اسکول سے فارغ ہونے کے بعد کیا طلبہ اپنے مادر علمی کو یاد کرتے ہیں ؟ اگر یاد کرتے ہیں تو کس طرح کرتے ہیں ؟ اِن طلبہ کی ذہنی کیفیت کا معیار کیا ہے؟ تعلیمی اِداروں میں مجلس ابناء قدیم کا چلن کیسے ممکن ہے؟ اور اس کے کیافائدے ہیں ؟ اس ضمن میں ذہن سازی کیلئے دو قسطوں پر مشتمل ایک ڈراما۔
اے آئی کی مدد سے بنائی گئی ایک علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این۔
(پردہ اٹھتا ہے، ایک اسکول کا بڑا ساکلاس روم ہے جس میں اسکول کے کئی سابق طلبہ جمع ہو رہے ہیں )
راوی: سبھی یہاں توجہ فرمائیں، آج کئی برسوں کی کوشش کے بعد ہم اس میں کامیاب ہوئےہیں کہ اس اسکول کے ایک کلاس کے سابق طلبہ کو دوبارہ ایک جگہ جمع کریں۔ اس طویل عرصے میں نہ جانے کتنی جگہ اور کتنے مقامات پر ہر ایک کو ڈھونڈ نا پڑا۔ کتنے سارے فون کرنے پڑے۔ فیس بُک سمیت سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع پر تو کئی ساتھیوں کی شناخت ہوپائی۔ اب اس کے نتیجے میں آج سب یہاں جمع ہور ہے ہیں۔
نذیر : سر، ا بھی تک سبھی نہیں پہنچے ہیں البتہ وہ لوگ آتے ہی ہوں گے۔
راوی: ویسے سبھی نہیں آئیں گے۔ بیرونی ملک سے صرف دو سابق طلبہ رہے ہیں، باقی نہیں آ رہے ہیں۔
ناصر: میں نے بھی تین چارسے بات کی ہے، انھوں نے تو ہمارا مذاق اُڑایا کہ یہ کیا احمقانہ خیال ہمیں آیا کہ چار دہائی کے طویل عرصے کے بعد ہم سب ملیں اور وہ بھی اپنے اسکول کے پُرانے کلاس روم میں !
جاوید: ہاں سبھی کہہ رہے تھے کہ اپنے کلاس روم میں ہی ملنے کی ضدکیوں ؟ ہم تو کسی بڑے شہر کے کسی شاندار ایئرکنڈیشن ہال میں بھی مل سکتے تھے، یا کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ، یہ شہر سے تین سو کلومیٹر دُور دوبارہ ہمیں ہمارے گاؤں کے اسکول میں کیوں آنا پڑا۔
نذیر: جب ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی، جب ہم شہر کے ٹرام یا ریل میں سفرکرنے کے لائق بھی نہیں تھے، اس وقت ہمیں شہرسے تین سوکلومیٹردُور دیہات کے اسی اسکول نے سہارا دیا تھا، اسی نے ہماری پہچان بنائی۔ اب دوبارہ یہاں آنا کیا ہماری شان کے خلاف ہے؟
راوی: آج کی اس گیدرنگ کا مقصد یہ ہے کہ ہرکوئی اپنے اپنے تجربات اور اسکول کو چھوڑنے کے بعد سے اب تک کے تاثرات پیش کرے۔
راشد: کیا خاک تاثرات پیش کریں، ہمیں بُلایااِتنا دُور اِن اسکولی بینچوں پر بیٹھنے کیلئے، کم از کم کُرسیوں ہی کا انتظام کردیا گیا ہوتا۔ ان چھوٹے چھوٹے بینچوں پر بیٹھنا کتنا عجیب لگتا ہے۔
نذیر : یاد کرو! ہم اِنہی بینچوں پر بیٹھا کرتے تھے اور کئی سال بیٹھے ہیں۔
را شد: اُس وقت کی باتیں اور تھیں، تب ہم طالب علم تھے، اُس دَور میں ہمارے اساتذہ ہمیں جہاں بِٹھاتے، بس وہیں بیٹھ جاتے مگراب....
اشفاق: ویسے میں تو سیدھاسنگا پورسے آ رہا ہوں، وہاں ہم نے کئی سیمینار اور کانفرنس میں شرکت کی مگروہاں کیا انتظام رہتا ہے، ہرچیز کامیٹنگ کا انتظام، کھانے کے انتظام وغیرہ ہر چیز میں ایک رکھ رکھائو۔
جاوید: بالکل، میں نے تو صرف ایشیا نہیں بلکہ یورپ کے کئی ممالک میں کئی سیمینار اورسمپوزیم میں صرف شرکت ہی نہیں کی بلکہ اُن میں حصّہ بھی لیا، کیا زبردست انتظامات اورکیا عمدہ تیاری ہوتی ہے۔ اور اب ایک پُرانے کلاس روم جہاں صرف ایک ٹیوب لائٹ جل رہی ہے اور ایک بلیک بورڈ اور وہ بھی ابھی تک وہائٹ بورڈ میں تبدیل نہیں ہوا۔
اشفاق: ارے بھئی، پینے کے پانی کیلئے واٹر کولر بھی نہیں لگا، وہی گاؤں کے کنویں کے پانی سے بھرا ہوا مٹکا۔
ناصر: اسی گاؤں کے کنویں کے پانی سے بھرے مٹکے سے ہم پانی پیتے تھے اور کبھی بیمار نہیں ہوئے ہم لوگ۔
مشتاق :ابھی کافی سابق طلبہ آچکے ہیں چلو بات چیت شروع کرتے ہیں۔
عرفان: بھئی میں نے ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے، ہمارے گاؤں میں چوتھی جماعت تک ہی اسکول تھا، میں نے پانچویں تادسویں جماعت تک اسکول بنایا، اُسے منظوری بھی لائی اور آج تین سوبچّے وہاں پڑھ رہے ہیں (سب بینچ تھپتھپاکر اور تالی بجاکر اس کی داد دیتے ہیں )
حنیف: ہمارے آبائی وطن کی حالت تو بہت ابتر تھی، وہاں مَیں نے حال ہی میں ایک آنگن واڑی قائم کی جو پھر بال واڑی اور اب چوتھی جماعت تک اسکول بن گئی ہے۔
زبیر: ھائیو، میں تو سیاست میں چلا گیا، میونسپلٹی کے دو الیکشن بھی لڑا، ہار گیا، مگر اصل میں دونوں بار میں ہی جیتا، پہلی بار دو پارٹیوں کے ووٹ کا ٹا، دوسری بارتین پارٹیوں کے ووٹ کاٹ کھا یا۔ ہار گیا تو کیا ہوا کئی امید واروں کوجیتنے بھی نہیں دیا۔
منصور: تو پھر آپ پارٹی زندہ باد کے نعرے لگانے جاتے ہو یا نہیں ؟
زبیر: ہاں بھئی جانا پڑتا ہے میں ابھی بھی اپنی پارٹی کے تعلقہ اکائی کا جوائنٹ سیکریٹری ہوں۔
مشتاق: اختر تم؟
اختر: میں نے تین محلوں میں لائبریریاں کھولی ہیں تاکہ اپنے بچّے موبائل کو چھوڑ کر ہمارے محلّوں میں واپس آجائیں اور وقت کا بہترین استعمال کریں۔
اشفاق: (مسکراتے ہوئے) تین لائبریریاں ؟ میں نے اپنے شہر کے سب سے پاش علاقے میں تین فلیٹ خریدے ہیں اور ہر فلیٹ کی قیمت کروڑوں میں ہے۔
رفیق: یہ ہوئی نہ بات، اسے کہتے ہیں کامیابی، میں نے بھی ایک دکان خریدی ہے، پہلے ہی سے سوچ لیا تھا کہ جو کلاس میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوتا ہے اُسے ہراناہے، مشیر مجھ سے زیادہ نمبر لیتا تھانا اسکول میں، وہ بھی آیاہے آج، لیکن وہ اس کلاس روم سے باہر کھڑا ہے کیوں کہ وہ ایک رکشا ڈرائیور بن چکا ہے۔ اور اس کی رکشامیں مَیں آیاہوں، ہم دونوں ایک ہی بینچ پر بیٹھا کرتے تھے، مگر اب تو نہیں بیٹھ سکتے نا، اسلئے وہ بیچارہ باہر ہی کھڑا ہے۔
ناصر: یہ کیسی باتیں کرتے ہو رفیق، ہم اس کیلئے توجمع نہیں ہوئے ہیں۔
مشتاق: جمیل، تم ؟
جمیل: میں نے ابھی تک تو کچھ نہیں کیا ہے البتہ دیکھنا ایک دن کیا کرتا ہوں ، موقع کا انتظار کر رہا ہوں، ایک ہی دن میں سب حساب صاف کر دوں گا، سب دیکھتے رہ جائیں گے، بس صحیح موقع کا انتظار ہے پھر دیکھ لینا۔
مشتاق: مطلب ابھی تک موقع کا انتظار کررہے ہیں ؟
جمیل: آئے گا، وہ موقع آئے گا۔
ناصر: ارے بھئی آپ سبھی لوگوں کو ہمارے اسا تذہ یاد آ رہے ہیں ؟
ناصر: ارے بھئیہم سب کو اپنے اساتذہ یاد آرہے ہیں ؟
عرفان: ہاں بھئی، کیسے بھول سکتے ہیں ہم انھیں ، وہ امیر سر یاد ہیں ؟
حنیف: اچھی طرح یاد ہیں۔ اُن کا چشمہ تو ہمیشہ ناک سے نیچے رہتاتھا اور وہ چشمے کے اوپر سے جب دیکھتے تھے تو ہم سب ڈر جاتے تھے۔
نذیر: اور وہ شفیق سر یاد ہیں نا، کیا گر جدار آواز تھی اُن کی، آج بھی ان کی آواز کانوں میں گونجتی ہے۔
مشتاق:نعیم احمد سر بھی یاد آتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے گاؤں کی باتیں سناتے تھے، کہتے تھے ان کے گاؤں میں سرسوں کے کھیت ہیں۔
عرفان: ہاں، ایک بار میں نے کہہ دیا تھا کہ سر ہمارے یہاں بھی دھان کے کھیت ہیں، اس کےبعد تو بس پھٹ پڑے ہم پر، دھان کے کھیت اور سرسوں کے کھیت کا موازنہ کرتے رہے۔ ایک گھنٹے کا لیکچر پِلادیا، ۳۰؍سال تک اس اسکول میں پڑھایا مگر اپنے گاؤں کے سرسوں کے کھیت نہیں بھُولے ۔
نذیر: ناصر، تم بیٹھ جاؤ، کھڑے کیوں ہو؟
مشتاق: ناصر کو شفیق سر نے جو کھڑے رہنے کی سزادی تھی، وہ ابھی پوری نہیں ہوئی ( سبھی زور دار قہقہہ لگاتے ہیں۔ )
اختر : وہ عبدالرزّاق سر یاد ہیں ؟ وہ تو اِسی اسکول کے ہال میں ظہر کی نماز کی حاضری لیتے تھے، میں نے ایک بار نماز قضا کیا کی، مجھے بطور سزا ایک مہینہ امام بنادیا مگراس سزا کا اثر ایسا ہوا کہ اب نماز کی پابندی کی عادت پڑگئی ہے۔
منصور: عبدالرشید سر یاد ہیں کیا آپ لوگوں کو، وہ واحد استاد تھے جو ہر طالب علم کو آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور وہ تو بالکل کمپوٹر تھے۔ ’’ بچّو! کل ہم نے کہاں چھوڑا تھا‘‘ اور پھر برا براسی سطر پرآجاتے تھے۔ لوگ کمپیوٹر ابھی دیکھ رہے ہیں البتہ ہم نے تو عبد الرشید سر کی شکل میں کافی پہلے کمپیوٹر دیکھا تھا۔ اُن کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ کلاس میں داخل ہوتے ہی بھانپ لیتے تھے کہ کس نے ہوم ورک کیا ہے اور کس نے نہیں ؟
ناصر: مجھے تو امتیازسر بہت یاد آتے ہیں۔ ہماری خوش خطی پر خوب توجہ دیتے تھے۔ ایک خاص قلم سے ہمیں لکھاتے تھے، ایک بارمیں نے بہانہ کردیا کہ گائوں کی دکان پر قلم اور نِب مِلی نہیں تو دوسرے دن اُنھوں نے خود ہی قلم و نِب لاکر دی اور آہستہ سے کہا کہ میں نے اُسی دکان سے خریدی ہے۔ اس قلم و نِب کے اُنھوں نے پیسے بھی نہیں لیے۔ یہی سزا تھی اُن کی میرے لیے، آج تک خوش خطی قائم ہے وہ امتیاز سر کی وجہ سے۔
مشتاق: آج ہمارے بچّے البتہ کہتے ہیں خوش خطی کی کیا ضرورت، اب کا غذ پر کون لکھتا ہے، سب کچھ تو موبائل پر ٹائپ کرنا ہے۔
نذیر : میں کبھی بھول نہیں سکتا عبد الحمید سرکو جو ڈسپلن کے سخت پابند تھے، اُن کے بنائے اُصول توڑنے پرسزا دیتے تھے۔ آج اُن کیلئے صرف دعائیں نکلتی ہیں، آج تو استاد سزادے ہی نہیں سکتا۔
ناصر: یہ سزا نہ دینے کا قانون آیا کہاں سے؟
نذیر: امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے، ہوا یہ کہ ہندوستانی تعلیمی نظام نے ۵۰؍سال تک ماسکو کاطواف کیا۔ کمیونزم، سوشلزم، مارکسزم۔ پچھلی دوتین دہائیوں سے یہ نظام مغرب کو پیارا ہو چکا ہے یعنی یہاں کچھ بھی میڈ اِن انڈیا نہیں ہے، سوائے سیاسی نعروں کے جو شاید پارٹیوں کے آئی ٹی سیل میں بنتے ہوں گے۔
منصور: ہم میں سے البتہ کوئی بھی فاروق سرکو نہیں بھلاسکے گا۔ کیسے کوئی بھولے گا؟ کلاس میں نہیں اسکول کے کیمپس میں داخل ہوتے ہی بالکل خاموشی چھا جاتی تھی۔ کیسے چلتے تھے وہ رعب دار ( چل کر ان کی نقل کرتے ہوئے )
حنیف: بالکل ایسے ہی چلتے تھے۔ وہ تو ہمارے اسکول کے مغلِ اعظم تھے۔
منصور: گھر میں بھی اکثر آئینے کے سامنے مَیں ان کی نقل کرتا تھا۔ ایک بار ہمت کر کے اسکول کی سالانہ گید رنگ میں اُن کی نقل کی، سب بچّوں نے کہہ دیا کہ اب تو تیری خیرہی نہیں مگر نقل کرتے وقت ہی میں اسٹیج سے دیکھ رہا تھا کہ فاروق سر کھلکھلاکر ہنس رہے تھے۔
حنیف :نقل تو اُن کی، کی جاتی ہے جو رول ماڈل ہوتا ہے، وہ ہمارے رول ماڈل تھے۔
منصور: (رُندھی ہوئی آواز میں )یقیناً فاروق سر ہمارے رول ماڈل تھے۔
نذیر : دوستو ! آپ لوگوں نے اس پر غور کیا کہ ہمارے اس کلاس روم میں کچھ لڑکیاں بھی تھیں، وہ آج کیوں نہیں آئیں۔
ناصر: کیا وجہ ہے؟
نذیر : ہمارے کلاس میں ہمیشہ اوّل آنے والی لڑکی کی شادی اس کے چاچا نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کردی تھی۔ اس نے شادی کے بعد جہیز میں ٹیکسی کی مانگ کی، نہ ملنے پر اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا، لڑکی بچ تو گئی مگر۴۰؍فیصد جھلس گئی تھی، اسلئے وہ آج معذور ہے۔ جو لڑکی دوم آتی تھی اس کے شوہر نے یہاں آنے کی اجازت نہیں دی، ہم نے بہت سمجھایا مگراس کا شوہرمسلسل یہی کہتا رہا کہ اپنی بیوی کو وہ میکے جانے کی بھی بار بار اجازت نہیں دیتا۔ دو اور لڑکیاں تھیں وہ اسلئے نہیں آئیں کہ ان کی شادی ہی نہیں ہوئی ہے۔ ایک کی اسلئے کہ وہ خوبصورت نہیں اور دوسری اسلئے کہ وہ جہیز نہیں دے سکتی۔ (پورے کلاس روم میں سنّاٹا چھا جاتا ہے )
راوی: اب آپ لوگوں کو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ہم نے آپ کو آپ کے اسکول کے کلاس روم میں کیوں بُلایا ہے؟ سال بیتے، دہائیاں بیتیں، مگر کچھ نہیں بدلا، پہلے پہلے جب سنگا پور، انگلینڈ اور فلیٹ وغیرہ کی بات ہورہی تھی، اُس وقت تو مجھے لگ رہاتھا کہ اس کلاس روم میں دوبارہ حاضری لی جارہی ہو۔ کچھ اس طرح:’غرور؟‘، ’حاضر سر!‘، انا!‘، ’حاضر سر!‘، ’خود غرضی!‘، ’حاضرسر، ’ذہنی بیماری؟‘، ’حاضرسر !‘ مگر اب بھی آپ اپنے اساتذہ کو یاد رکھتے ہیں، اُن کی نقل اُتارتے ہیں، بس پورے اندھیارے میں امید کی یہ ایک کرن ہے، اس پُرانے کلاس روم میں اب بھی امّید باقی ہے۔
منصور:ہمیں کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے بجائے اسکول کے اِس پُرانے کلاس روم میں مدعو کرنے کا شکریہ۔ یہاں آنے کے بعد یہ احساس جاگا کہ اس کلاس روم نے، اس اسکول نے ہمیں بہت کچھ دیا مگر ہم نے تو اُس کی طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ یہ بینچ وہی ہیں جن پر ہم نوکدار چیز سے اپنے نام تک لکھا کرتے تھے، اب وہ سارے بینچ خستہ حال ہیں، ہم نے تو کلاس روم میں پانی کے مٹکے کے بجائے واٹر کولر کا بھی یہاں انتظام نہیں کیا۔
اشفاق:(آنکھوں میں آنسو لیے) آپ صحیح کہہ رہے ہیں، ہم میں سے کوئی انجینئر بنا، کوئی منیجر اور کوئی ماحولیات کا ماہر، اسلئے ہم صوتی آلودگی، آبی آلودگی، فضائی آلودگی، برقی آلودگی وغیرہ کی شکایتیں کرتے ہیں .... لیکن ذہنی آلودگی سے ہم اپنے آپ کو بچا نہیں پائے۔
جاوید:بالکل، ہم لوگوں کو معاف کردیجئے، ہم یہ انا، غرور، نفسانفسی کو آج ہی خیر باد کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اس پُرانے کلاس روم میں ہمیشہ ملتے رہیں گے بلکہ اِس پُرانے کلاس روم کو اور اِس اسکول کو بھی آباد رکھنے کی کوشش کریں گے۔
سبھی طلبہ: ہاں ہاں، ایسے ہی ہو گا۔ ( سبھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور گلے ملتے ہیں )
( اور اسی کے ساتھ پر دہ گِرتا ہے )