Inquilab Logo

اصلاح کے نام پر تعلیمی نظام کیساتھ کھلواڑ معمول بنتا جارہاہے

Updated: March 25, 2024, 11:44 AM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

مہاراشٹر کے محکمۂ تعلیم نےایک فرمان جاری کیا ہے جس کے تحت اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری اب طلبہ کی تعداد سے مشروط ہوگی، یہ تباہ کن ہے۔

If the appointment of teachers is made conditional on the number of students, a major problem will arise as to how the management of different grades will be maintained in schools with a small number of students. Photo: INN
اگر اساتذہ کی تقرری کو طلبہ کی تعداد سے مشروط کر دیا جائے گا تو ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگا کہ طلبہ کی کم تعداد والے اسکولوں میں مختلف درجات کے نظم و نسق کو کس طرح برقرار رکھا جائے گا؟۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی ملک یا معاشرہ کو خوشحال بنانے میں تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں جو بنیادی رول ادا کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وشو گرو بننے کا خواہاں ملک ان دو شعبوں کے متعلق اس قدر غیر سنجیدہ ہے کہ ان کے معیار اور کارکردگی کو بہتر بنانے پر اس کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی اقدامات اور انتظامی امور پر مامور اداروں کی سرگرمی دیکھ کر اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ارباب اقتدارمحکمۂ تعلیم اور صحت کے معیار کو بہتر سے بہترین بنانے پر کمر بستہ ہیں لیکن یہ سرگرمی دراصل اس سراب کی مانند ہے جس کا فریب عوام کو بالآخر پریشانیوں میں مبتلا کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ملک گیر سطح پر تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی غرض سے وسیع پیمانے پر اصلاحی اقدامات کئے گئے۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے اعلان کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں سے وابستہ اقتدار حامی عناصر نے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح زبانی جمع خرچ سے کسی بھی نظام میں بہتری کا امکان پیدا ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب مکمل طور پر نفی میں ہوگا اوراس نفی میں اثبات میں بدلنے کیلئے محکمۂ تعلیم میں اصلاح کے نام پر ہونے والے کھلواڑ کو روکنے کی ضرورت ہے۔ 
 ابھی چند روز قبل مہاراشٹر کے محکمۂ تعلیم نے ایک فرمان جاری کیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ارباب اقتدار تعلیم کے تئیں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ اس فرمان کے مطابق اب اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری طلبہ کی تعداد سے مشروط ہوگی۔ ۱۵۰؍ سے کم طلبہ والے اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر کی تقرری نہیں ہوگی، ۲۰؍ سے کم طلبہ والے اسکولوں میں ایک ریگولر اور ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہوگا اور اسی طرح سے دیگر ایسے التزامات کے نفاذ کی بات اس فرمان میں کی گئی ہے جو بنیادی اور ثانوی تعلیم کے معیار کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس فرمان کے منظر عام پر آتے ہی اساتذہ یونین اور دیگر سماجی و فلاحی اداروں کی جانب سے اس کی پرزور مخالفت کی جارہی ہے اور ممکن ہے کہ ملک کے انتخابی ماحول کے پیش نظر اقتدار اس فرمان کو منسوخ کرنے کا نیا فرمان بھی جاری کر دے۔ یہ امکان صرف عارضی طور پر نظام تعلیم میں اصلاح کے نام پر ہونے والے کھلواڑ کی روک تھام کر سکتا ہے اور اس روک تھام وہ تلخ حقائق خوش آئند صورتحال میں نہیں تبدیل ہو سکتے جو فی الوقت محکمۂ تعلیم کا مقدر بن چکے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: تاریخ کو مسخ کرنے والے اداکار غنڈوں کی زبان بولنے لگے

یہ فرمان صریح طور پر تعلیم کے معیار کو متاثر کرے گا اور اس فرمان میں جن اصلاحات کے نفاذ کا ذکر ہے اس سے مجموعی طور پر بنیادی اور ثانوی تعلیم میں ان اہداف کا حصول ناممکن ہو جائے گا جن پر قومی تعلیمی پالیسی میں زور دیا گیا ہے۔ یہ فرمان اس حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ حکومتی سطح پر پالیسی سازی کا عمل اور پالیسی کے نفاذ میں اس یکسانیت کا فقدان ہے جو پالیسی کو کارگر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ضروری ہے۔ اگر پرائمری اور ثانوی سطح کے سرکاری اسکولوں کی بات کی جائے تو دلی کو چھوڑ کر تقریباً پورے ملک میں ان اسکولوں کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے سرکاری احکامات اور اقدامات کا نزلہ جس صورت میں ان اسکولوں پر گر رہا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ جیسے محکمۂ تعلیم سے وابستہ انتظامی امور کی بجا آوری پر مامور عناصر نے اس محکمے کو اپنے عہدے اور رتبہ کے اظہارکا وسیلہ بنا لیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے احکامات جاری کئے جاتے ہیں جن سے طلبہ اور اساتذہ کا مستقبل منفی طور پر متاثر ہو سکتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان عناصر کو اس کی مطلق پروا نہیں کہ اس محکمے کو تختۂ مشق بنانے سے ملک و معاشرہ کا مستقبل متاثر ہوگا۔ 
 اگر اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کو طلبہ کی تعداد سے مشروط کر دیا جائے گا تو سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگا کہ طلبہ کی کم تعداد والے اسکولوں میں مختلف درجات کے نظم و نسق کو کس طرح برقرار رکھا جائے گا؟ اس فرمان میں طلبہ کی جس شرح تعداد (۱۵۰؍، ۶۰؍، ۲۰؍ اور ۱۰؍)کو بنیاد بنایا گیا ہے اس سے از خود یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے حالات بد سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے اس تنزل کے کئی اسباب ہیں جن میں ایک اہم سبب اقتدار اور انتظامیہ کے ذریعہ ان اسکولوں کو ایسے مراکز میں تبدیل کر دینے والا رویہ ہے جہاں اساتذہ اور طلبہ روزانہ کچھ گھنٹے گزارتے ہیں بغیر اس بات پر غور کئے کہ اس کے عوض میں وہ عقل و شعور کے تدریجی ارتقا کے کتنے مراحل طے کر پا رہے ہیں ؟ اگر تعلیم شخصیت سازی کے بنیادی مقصد کی تکمیل میں معاون نہیں ہوتی تو بنام تعلیم وہ محض وقت گزاری کا ایک مشغلہ ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بیشتر سرکاری اسکولوں کی صورتحال ایسی ہی ہے۔ اب ایسے میں بھی اگراساتذہ کی تقرری کو طلبہ کی تعداد سے مشروط کر دیا جائے گا تو صورتحال مزید افسوس ناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ 
 تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی غرض سے پالیسی بنانے اور اس پالیسی کی بنیاد پر فرمان جاری کرنے والوں کو اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے نیز سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ کے تئیں فکر مند ہونا چاہئے، لیکن یہاں تو معاملہ اس سے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ اب اس طرز کے اصلاحی اقدامات کئے جارہے ہیں جو آئندہ کچھ برسوں میں سرکاری اسکولوں کی ضرورت کو ہی معرض سوال میں لے آئیں گے۔ فی الوقت ان اسکولوں کی افادیت پر سوال اٹھ ہی رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ صوبوں کے بعض اضلاع میں حالات اس قدر خراب نہ ہوئے ہوں اور اگر ایسا ہے بھی تو اس استثنائی صورت کو معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اس ملک کے تعلیمی بجٹ میں کمی کا سلسلہ بتدریج جاری ہے اور ادھر چند برسوں کے دوران معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے زبانی جمع خرچ تو خوب ہوا لیکن نظام تعلیم کی حقیقی بہتری کیلئے جو اقتصادی تعاون درکار ہے اس جانب اقتدار نے جیسے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ 
 آئین نے شہریوں کو جو بنیادی حقوق فراہم کئے ہیں ان میں معیاری تعلیم کا حصول بھی شامل ہے۔ یہ اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ معیاری تعلیمی مراکز اور نتیجہ خیز تعلیمی عمل کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس امر کی بہتر تعمیل اسی وقت ممکن ہے جبکہ اقتدار اپنی ترجیحات میں تعلیم کو اولین حیثیت عطا کرے اور نہ صرف اقتدار بلکہ عوام بھی معیاری تعلیم کے حصول کے تئیں بیداری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اگر اقتدار اور عوام دونوں سنجیدہ ہوں گے تبھی اس طرز کے فرامین کے اجرا کا سلسلہ تھمے گا جو مجموعی طور پر تعلیمی نظام کو منفی صورت میں متاثر کر سکتے ہیں۔ محکمۂ تعلیم میں ریٹائرڈ اساتذہ کی خدمات کا التزام اس محکمے کو اقتصادی طور پر لاغر بنائے رکھنے کے مترادف ہے۔ اس التزام سے کم تنخواہوں پر وقت گزاری کرنے والے اساتذہ کی مالی کفالت کی راہ تو ہموار ہو سکتی ہے لیکن اس سے ملازمت کے خواہاں ان افراد کا نقصان ہوگا جو ذہنی و جسمانی طور پرسبکدوش اساتذہ سے زیادہ چاق و چوبند ہوتے ہیں۔ اس سے دوسرا نقصان یہ ہے کہ جو طلبہ ٹیچر بننے کی غرض ہی سے پڑھائی کرتے ہیں ان کی بڑی تعداد بے روزگاری کا شکار ہو جائے گی۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری جس درجہ پر پہنچ چکی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ایسی صورت میں اگر اس طرز کے منصوبے ترتیب دئیے جائیں گے تو یقیناً اس سے حالات ابتر ہوں گے۔ 
 تعلیمی مراکز کسی بھی ملک کی مستقبل سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ان مراکز کی افادیت و اہمیت کو نظر انداز کرکے تعلیمی منصوبے بنائے جائیں گے تو وہ ارباب اقتدار کی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن ان منصوبوں سے نظام تعلیم میں کسی مثبت یا خوشگوار تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت ملک گیر سطح پر سرکاری تعلیمی نظام ایسے ہی حالات کا شکار ہے جہاں پڑھنے اور پڑھانے کا عمل محض وقت گزاری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عمل سے نہ تو اساتذہ کی فہم و دانش کے معیارکا اندازہ ہوتا ہے اور نہ ہی طلبہ کی عقل و شعور میں ایسی تبدیلی یا ترقی واقع ہوتی ہے جو انھیں ایک بیدار شہری بنانے میں معاونت کر سکے۔ تعلیم سے وابستہ اس بنیادی مقصد کی تکمیل کیلئے ایسے فرامین کے اعلان اور ان کے نفاذ سے اجتناب لازمی ہے جو معیار تعلیم کو منفی طور پر متاثر کرسکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK