اکیسویں صدی کے ۲۵؍ سال کا عرصہ گزر گیا ہے، ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ اس دوران ہم نے کیا حاصل کیا اور کہاں کوتاہی یا غفلت برتی گئی؟
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 1:34 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
اکیسویں صدی کے ۲۵؍ سال کا عرصہ گزر گیا ہے، ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ اس دوران ہم نے کیا حاصل کیا اور کہاں کوتاہی یا غفلت برتی گئی؟
اکیسویں صدی کے ۲۵؍ سال کا عرصہ گزر گیا ہے، ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ اس دوران ہم نے کیا حاصل کیا اور کہاں کوتاہی یا غفلت برتی گئی؟
اس صدی کے ابتداء ہی میں نائن ایلیون کا واقعہ ہوا اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک آندھی برپا ہوئی، ہمارے مُلک کا نوجوان بھی اُس عتاب کا شکار ہوگیا۔ اُس وقت فرقہ پرست ٹولہ برسرِ اقتدار آ چکا تھا اور پالیسی ساز بیورو کریٹ تو اُس سے بھی پہلے ساری ایجنسیوں پر چھا گئے تھے اسلئے جب’ اسلامی‘ دہشت گردی جیسی مذموم اصطلاح وجود میں آئی اْس کو اَندھ بھکتوں نے خوب خوب اُچھالا اور ہمارے نوجوان نشانہ بنائے گئے۔ نائن ایلیون کا اس ملک کے کسی بھی قوم کے نوجوانوں سے دُور دُور کا تعلق نہیں تھا لیکن مسلم طلبہ کی اصلاحی تنظیموں پر بھی ایجنسیوں نے اپنا شکنجہ کسنا شروع کیا۔ طلبہ کی ایک تنظیم پر پابندی کی تجدید کی گئی اور نوجوانوں کے ایک گروپ پر یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت پابندی لگا دی گئی۔ نام نہاد مسلم قیادت حسب سابق صرف تماشائی بنی رہی۔
گزشتہ رُبع صدی کے دوران ایک بڑی ابتلاء نے ساری دنیا کو گھیرا، خورد بینی جرثومے سے ملنے والی کو وڈ نامی بیماری نے دنیا کے سارے نظام تہہ و بالا کردئیے اوراُس میں تعلیمی نظام بھی شامل تھا۔ سارے تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدّت کیلئے تالے لگ گئے۔ یہ سخت قسم کی آزمائش کا دَور تھا۔ ابتلا ء ہی میں کسی قوم کا رویہ، بصیرت اور حالات سے مقابلہ کرنے کی سکت کا پتہ چلتا ہے۔ بچّے تو بچّے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس دُنیا میں صرف کھیلنے کودنےکیلئے پیدا ہوئے ہیں لہٰذا جب تعلیمی اداروں کے تالوں پر دھول جمنے لگی کہ تو بچّے خوش ہو گئے کہ یہ دھول بس ایسے ہی جمی رہے البتہ ہمیں بعض والدین کے رویے پر بڑا تاسف ہوا کیونکہ ہم نے اس دَوران یہ دیکھا کہ والدین کی ایک بڑی اکثریت کو اس بات کا ملال نہیں تھا کہ اُن کے بچّوں کا تعلیمی نقصان ہوا۔ ایک بہت بڑی تعداد خوش تھی کہ اُن لگ بھگ دو برسوں میں انھیں اسکول کی فیس بھرنی نہیں پڑی اور والدین اسکول کے ذمہ داروں سے حُجّت وتکرار کرتے بھی نظر آئے کہ وہ کیسی فیس مانگ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے صرف آن لائن پڑھایا ہے، جب ہمارے بچّے اسکول گئے ہی نہیں ، تو فیس کس بات کی ؟ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہ کو حکومت سے ادا ہوری رہی تھی، نجی اسکولوں کے اساتذہ کے تنخواہ کیلئے اُن اِداروں کے ذمہ داروں کو خوب پاپڑ بیلنے پڑے۔ ۱۰۰؍سال پہلے اسپینش فلو وغیرہ بھی آیا تھا مگر تب تعلیم کے تئیں قوم کا کیا رویہ تھا، اس کا ہمیں علم نہیں البتّہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں کہیں کووِڈ کی بنا پر جو صورتِحال پیدا ہوئی اُس میں ہمارے والدین ناکام ہوئے، فیل ہو گئے، اکثر والدین کریئر وغیرہ الفاظ سننے کو تیار نہیں تھے۔ وہ کر یئر کی رہنمائی کرنے والوں کو کہتے پائے گئے کہ یہ چار سال کے کریئر کی بات ہی نہ کریں۔ روز شام کو اُن کا بیٹا پانچ سو روپئے کیسے بھرے، بس وہی بتادیجئے لہٰذا پروفیشنل کورسیز کے اپنے طلبہ کو بھی فٹ پاتھ پر کباب وغیرہ بیچنے پر آمادہ کر لیا۔ اس رُبع صدی میں کووِڈ جیسی مہلک بیماری سے سابقہ ہوا، اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ سامنے آئی کہ شارٹ کٹ اور جھٹ پٹ کامیابی کی متمنی قوم نے ثابت کر دیا کہ کسی بھی ناگہانی بلایا وبا کو مقابلہ نہیں کرسکتی۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں آئیے اب یہ سوچیں کہ اس صدی کے اگلے ۲۵؍ برسوں کیلئے ہم کس طرح کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ؟ کم از کم ۲۵؍ برسوں کیلئے کوئی ویژن، کوئی خاکہ، کوئی منصوبہ تو ہر بیدار قوم کے ذمہ داروں کے پاس ہونا ہی چاہئے۔ تعلیمی محاذپر ایسے کسی منصوبے کا ایک خاکہ ہم پیش کرنے جارہے ہیں اور اُمید نیز درخواست کرتے ہیں کہ ہر کوئی کم از کم کسی ایک محاذ پر کام کرے، اپنی سکت کے مطابق جس سے جوبن پڑتا ہو وہ کام کرے چاہے وہ کسی تنظیم کا صدر، چیئرمین سکریٹری ہو یا نہ ہو۔
(۱)طلبہ، والدین و اساتذہ کیلئے بیداری و آگہی کے اجلاس کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھیں بلکہ اُسے معاشرے کا ایک لازمی جزو بنالیں کیونکہ ان معاملات میں مزید تحقیق یا تدبّر کرنے کی ضرورت نہیں، گذشتہ نصف صدی سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہمارے طلبہ میں ذہانت و صلاحیت کی کوئی کمی نہیں، انھیں صرف تحریک و ترغیب کی ضرورت ہے۔ والدین کے تعلق سے بھی ثابت ہوچکاہے کہ کسی علمی، تعلیمی آگہی اجلاس میں صرف دس فیصد والدین بھی تحریک پاتے ہیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ اساتذہ کو سرکاری حکم ناموں کے علاوہ بیداری و آگہی کے اجلاس میں حصّہ لینے کیلئے محنت کی جاتی ہے تو اس کے بھی مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
(۲) اگلے ۲۵؍ برسوں کے ویژن اورمشن میں یہ شامل ہوکہ ہم ہمارے یہاں بچت کا تصوّر، سلیقہ اور ترتیب عام کریں۔ ہر بچّے کے نام کا ایک مَنی بکس اس کے گھر میں آویزاں ہوں اور والدین اس میں روزانہ ۵؍روپے ہی سہی (۲۰۳۵ء میں یہ رقم ۱۰؍روپے روزانہ ہو) بچت کریں۔ روزانہ ۵؍روپے تعلیم کیلئے مختص کرنا بڑا جادوئی کارنامہ انجام دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
(۳) بد بختی سے آزادی کے بعد سے ابھی تک ہماری قوم پر یہ لیبل چسپاں ہے کہ اس قوم میں سِرے سے کوئی بجٹ نہیں بنتا اور اگر کہیں بنتا ہے تو (الف)بیٹی کیلئے جہیز اور (ب) بیٹے کیلئے کوئی جائیداد یا بینک بیلنس۔ اب تو یہ شعور بیدار ہونا چا ہئے کہ والدین کی جانب سے بیٹی یا بیٹے دونوں کیلئے تربیت سب سے بڑا تحفہ ہو سکتا ہے اور دوسرا تحفہ تعلیم ہے۔ دولت کی شکل میں اپنے بچّوں کا مستقبل محفوظ کرنا چاہو گے تو اُس دولت کی حفاظت کی فکر کرنی پڑے گی۔ اگر اعلیٰ جدید تعلیم کی شکل میں ہم تحفہ دیتے ہیں تو وہ آپ کے بچوں کی حفاظت کرے گی۔
(۴)معاشی طور پر کمزور طبقے میں یہ شعور پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے کہ کم از کم ایس ایس سی تک کی تعلیم کا خرچ ہر خاندان اپنے طور پر کرے اور اس کیلئے وہ کسی ٹرسٹ یا فلاحی اِدارے کا رُخ نہ کرے۔ ٹیکسی /رِکشا چلانے والے حتّیٰ کہ ہاتھ گاڑی چلانے والے کی ذہن سازی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے بچّوں کی دسویں تک کی تعلیم کیلئے خود خرچ کریں تاکہ اُن بچّوں کی اعلیٰ تعلیم جو صرف مہنگی ہی مہنگی ہے، اس کیلئے ٹرسٹ والے اُنھیں دل کھول کرمدد کریں۔ اگلے ۲۵؍برسوں میں یہ بات عام ہوجائے کہ مسلم قوم ایس ایس سی تک کی تعلیم کیلئے کسی ٹرسٹ کا رُخ نہیں کرتی۔
(۵)ملک بھر میں کچھ سیکھنے کیلئے جا تا رہتا ہوں اور ہر بستی میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ اُن کی بستی بہت غریب ہے، ہم جانتے ہیں کہ اُس غریب ترین بستی میں بھی کم و بیش تین لوگ ایسے صاحب ثروت و رُسوخ ہیں کہ وہ پوری بستی کو سنبھال سکتے ہیں۔ آئندہ رُبع صدی کیلئے ہم یہ منصوبہ بنائیں کہ قوم سے کٹے ہوئے اس طبقے کو قوم سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ ہم یہ کہہ کر ٹال نہیں سکتے کہ انھیں توفیق نہیں ہوتی۔ نہیں، ہمیں یہ سوچنا ہے کہ قوم کی حقیقی حیثیت، اُس کے تقاضوں کے تعلق سے آگاہ کرنے کیلئے ہم نے کتنی کوشش کی؟
(۶)ہر سال ہمارے یہاں ہزاروں اساتذہ (یعنی وہ افراد جنھیں ہرمعاشرے میں سب سے زیادہ با خبر، با شعور و ذمہ دار سمجھا جاتا ہے) ۵۸؍سال کی عمر میں ملازمت ریٹائر ہورہے ہیں۔ اُن میں پروفیسر اور پرنسپل حضرات بھی شامل ہیں۔ ۵۸؍ برس کے بعد وہ کیا کرتے ہیں ؟ جس طرح کسی ملک میں ایک ریزور فورس ہوتی ہے جو کسی نا گہانی آفت جیسے، آندھی، سیلاب، زلزلے کے وقت حرکت میں آجاتی ہے، ہمارے تعلیمی نظام کی ریز رو فورس ہمارے سبکدروش اساتذہ، پرنسپل و پروفیسر حضرات و خواتین ہیں۔ ہمیں اُن سے اور ان کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرنا ہے اور ہمیں گروپ کی شکل میں مل کر اُن سے درخواست کرنی ہے کہ وہ تعلیمی محاذ پرمتحرک ہوجائیں اور سماج کی رہنمائی کریں۔ ہمیں اُنھیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تعلیم، تدریس وغیرہ سے جڑے رہنے پر اُن کی ریٹائر زندگی خوشگوار گزرے گی اور وہ بالکل صحت مند رہیں گے۔
(۷)نئی تعلیمی پالیسی صرف ۵ +۳ +۳ +۴ تک محدود نہیں ہے اُس میں بر سرِاقدار فرقہ پرست ٹولے کا ایک بڑا (چھپا ہوا نہیں بلکہ کھُلا ایجنڈا موجود ہے۔ اسلئے ہم سب کو متحرک ہونا ہے (اس ضمن میں مفصل لائحہ عمل آئندہ کالموں میں پیش کیا جائے گا)۔
(۸)اُردو کے تعلق سے ہماری اپنی سرد مہری جگ ظاہر ہے۔ آج وہ مسلمانوں کی زبان بھی نہیں رہی کیونکہ کئی مسلم ادارے اب انگریزی اسکولیں قائم کر رہے ہیں۔ وہاں کم از کم ایک مضمون اُردو پڑھایا جایے۔ ابھی صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے (جن میں سے کچھ کے ساتھ اسلام لفظ جُڑا ہوا ہے۔ ) وہ اپنے انگریزی اسکو لوں کے نوٹس بورڈ پر یہ ہدایت آویزاں کر رہے ہیں کہ ہمارے انگریزی اسکول میں اُردو میں بات چیت کرنے پر طالب علم کو ۵؍ روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔
(۹)اب جبکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہمارےپاس وسائل تو ہیں البتہ (الف) ہمیں ہماری ترجیحات کا علم نہ ہونے اور (ب) نو امیروں کی تشہیر بازی اور خود نمائی کی بناء پر ہم بے تحاشا روپیہ پیسہ شادی بیاہ پر ضائع کرتے رہتے ہیں۔ نئے امیروں کی ذہن سازی غالباً اگلے ۲۵؍ برسوں میں نہیں ہو سکتی البتہ ان۲۵؍ برسوں کیلئے اپنے آپ سے ایک عہد ممکن ہے کہ ہم فضول خرچ اور نمود و نمائش والی اپنے رشتہ داروں کی شادی کی تقریبات میں بھی شرکت نہیں کریں گے۔
(۱۰) وقت آگیا ہے کہ اگلے ۲۵؍ برس ہم کتاب و قلم سے رشتے کی تجدید کریں۔ کتاب سے رشتہ توڑ کر ہمارے معاشرے میں پہلے ہی بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ فائیو جی جنریشن کو اس کا احساس بھی نہیں ہو رہا ہے البتہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں اگر دوبارہ کتاب دکھائی دے تو اسکرین زدہ نسل ورق گردانی پر آمادہ ہوجائے، ان شاء اللہ۔