور علاقائی تعصب کو مہمیز کرنے والے بیانات مرکزی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انتخابی منظرنامہ اسی نوعیت کا ہوگا اور خصوصی طور سے مذہبی سیاست کرنے والی زعفرانی ٹولی اسی حکمت عملی کے دم پر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کوشش میں اس ٹولی سے وابستہ نیتاؤں کے ذریعہ مخالف پارٹی کے امیدواروں کے متعلق غیر شائستہ بیان بازی بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ اس کاآغاز بنگال کے بی جے پی لیڈر دلیپ گھوش کے ذریعہ ہو چکا ہے۔ دلیپ گھوش نے ممتا بنرجی کی کردار کشی کرنے والاانتہائی شرمناک بیان گزشتہ دنوں جاری کیا۔ چونکہ اس وقت عوام کا بڑا طبقہ مذہبی سیاست کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے لہٰذا دائیں بازو کے سیاستدانوں نے مخالف پارٹیوں کے لیڈروں کے متعلق نازیبا اور بیہودہ باتیں کہنے کو ایک سیاسی فیشن بنا دیا ہے۔ مذہبی منافرت کے دام میں اسیر عوام کے ذہنوں پر دھرم کا غلبہ اس قدر ہے کہ وہ مہنگائی بے روزگاری، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل سے زیادہ ان باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں جس سے غیر بی جے پی لیڈروں کی ہتک اور رسوائی ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ انتخابات میں بھگوا لیڈروں نےاپوزیشن لیڈروں کی کردار کشی والے بیانات دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کی اور اس مرتبہ بھی جو انتخابی ماحول تشکیل پارہا ہے اس میں یہ سلسلہ مزید دراز ہو سکتا ہے۔ 
 الیکشن کمیشن نے شرینیت اور دلیپ گھوش کو نوٹس جاری کر دیا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ انتخابی عمل میں تمام امیدوارں کو ہموار زمین فراہم کرنے اور شفافیت کو یقینی بنانے کی الیکشن کمیشن کی کوشش کس حد تک بار آور ہوگی؟ اگر سیاسی لیڈروں کے ذریعہ ایک دوسرے کے خلاف غیر شائستہ بیان بازی کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تواس کا سب سے بڑانقصان یہ ہوگا کہ انتخابی مہم میں عوام مرکوز موضوعات سرے سے غائب ہو جائیں گے۔ یوں بھی گزشتہ دو انتخابات کے دوران عوامی مسائل کو صرف سیاسی پارٹیوں کے منشور ہی میں جگہ ملتی رہی ہے اور انتخابی مہم میں بیشتر مخالف پارٹیوں اور لیڈروں پر ذاتی حملے کئے گئے۔ سیاسی لیڈروں کی بیہودہ بیان بازی کا سلسلہ صرف الیکشن کمیشن کی نگرانی سے نہیں تھم سکتا اور ویسے بھی یہ ادارہ لیڈروں پر کارروائی کرتے وقت غیر جانبداری سے کام نہیں لیتا اور اس کی یہی طرفداری بالآخر انتخابی ماحول کو آلودہ کر دیتی ہے۔ 
 سیاسی لیڈروں کی غیر شائستہ اور نازیبا بیان بازی کا سلسلہ اسی وقت تھم سکتا ہے جبکہ عوام اس معاملے میں پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر اپنے رد عمل کا اظہار کریں۔ عوام کا یہ رد عمل اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے افکار کو مذہبی منافرت سے آزاد کرا سکیں اور انتخابی مہم کو عوام مرکوز مسائل سے مربوط کرنے پر سیاستدانوں کو آمادہ کر یں۔ اگر چہ شدت پسند مذہبی افکار پر مبنی سیاست نے فی الوقت عوام کو ذہنی طور پر مفلوج بنادیا ہے تاہم یہ سلسلہ اب دور تک نہیں جائے گا کیونکہ جمہوریت میں عوامی مسائل کو جو مرکزیت حاصل ہے اسے بہت دیر تک پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ ملک کی سیاست میں مذہب اساس جذباتی موضوعات کو جو نمایاں حیثیت حاصل ہو گئی ہے اس کے ہمراہ دیگر کئی ایسے مسائل پیدا ہو گئے ہیں جن سے سیاست کا معیار مسلسل پست ہورہا ہے اور نیتاؤں کے نازیبا بیانات بھی اس کا ایک جزو ہیں۔ اگر انتخابی عمل میں شفافیت کو برقرار رکھنا ہے تو الیکشن کمیشن کو اس طرز کی بیہودہ بیان بازی پر سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK