Inquilab Logo

مجھے جینے دو

Updated: November 29, 2020, 9:19 AM IST | Pro Syed Iqbal

فلم اور ٹیلی ویژن نے غریبوںکو بھی حسین اور پرتعیش دنیا کے خواب دکھادیئے ہیں۔ اب وہ بھی ایسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جیسے کوئی ہیروئن رنگین اسکرین پر گزارتی ہے ۔ چونکہ کچی عمر کی ان لڑکیوں کو زندگی کے اوبڑکھابڑ راستے دکھائی نہیں دیتے، اسلئے کوئی عیّار انہیں محبت کے چند لقمے کھلا دے اور روزگار کے وعدوں کی شیرینی چکھا دے تو وہ کچے دھاگوں میں بندھے اپنے آپ چلی آتی ہیں۔ پھر ہوتا وہی ہے جو انجلی اور سعیدہ کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ کہانی کسی ایک شہر اور کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ ہر جگہ کی ہے

Womens
مجھے جینے دو

سولہ سالہ انجلی کی کہانی ہرغریب ہندوستانی لڑکی کی کہانی ہے۔ یہ لڑکیاں جھوپڑپٹیوں میں رہتی ہیں۔ پڑوس کے کسی اسکول میں تھوڑا بہت پڑھ لیتی ہیں، پھراپنے علاقے کے کسی فیکٹری یا کارخانے میں کام کرنے لگتی ہیں۔ پھر کسی ایجنٹ کے توسط سے بڑے شہر میں کام ڈھونڈ لیتی ہیں۔ انجلی کی ماں بھی پڑوس کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ باپ کا انتقال ہوچکا تھا اور گھر میں ایک  چھوٹی بہن تھی۔ غربت کا حال یہ تھا کہ اکثر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا جس پر ماں بیٹیوں  کے جھگڑے ہوتے اور بیٹیاں رو دھو کر خالی پیٹ سوجاتیں۔آخر ماں نے کسی طرح انجلی کو ایک فیکٹری میں پیکیجنگ کے کام پر لگادیا۔ ماں مطمئن تھی کہ چلو اس طرح ایک لڑکی کی تنخواہ سے تھوڑا بہت آسرا ہوجائے گا مگر اسے پتہ نہیں تھا کہ انجلی کو ایک لڑکے سے عشق ہوگیا ہے۔ یہ کم بخت ایسا روگ ہے کہ شاید ہی کوئی نوجوان اس سے محفوظ رہ سکے۔ اس لڑکے نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے انجلی کو ایسا رام کیا کہ وہ اس کے ساتھ بھاگنے پر مجبور ہوگئی ۔ انجلی کو ڈرتھا کہ اس نے اپنے محبوب سے شادی نہیں کی تو ماں کسی ایرے غیرے کے ساتھ اس کی شادی کردیں گی اور پھر زندگی بھر اسے قید خانے میں جینا ہوگا۔ کچی عمر کی محبت میں یوں بھی عقل ماری جاتی ہے، اسلئے رات کے اندھیرے میں انجلی نے ایک بیگ میں اپنا سامان بھرا اور گھر سے فرار ہوگئی۔ اسٹیشن پہنچ کر اسے  پہلی بار دھچکا لگا کہ اس کا محبوب وہ نہیں ہے جیسا اس نے سمجھ رکھا تھا۔ مگر اب تو دیر ہوچکی تھی۔ اسٹیشن پر اس لڑکے کے ساتھ ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ جب وہ بڑے شہر کے اسٹیشن پر اُترے تو انہوں نے انجلی کو ایک کمرے میں بند کرکے اس کی  آبروریزی کی اور  دوسر ے دن اسے فروخت کردیا۔ اب وہ ان سیکڑوں لڑکیوں کے درمیان پھنس چکی تھی جنہیں مختلف غریب بستیوں سے لاکر جسم فروشی کے اس بازار میں بیچ دیا گیا  تھا۔ اب روزانہ ۱۵؍ تا ۲۰؍ گاہک آتے، جانوروں کی طرح نوچتے اور ذلیل کرکے چلے جاتے۔آخر کسی طرح ایک غیرسرکاری تنظیم نے اسے چھڑایا اور دوسال کے تلخ  ترین تجربے  کے بعد وہ گاؤں واپس آگئی۔ انجلی آج  تنہائی کا  شکار ہے۔ پڑوسیوں کے طعن وتشنیع سہتی ہے مگر کسی سے کچھ نہیں کہتی۔ ماں بھی اسے کہیں جانے نہیں دیتی، اسلئے وہ دن بھر گھر کے درودیوار تکتی رہتی ہے۔اکثر سوچتی ہے کہ وہ خوش نصیب ہے جو دنیا کے جہنم سے اتنی جلد آزاد ہوگئی ورنہ وہ بھی آج بے شمار لڑکیوں کی طرح اسی جہنم میں جی رہی ہوتی۔ البتہ دل کے کسی کونے میں  ایک بے فکر اور آزادجینے کی خواہش اسے آج بھی بیقرار رکھتی ہے۔  ہاں! ایک بات اس نے طے کرلی ہے کہ وہ اب کسی سے عشق نہیں کرے گی۔
 ہرلڑکی کی طرح سعیدہ بھی خواب دیکھتی تھی۔ محبت کے خواب، آسودہ زندگی کے خواب مگراسے احساس نہیں تھا کہ گھاگ دنیا میں خواب شاذ ہی حقیقت میں بدلتے ہیں۔ ہندوستانی فلمیں دیکھتے دیکھتے ناچنے کی شوقین اور خود کو سجائے رکھنے کے چکر میں میک اپ کی عاشق، سعیدہ اکثر اپنے والدین کی غیر موجودگی میں فلمی گیتوں پر رقص کیا کرتی۔ غریب ماں پڑوس کے گھروں میں کام کرتی تھی اور باپ سائیکل رکشا چلاتا تھا۔ پڑھائی لکھائی سے تو اسے بیر تھا،  اسلئے چند جماعتیں پڑھ کر اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ ماں نے اس کی حرکتیں دیکھ کر کم عمری میں اس کی شادی بھی کر دی تھی مگر وہ وہاں سے بھی لڑجھگڑ کر بھاگ آئی تھی۔ گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اس نے ایک بیوٹی پارلر میں ملازمت کرلی اور چپکے سے ایک ڈانس اکیڈمی میں داخلہ بھی لے لیا۔  اب محلے بھر کی تقریبات میں ناچنا اس کا واحد کام تھا۔ پتہ نہیں اسے کیسے ایک لڑکا پسندآگیا اور پھر وہی ہوا جو اس عمر میں اکثر ہوا کرتا ہے۔ دھواں دھار عشق، ساتھ زندگی گزارنے کے وعدے، بھاگ کر شادی کرنے کے منصوبے۔  یہ تونارائن گنج (بنگلہ دیش ) کی لڑکی تھی جسے ہندوستان لے جانے کا لالچ دیا گیا تھا۔ ہندوستان جہاں فلمیں تھیں ، گیت تھے، رنگ تھے اورجہاں ناچنے گانے والیوں کو بہت پیسے ملتے تھے۔ بہرحال اپنے کسی کمزور لمحے میں سعیدہ بھی اس لڑکے کے ساتھ بھاگ آئی۔ بس کے ذریعہ دونوں ایک دریا کے پاس پہنچے ، وہاں سے کئی میل پیدل چل کرایک جنگل پار کیا، پھر پولیس کو رشوت دے کر کشتی میں سفر کیا اور رات کے اندھیرے میں ہندوستان کی سرحدیں  داخل ہوگئے۔ یہاں پہنچ کر جب اس لڑکے نے کچھ لوگوں سے مشکوک انداز میں بات چیت کی تو سعیدہ کو ہوش آیا۔ اس سے پہلے کہ سعیدہ لڑتی جھگڑتی، اس لڑکے نے سعیدہ کو دریا میں ڈبونے کی دھمکی دی اوراپنے  پیسے لے کر دلالوںکے حوالے کردیا۔ اب وہ کولکاتا کے طوائف گھر میں تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ یہاں ناچ گاکر کچھ پیسے کمالے گی مگر یہاں تو کاروبار ہی کچھ اور تھا۔ رات ہوتے ہی جانورآجاتے اور تکا بوٹی کرکے چلتے بنتے۔ اس نے بھاگنے کی کوشش بھی کی مگر دروازے پر گارڈ کھڑے تھے۔ کھانے کیلئے ساری لڑکیوں کو پاس کے ہوٹل میں لے جایا جاتا مگر وہاں بھی گارڈ خونخوار نظروں سے دیکھتے تھے۔ اتفاق سے ایک دن پولیس والے وارننگ دیئے بغیر آدھمکے اور ساری لڑکیوں کو جیل میں بند کردیا۔ وہاں ایک فلاحی تنظیم نے سعیدہ کی کہانی سن کر اسے کسی طرح آزاد کروایا اور پولیس کی معیت میں بنگلہ دیش روانہ کردیا۔ بدقسمتی سے چکلے میں سعیدہ کو شراب کی لت لگ چکی تھی، اس لئے گھرآکربھی وہ سب سے چھپ کر شراب پینے لگی۔ بالآخر اسی شراب نے اس کی جان لے لی۔ آج سعیدہ کی ماں اپنی ہنستی کھیلتی بیٹی کو کھوکر پوری طرح ٹوٹ چکی ہے۔ باپ نے جس  دن سے اپنی جوان بیٹی کو قبر میں اُتارا ہے، اس دن سے وہ بھی خاموش ہوچکا ہے۔ اب وہ کسی مشین کی طرح رکشا چلاتا ہے اوراپنی لاش اٹھائے شام گھر چلا آتا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے درد کو جان سکے۔ البتہ جب وہ اپنی رکشا میں کسی لڑکی کو بٹھاتا ہے تو اسے دیکھ کر دل ہی دل میں دعا ضرور کرتا ہے کہ یہ ہرآفات  وبلاؤں سے محفوظ رہے۔ کیوں کہ اسے ہر لڑکی میں اسے اپنی بیٹی نظرآتی ہے۔
  آخر یہ ماں باپ کب تک اپنی بھولی بھالی بیٹیوں کو یوں کھوتے رہیں گے؟ کیا ہر غریب اور نوجوان لڑکی کو جسم فروشی کیلئے اسی طرح مجبور کیاجائے گا؟ کیا ان بچیوں کی حفاظت کیلئے کسی ملک میں کوئی انتظام نہیں ؟ کیا ایسے غیر انسانی کاروبار کو کسی ملک کی پولیس اور عدالت کبھی نہیں روک پائے گی؟ انسانیت پر صدیو ں سے ایسے زخم لگتے رہے ہیں مگر یہ ایسا کاری زخم ہے جو آج تک مندمل نہیں ہوسکا بلکہ اب یہ اربوں روپے کا کاروبار بن چکا ہے جس میں دنیا کا ہر ملک ملوث ہے۔ مزدوروں کی عالمی تنظیم (ILO) کے اعداد وشمار کے مطابق صرف ۲۰۱۶ء میں دس لاکھ بچے اور بچیاں جنسی استحصال کا شکار ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش تو اس جرم کیلئے بدنام ہیں۔ ہمارے ملک میں ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان ۳۵؍ ہزار کیس ریکارڈ ہوئے تھے۔ ایک سرکاری تخمینہ کے مطابق ہر سال بنگلہ دیش سے تقریباً پچاس ہزار لڑکیاں  ہندوستان لائی جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے یہاں سے انہیں بڑے شہروں یا کسی اور ملک میں اسمگل کردیاجاتا ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک اس کاروبار سے چشم پوشی کرتے آئے ہیں۔ رپورٹیں بتلاتی ہیں کہ دلال ایک لڑکی کو رجھانے، بہلانے پھسلانے میں چاہے بیس پچیس ہزار روپے خرچ کردیں مگر۷۵۔۷۰؍ ہزار روپے میں انہیں فروخت کرکے اچھا خاصا نفع کمالیتے ہیں۔ حکومتیں کہتی ہیں کہ  وہ اس مسئلے کی سنگینی سے واقف ہیں اوراس سمت میں اپنے طور پربہت کچھ کربھی رہی ہیں لیکن اس دعویٰ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لمبے چوڑے قلعے کو مسمار کرنے کیلئے معمولی سا ہتھوڑا استعمال کیاجائے۔ اولاً تو بڑے شہروں میں یہ چکلے اسلئے بھی قائم ہیں کہ مقامی پولیس کو ان کی جانب سے ہفتہ ملتا  ہے۔ ماہ  دوماہ میں کبھی  ریڈ پڑتی بھی ہے تو پیشگی وارننگ دے کر ، جس میں ان کوٹھوں کو چلانے والے پہلے ہی ان لڑکیوں کو عقبی راستوں سے غائب کردیتے ہیں۔ بہت دباؤ بڑھا تو چند ایک کو پولیس کے حوالے کرکے انہیں ضمانت پر چھڑا لیا۔ اس طرح یہ آنکھ مچولی یوں ہی جاری  رہتی ہے ۔ دوسری طرف معاشرے کی اخلاقی حالت اتنی دگر گوں ہے کہ گاہکوں کی ریل پیل کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔
  لیکن ان جوان لڑکیوں کے اغوا کی سب سے بڑی وجہ ان کی غربت ہے۔ گاؤں میںصنعتیںنہیں، اسلئے روزگار بھی نہیں۔ زراعت کے نام پر چھوٹے چھوٹے کھیت ہیں جن سے اتنی ہی آمدنی ہوتی ہے کہ جسم وروح کا رشتہ برقرار رہ سکے ۔ اس پر قحط سالی اور سیلاب کے خطرات الگ ہیں۔ ایسے میں غریب خاندان  اپنی بچیوں کو ایک باعزت زندگی دے تو کیسے دے؟ فلم اور ٹیلی ویژن نے ان غریبوںکو  حسین اور پرتعیش دنیا کے خواب دکھادیئے ہیں۔ اب وہ بھی ایسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جیسے کوئی ہیروئن رنگین اسکرین پر گزارتی ہے ۔ چونکہ کچی عمر کی ان لڑکیوں کو زندگی  کے اوبڑکھابڑ راستے دکھائی نہیں دیتے، اسلئے کوئی عیّار انہیں محبت کے چند لقمے کھلا دے اور روزگار کے وعدوں کی شیرینی چکھادے تو وہ کچے  دھاگوں میں بندھے اپنے آپ چلی آتی ہیں۔ پھر ہوتا وہی ہے جو انجلی اور سعیدہ کے ساتھ ہوا تھا۔ ہاں!کچھ غیر سرکاری تنظیمیں ان  بدنصیب بچیوں کو جہنم سے نکالنے کی کوشش کرتی تو ہیں مگر عدالتی کارروائیوں کی سست رفتاری انہیں بھی پریشان کردیتی ہے۔
  کچھ افراد کا خیال ہے کہ ایک سرکاری ایجنسی کو صرف ایسی لڑکیوں کو آزاد کرانے کیلئے مختص ہونا چاہئے مگر کیا ہماری حکومت جسے ہردوسرے مسئلہ سے کہیں زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے ، وہ ان لاکھوں معصوم بچیوں کو باعزت زندگی دینے تیار ہوگی؟ یہ سوال بھی ہمارے ذہن میں ’نیشنل جیوگرافک‘ کے اکتوبر کے شمارے کو پڑھنے کے بعد  ابھرا۔ دراصل مذکورہ رسالے نے اپنے نامہ نگار کو بنگلہ دیش اور ہندوستان بھیج کر فرضی ناموں سے یہ رپورٹ لکھوائی تھی جس سے اس کے چالیس لاکھ (جی ہاں چالیس لاکھ) قارئین اب تک یقینا ً واقف ہوچکے ہوں گے۔ ۱۸۸۸ء سے شائع ہونے والے جریدے اپنے لئے لاکھوں خریدار یوں ہی نہیں بنالیے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK