Inquilab Logo Happiest Places to Work

مرکزکے وفود میں مسلم شخصیات: سرکار کاجعلی سیکولرازم ؟

Updated: June 01, 2025, 3:23 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

آپریشن سیندور کے بعد کا موقع خارجی سطح پر ہندوستان اور دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے اتحاد کو پیش کرنے کاتھا جہاں مسلمانوں کے بغیر اس کی دال نہیں گل سکتی تھی جبکہ یہاں ملک میں دیکھا جائے توعام انتخابات میں بی جےپی کی پوری انتخابی مہم مسلم مخالف رخ پر رہی تھی۔

Interestingly, a delegation includes AIMIM chief Barrister Asaduddin Owaisi along with BJP leader Nishkin Kant Dubey. Photo: INN.
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک وفد میں ایم آئی ایم کے سربراہ بیرسٹر اسدالدین اویسی کےساتھ بی جے پی لیڈرنشی کانت دوبے کو بھی رکھا گیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

پہلگام حملے کے بعدملکی سطح پر سامنے آنے والے منظر نامے میں دوباتیں بالکل واضح ہوچکی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے جواب میں کئے گئے آپریشن سیندورکے ذریعے بی جے پی حکومت کو قومی سطح پر حب الوطنی کی ایک بڑی لہر پیدا کرنے جو موقع ملا، اس کا وہ بھر پور استعمال کررہی ہے اور اس کا پورا کریڈٹ لے رہی ہے، دوسرا یہ کہ عالمی سطح پراس کی کوشش پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی اور اسے دہشت گردی کا سربراہ ثابت کرنے کی ہے۔ مذکورہ پہلی بات میں حکومت کے ساتھ پورا اپوزیشن اور ملک کے عوام کا ہر طبقہ ہے اور حکومت کے کسی تقاضـے کے بغیراسےیہ حمایت حاصل ہے۔ رہی دوسری بات یعنی پہلگام حملے اورآپریشن سیندورکے بعدہندوستان کا موقف عالمی سطح پررکھنے کی، تو اس میں یہ نظر آرہا ہےکہ یہاں حکومت کو مسلمانوں کی ضرورت ہے اسلئے اس نے کسی مطالبہ کے بغیربیرون ممالک بھیجنے جانے والے وفود میں مسلم شخصیات کو نمائندگی کا کافی موقع دیا ہے۔ مختلف ممالک میں حکومت کے ذریعے بھیجے گئے ۵۹؍اراکین پر مشتمل  وفود میں ۱۰؍ مسلمان شامل ہیں۔ 
ان مسلم شخصیات کواپنے وفود میں شامل کرنے کیلئے بی جے پی کو کسی مطالبے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اسے عام انتخابات میں اپنی مہم کی طرح کوئی فرقہ وارانہ بیانیہ تشکیل دینا نہیں پڑا۔ اس بات پر غور کرنا نہیں پڑا کہ اس پر اکثریتی طبقے یا ہندوتوا بریگیڈ کا کیا رد عمل ہوگا وغیرہ ! یہ موقع خارجی سطح پر ہندوستان اور دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے اتحاد کو پیش کرنے کاتھا جہاں مسلمانوں کے بغیر اس کی دال نہیں گل سکتی تھی۔ جبکہ یہاں ملک میں دیکھا جائے تو۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں بی جےپی کی پوری انتخابی مہم فرقہ وارانہ یا زیادہ واضح الفاظ میں کہیں تومسلم مخالف رخ پر رہی۔ وہ حکومت جس نےمسلم نمائندوں کو اپنے بین الاقوامی وفود میں شامل کیا، اس کا پارلیمنٹ میں ایک بھی رکن نہیں ہے، کوئی مرکزی وزیر نہیں ہے۔ ملک میں یہ حکومت مسلمانوں سے دوری بنائے رکھنے میں عافیت محسوس کرتی ہےکیونکہ یہ اس کی سیاسی ضرورت ہے لیکن اسی ملک کا نمائندہ جب کسی مسلم ملک میں جاتا ہے تو وہاں کی حکومت سے کوئی اعزاز وانعام قبول کرنے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ مسلم مخالف سیاست ملک کو داخلی سطح پرمنتشر کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے اوربیرون ملک مسلم نوازی بین الاقوامی سطح پرملک کو روادار دکھانے کیلئےکی جاتی ہے۔ حکومت کا یہ دہرا معیار نہیں ہےبلکہ حقیقت یہ ہےکہ اس دہرے جال میں وہ خود پھنس کررہ گئی ہے اور چاہتےہوئے بھی اس سے نکل نہیں سکتی کیونکہ اس سے نکلنے کاطریقہ وہ نہیں جانتی۔ 
’دی مسلم مرر‘ کے اداریے نے بھی اس موضوع پر بحث کی ہے اورسوال اٹھایا ہے۔ اس کے مطابق مودی حکومت نے ۷؍ آل پارٹیز وفود تشکیل دیے ہیں جن کا مقصد دہشت گردی پر ہندوستان کی زیرو ٹالرنس پالیسی کی طرف بین الاقوامی برادری کو متوجہ کرنا ہے۔ اس مقصدکیلئے ۵۹؍ اراکین پر مشتمل ان وفود میں بائیں بازو، کانگریس، ڈی ایم کے، این سی پی، شیو سینا اور بی جے پی کےلیڈران شامل ہیں جو اقوام متحدہ، یورپی یونین، خلیجی ممالک، افریقہ، امریکہ اور مشرقی ایشیا کا دورہ کر رہےہیں۔ اداریہ میں حکومت کے اس رویے کو منافقانہ قراردیاگیا ہےکہ مسلم شخصیات کو محض علامتی چہروں کے طورپر شامل کیاگیا ہےجبکہ قومی معاملات میں باقاعدہ شراکت دار کی حیثیت سے مسلمانوں یا مسلم نمائند گی کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ وفد میں غلام نبی آزاد، سلمان خورشید، ای ٹی محمد بشیر، میاں الطاف احمد اور ایم جے ا کبر جیسی شخصیات شامل ہیں جو قابل ذکر سفارتی تجربہ اور سیاسی ذہانت کے مالک ہیں مگر یہ سوال بلا جواز نہیں کہ کیا ان کا انتخاب صرف بیرون ملک ہندوستان کی شبیہ چمکانے کے لیے کیا گیا ہے؟ جب کہ ملکی اور قومی سطح پرفیصلہ سازی کا کوئی مرحلہ آتا ہےتو ایسی مسلم شخصیات کے انتخاب پر حکومت کی جانب سے غور کرنے کا کوئی اشارہ اور نظیر نہیں ملتی !
 ان ۵۹؍ وفود میں سے ایک میں بی جے پی کے نشی کانت دوبے بھی شامل ہیں جن کا گزشتہ دنوں ایک خلیجی ملک میں ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بیرون ملک ان کی زبان پوری طرح بدل گئی جبکہ یہاں ملک میں مسلم مخالف بیانات کیلئے ان کی شناخت ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں ملک میں ایم آئی ایم کے اسدالدین اویسی، نشی کانت دوبے اور ان جیسے لیڈروں کیلئے سخت ترین سیاسی حریف ہیں لیکن دیارِ غیر سے سامنے آنے والی تصویر میں نشی کانت دوبے اویسی کی بغل میں کھڑے ہوکران سے مسکراتے ہوئے گفتگو کرتے نظر آئے۔ یہ سب حکومت کی مجبوری ہے۔ مستقبل میں اگر ملک کی داخلی سیاست میں کوئی بحران آتا ہے، حکومت اور اپوزیشن کسی مسئلے پر آمنے سامنے آتے ہیں تو وفود کی شکل میں لیڈران کے درمیان یہ قربت جو نظر آئی ہے، کیا اسے یاد رکھا جائے گا ؟اس کا جواب ’نہیں ‘ میں ہوگاکیونکہ وہاں حکومت کی ترجیح الگ ہوگی۔ اس وقت حکومت کی ترجیحات میں ملک کودہشت گردی کے خلاف متحد دکھانا شامل ہے۔ داخلی سطح پر جب دہشت گردی کے خلاف بات ہوگی تو اس میں مسلمان یقینی طورپر مورد الزام ٹھہریں گےاورانہیں مورد الزام کوئی ا ور نہیں ، خودحکومت اور حکومت کے لیڈران ٹھہرائیں گے لیکن باہرجب دہشت گردی کے خلاف بات ہوگی توحکومت اسے مسلمانوں سے جوڑنے کی حماقت نہیں کرے گی۔ 
حکومت کیلئے بھی یہ بات سمجھنی ضروری ہے اوران مسلم لیڈران کیلئے بھی جوآپریشن سیندور پر حکومت کا دل وجان سے ساتھ دے رہے ہیں کہ مجبوری میں کئے گئے اتحادکا کوئی پائیدار اور مستقل نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ آپریشن سیندور کے بعدحکومت اور اپوزیشن میں یہ جو اتحاد نظر آرہا ہے یہ دکھاوے کااتحاد ہے، گرچہ ضروری ہے۔ اسے وسیع پس منظر میں دیکھا جائے تویہی معلوم ہوتاہےکہ حکومت کو اس عارضی اور جعلی سیکولرازم کی  ضرورت ہے۔ 
اس سے پہلے مسلم پرسنل لاء بورڈ اوردیگر مسلم نمائندگان جو وقف ترمیمی قانون پر حکومت کے شدید مخالف تھے، پہلگام حملےاور آپریشن سیندور کے بعداس کے حامی ہوگئے کیونکہ یہ وقت کا تقاضا تھا۔ وہ موضوعات جو سیاست، سیاستدانوں کا مزاج، بیانیہ او ر ترجیحات طے کرتے ہیں، انہیں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ آپریشن سیندور پرحکومت بڑے دعوے کررہی ہے لیکن خود اس ملک میں یہ سوال پوچھا جا چکا ہے کہ پہلگام حملے انجام دینے والے دہشت گردوں کو کیوں نہیں پکڑاگیا۔ سرکار آپریشن سیندور کو اتنا گلوریفائی کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ پہلگام حملے کے ذمہ داروں کا معاملہ غالب نہ آنے پائےاورہوابھی ایسا۔ اب پہلگام کے حملہ آوروں پر بات نہیں ہوتی۔ ملک بھر میں ریلیاں بھی نکالی جارہی ہیں توآپریشن سیندور کی کامیابی پر، پہلگام میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے نہیں۔ بیرون ملک جانے والے وفد کاایک ایک رکن اگر واپسی پر سرکار سے یہ سوال کر سکے تواس اتحاد کا کچھ معنی ہوگا، بصورت دیگر نہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK