Inquilab Logo

معاشیانہ: جی ایس ٹی فراڈ،معاشی محاذ پر مودی حکومت کی ایک اور بڑی ناکامی

Updated: August 13, 2023, 1:07 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

جولائی۲۰۲۳ء میں جی ایس ٹی حکام اور محکمہ انکم ٹیکس کے علاوہ متعدد تفتیشی ایجنسیوں نے ایک ایسے ریکٹ کا پردہ فاش کیا جو بڑے پیمانے پر جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سروسیز ٹیکس، اشیاء وخدمات ٹیکس) فراڈ کررہا تھا۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

جولائی۲۰۲۳ء میں جی ایس ٹی حکام اور محکمہ انکم ٹیکس کے علاوہ متعدد تفتیشی ایجنسیوں نے ایک ایسے ریکٹ کا پردہ فاش کیا جو بڑے پیمانے پر جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سروسیز ٹیکس، اشیاء وخدمات ٹیکس) فراڈ کررہا تھا۔ اس ریکٹ میں ممبئی کا ایک ٹیکسی ڈرائیور اور دہلی کا ایک جوڑا شامل تھا۔ یہ افراد عام لوگوں کے آدھار کارڈ اور پین کارڈ سے لنک موبائل نمبروں کا استعمال کرتے ہوئے شیل کمپنیوں کیلئے جی ایس ٹی رجسٹر یشن کرتے تھے۔ یہ ایک تکنیکی خامی ہے جس سے محض کچھ ٹیکس حکام ہی واقف ہیں ۔ اس خامی کے تحت اگر پین اور آدھار پر صرف آپ کا پہلا ہی نام ہو، اور دونوں ایک جیسے ہوں (چاہے دونوں ہی دستاویز پر پورا نام نہ لکھا ہو) تو آپ جی ایس ٹی رجسٹریشن کرسکتے ہیں ۔ خیال رہے کہ جی ایس ٹی رجسٹریشن کے تحت کمپنیاں انپٹ ٹیکس کریڈٹ (آئی ٹی سی) کا دعویٰ کرسکتی ہیں اور حکومت انہیں رقم لوٹاتی ہے۔ ایسے کاروباری آئی ٹی سی کے اہل ہوتے ہیں جو اشیاء یا خدمات کو کاروباری مقاصد کیلئے آگے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ تاہم، دعویدار کے پاس ٹیکس انوائس یا ڈیبٹ نوٹ یا دستاویز رکھنا ضروری ہے جو آگے کی خریداری کیلئے ادائیگی کا ثبوت ہو۔
 اس خبر کے عام ہوتے ہی سرکاری مشینری حرکت میں آگئی اور تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ ان تینوں کے پاس ۶؍ لاکھ سے زائد افراد کا ڈیٹا موجود ہے اور انہوں نے ۳؍ ہزار جعلی جی ایس ٹی رجسٹریشن کر رکھے ہیں ۔ یہی نہیں تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایسے کئی ریکٹ ہیں جو اس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہیں ۔ اس کے فوراً بعد جی ایس ٹی کاؤنسل جی ایس ٹی رجسٹریشن کے عمل کو مزید محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئی ہے۔ تفتیشی ایجنسیاں کوشش کررہی ہیں کہ جو جی ایس ٹی فراڈ ہوئے ہیں ان رقومات کو وصول کیا جاسکے۔ فراڈ کی مجموعی رقم کا اب تک۳؍ فیصد (۹۲۳؍ کروڑ روپے) ہی وصول کیا جاسکا ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں آدھار اور پین کے غلط استعمال کے ۵؍ ہزار ۷۰؍ مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں کل ۲۷؍ہزار ۴۲۶؍ کروڑ روپے کا فراڈ ہوا ہے، یعنی فراڈ کرنے والوں نے آئی ٹی سی کی بنیاد پر حکومت سے اتنے کروڑ روپے وصول کئے ہیں ۔جن ریاستوں میں زیادہ فراڈ ہوئے ہیں ان میں دہلی، راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور اتر پردیش کے نام قابل ذکر ہیں ۔تفتیشی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ رقم ہے جس کے بارے میں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد یا تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے۔ سرکاری مشینری کو ایسے فراڈ کا اندازہ ہی نہیں ہے جن کی تشخیص اب تک نہیں کی جاسکی ہے یا جن کے بارے میں ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔
 حکومت ہند نے ۲۰۱۷ء میں جی ایس ٹی نظام متعارف کروایا تھا اور ۶؍ سال گزر جانے کے بعد بھی اسے منظم طریقے سے اب تک نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس تکنیکی خامی کے متعلق صرف چند جی ایس ٹی حکام ہی واقف تھے، وہ دیگر لوگوں کو کیسے معلوم ہوئی؟ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ جی ایس ٹی فراڈ کرنے والے ریکٹ نے ۶؍ سال میں کتنی رقم کا فراڈ کیا ہے؟ یہ تکنیکی خامی اب تک ختم کیوں نہیں کی جاسکی ؟ بیشتر ماہرین معاشیات کا اندازہ ہے کہ اس سے بڑی رقم کا فراڈ ہوا ہے لیکن حکومت اس محاذ پر اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کررہی ہے اس لئے میڈیا میں کم رقم بتائی جارہی ہے۔ یہ بات صاف ہے کہ معاشی محاذ پر موجودہ حکومت بری طرح ناکام ہے۔ اس نے اپنی دانست میں معیشت کے ’حق‘ میں جتنے بھی فیصلے کئے ہیں ، سب کے منفی اثرات ہماری معیشت پر پڑے ہیں ۔ ہندوستانی معیشت کا حجم بھلے ہی بڑھ رہا ہو لیکن ناقص اور کمزور معاشی پالیسیاں اسے اندر سے کمزور کررہی ہیں ۔ علاوہ ازیں ، آدھار اور پین کے ذریعے حکومت نے عوام کا ڈیٹا جمع کرنے اور اسے محفوظ ترین بتانے کا جو دعویٰ کیا ہے، اسے کھوکھلا ہی کہا جاسکتا ہے جس کی مثال ہر چند دنوں بعد شائع ہونے والی وہ خبریں ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ لاکھوں افراد کا ڈیٹا لیک ہوگیا ہے۔ انڈیا ڈیولپمنٹ ریویو کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ۶۲؍ فیصد لوگ ڈجیٹل دنیا سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔ یہ وہی افراد ہیں جنہیں فراڈ کرنے والے آسانی سے نشانہ بنالیتے ہیں اور ان سے کروڑوں روپے اینٹھ لیتے ہیں ۔ اگر حکومت ملک کو معاشی اور ڈجیٹل محاذ پر مستحکم بنانا چاہتی ہے تو اسے کوئی بھی نیا نظام متعارف کروانے سے پہلے اس پر اچھی طرح غور و خوض کرنا چاہئے اور اس کی تمام خامیوں کو دور کرنے کے بعد ہی اسے عام کرنا چاہئے کیونکہ حکومت کا ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ عوام کی ہر طرح سے حفاظت کو یقینی بنائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK