Inquilab Logo Happiest Places to Work

دل بستگی کے کئی اسباب میسر پھر بھی تنہائی مار ڈال رہی ہے

Updated: July 13, 2025, 3:00 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ہر ۶؍ میں ایک فرد تنہائی اور اس کے سبب پیدا ہونے والی مختلف جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ارسطو سے منسوب ایک مقولہ’انسان ایک سماجی حیوان ہے‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اور سماج لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسان کی اجتماعی کاوشوں نے ہی اس کرۂ ارض کو رونق بخشی اور تہذیب و تمدن کے ارتقائی سفر کی روداد بھی اس کے اجتماعی عمل کی مرہون منت ہے۔ جنگلوں اور غاروں سے نکل کر شہر اور سماج کی تعمیر میں بھی اجتماعیت کا بنیادی رول رہا ہے۔ انسان کا اجتماعی عمل اس کے سماج اور اس کی ذات کے ارتقا اور بقا میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ انسان نے فکر و عمل کی موثر اور دلکش دنیا تخلیق کرنے میں اجتماعی کد و کاوش سے استفادہ کیا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے ایسے درخشاں نشانات قائم کئے جو زندگی کو پر آسائش بنانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ تعمیر اور ترقی کا یہ سلسلہ اب اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ بعض صورتوں میں یہ ان ساکنان عرش کو بھی محو حیرت کر دیتا ہوگا جن کے نزدیک انسان کی حیثیت اور حقیقت ایک مشت خاک سے زیادہ نہ تھی۔ انسان نے اپنی اختراعی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جو تکنیکی آلات اور مادی ساز و سامان ایجاد کئے اب یہی اسباب اسے اپنے ہم نفسوں سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور اس کی ذات کو اس کے وجود تک محدود کر کے کنج تنہائی میں زندگی بسر کرنے کا خوگر بنا رہے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں عالمی ادارہ ٔ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دور جدید میں جبکہ انسانوں کے پاس باہمی روابط قائم کرنے کے آسان ذرائع موجود ہیں، سماج میں ایسے افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جو خود کو اکیلا اور الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈ روس کے مطابق معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ لوگ انسانی اژدہام میں رہتے ہوئے خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں بلکہ اس اکیلے پن کے سبب ایسی بیماریوں کا شکار ہور ہے ہیں جن کی شدت انھیں موت سے بھی ہمکنار کر سکتی ہے۔ اس عالمی ادارے کی تحقیق کے مطابق تنہائی کے سبب ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے عالمی سطح پر فی گھنٹہ تقریباً ۱۰۰؍ افراد کی موت واقع ہوتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تنہائی کا آزار ہر سال ۷؍ لاکھ ۷۱؍ہزار لوگوں کے جسم اور روح کے رشتہ کو منقطع کر دیتا ہے۔ اس آزار کے سبب مر کر دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کے علاوہ ایسے افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے جو گھر، خاندان اور سماج میں رہتے ہوئے بھی تنہائی کے حصار میں رہتے ہیں۔ عالمی ادارہ ٔ صحت کے مطابق اس وقت ہر چھ میں ایک فرد تنہائی اور اس کے سبب پیدا ہونے والی مختلف جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہے اور سماجی حالات میں روز بہ روز پیدا ہونے والی پیچیدگی کے سبب اس تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ 
عالمی ادارہ ٔ صحت کی مذکورہ رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ دل بستگی کے متنوع ساز و سامان کے درمیان زندگی بسر کرنے والا انسان وجودی طور پر اس قدر ہشاش بشاش بھی ہو جو اسے جسمانی اور نفسیاتی طور پر صحت مند بنائے رکھے۔ اکیلا پن انسان کو مختلف عمروں میں مختلف طور پر متاثر کرتا ہے اور اس کے سبب نوعمر بچوں، نوجوانوں اور پختہ عمر کے افراد فکر وعمل کی سطح پر ایسی کجی کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے اندر مایوسی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر سکتی ہے۔ تنہائی کے حصار میں زندگی بسر کرنے والے طلبہ تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی سے قاصر ہوتے ہیں اسی طرح نوجوانوں کو بھی تنہائی کے سبب ملازمت تلاش کرنے اور اس کے حصول کے بعد اسے برقرار رکھنے میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکیلے پن کا سب سے زیادہ نقصان دہ اور پریشان کن اثر پختہ عمر کے ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر ایسی گھریلو اور سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے جو خاندان اور سماج کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے میں اہم محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ افراد جب اکیلے پن کا شکار ہوتے ہیں تو ان ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں پورا نہیں کر پاتے اور بہ ظاہر گھر اور سماج میں رہتے ہوئے بھی مسلسل ایک کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ 
انسان وجود کی تنہائی کے علاوہ بعض اوقات اس سماجی تنہائی سے بھی دوچار ہوتا ہے جو فکر و خیال کی سطح پر اسے دوسروں سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہر دو قسم کی تنہائی بالآخر انسان کو مایوسی اور اضطراب سے ہمکنار کرتی ہے اور پھر اس کی زندگی کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ عالمی ادارہ ٔ صحت کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ انسان کے درمیان باہمی روابط قائم کرنے والے جدید تکنیکی وسائل کی بہتات اسے تنہائی کے احساس سے دوچار کررہی ہے۔ ادارہ ٔ صحت کے اس دعوے کی دلیل بہ آسانی گرد واطراف میں زندگی بسر کرنے والے ان انسانوں کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے جو مشینی انداز میں زندگی گزارتے اور اپنے جیسے دوسروں سے ہر وقت بیزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات بیزاری کے اس اظہار پر تکلف اور لحاظ کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن یہ پردہ داری بھی مکمل طور پر اس کیفیت کو روپوش نہیں پاتی جو ذات کی تنہائی کی زائیدہ ہوتی ہے۔ 
اس تشویش ناک مسئلے کا تصفیہ فقط اس طور سے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے وجود کے حصار میں سمٹنے اور ہر وقت تکنیکی آلات کے استعمال سے گریز کرے۔ تنہائی کے مضر اثرات نہ صرف ایک فرد بلکہ پورے سماج کو فکر و احساس کی سطح پر اس طور سے پراگندہ بنا سکتے ہیں جو اقدار حیات کی پامالی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس وقت عالمی سطح پرجو انتشار اور اضطراب کی کیفیت نوع انسانی کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب تنہائی اور اس سے پیدا ہونے والے وہ مسائل ہیں جو انسان کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر مجروح اور معذور بنا رہے ہیں ۔ انسانی معاشرہ کو صحت مند بنائے رکھنے کیلئے اس مسئلے پر سنجیدہ غور و فکر اور اس کے موثر تصفیہ کی تدابیر کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے جسے بہت دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK