نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مضمرات اور اُن کے فوری و دُور رس نتائج پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ملک گیر پالیسی ساز ادارے جو کسی بھی ملک کی تعلیمی پالیسی کی سمت طے کرتے ہیں، اُن کا کیا حال ہے۔
EPAPER
Updated: May 04, 2025, 2:17 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مضمرات اور اُن کے فوری و دُور رس نتائج پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ملک گیر پالیسی ساز ادارے جو کسی بھی ملک کی تعلیمی پالیسی کی سمت طے کرتے ہیں، اُن کا کیا حال ہے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مضمرات اور اُن کے فوری و دُور رس نتائج پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ملک گیر پالیسی ساز ادارے جو کسی بھی ملک کی تعلیمی پالیسی کی سمت طے کرتے ہیں، اُن کا کیا حال ہے۔ اس پر تھوڑی سی فکر و توجّہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سارے پالیسی ساز اداروں پر سہ طرفہ شب خون کی تیاری ہوچکی ہے جو اس طرح ہیں :
(الف) آئین کی دفعہ ۲۹؍ اور۳۰؍پر حملہ کریں گے جس کی رو سے اس ملک کی اقلیتیں اپنے کردار کے تعلیمی ادارے قائم کر سکتی ہیں (ب)پرائمری اسکول سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک کے نصاب کا بھگوا کرن کریں گے (ج) این سی ای آرٹی، یوپی ایس سی، اسٹاف سلیکشن کمیشن، ہیومن ریسورسیز کے تمام شعبوں پر منظم یلغار کی جائے گی۔
سرکاری ’مفکرین‘ برسہا برس سے اپنا ہوم ورک کر رہے تھے لہٰذا انھوں نے نصابی کتابوں میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنا اور سوِل سروسیز میں اپنے پکّے اور کمیٹیڈ نوجوانوں کو داخل کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے کیلئے دن رات ایک کرنا شروع کیا۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت نے پانچ سال قبل یہ اعلان کیا اور اس کیلئے اخبارات میں اشتہار بھی دیئے گئے کہ اب ملک کے دس شعبوں میں جو ائنٹ سیکریٹری کسی پبلک سروس امتحان کے بغیر مقرر کئے جائیں گے۔ اس اعلان پر بیدار مغز افراد و اداروں نے سخت احتجاج کیا ہے۔ اس ملک میں سوِل سروسیز کے نظم پر منظم ڈاکہ ڈالنے کی اس ناپاک کوشش کی ہم بھی مذمّت کرتے ہیں اور حکومتِ وقت سے دریافت کرنا چاہتے ہیں :
(۱) یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان اور اس کے ذریعے منتخب ہونے والے ٹیلنٹ پر برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی اعتبار تھا اور برطانیہ بُلا کر کمپنی کے انتہائی قابل وذہین بورڈ آف ڈائرکٹرس جب ہندوستانیوں کے انٹرویو لیتے تھے تب ان کی ذہانت و قابلیت کا اعتراف کر کے آئی سی ایس کی سند د یا کرتے تھے۔ اب سنگھ پریوار کو ہندوستانی ٹیلنٹ پر بھروسہ نہیں یا اس پر یوار نے قابلیت کو ناپنے کا اپنا کوئی پیما نہ مقرر کیا ہے؟ اور یہ’ پیما نہ‘ کہاں ایجاد ہوا، ناگپور میں ؟
(۲) ہم یہ مانتے ہیں کہ سوِل سروس کے امتحان میں کامیاب ہونے والے افراد سے بھی زیادہ قابل افراد موجود ہیں، مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایسے افراد کو حکومت بطور مشیران استعمال کیوں نہیں کرتی کہ وہ سارے قابل و ذہین افراد اپنی منہ مانگی قیمت پر حکومت کو مشورے دیں گے ؟ وہ حکومت کی پالیسیاں مرتّب کیوں کر کر سکتے ہیں ؟ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ ہر شعبے کے ماہرین کی مجلسِ مشاورت تشکیل دے کر وہ مجلسِ عاملہ کو اپنے تمام مشورے و سجھاؤ دیتی ہے البتہ ہر ملک میں سوِل سروس کے ذریعے منتخب افرادہی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔
(۳) حکومتِ وقت کی نیّت پر ہمیں شک اسلئے ہے کہ وہ لیٹرل اینٹری سے منتخب افراد کو سیکر یٹری کے درجہ پر مقرر کیوں نہیں کرتی اور انھیں سیدھے جوائنٹ سیکریٹری کیوں بنانا چاہتی ہے؟ کیا وہ نہیں جانتی کہ جوائنٹ سیکریٹری جو پالیسیاں بناتے ہیں وہ سیدھے قانون کی شکل اختیار کرتے ہیں ؟ حکومت یقیناً جانتی ہے اور وہ یہی چاہتی ہے؟
(۴) گزشتہ ۱۱؍ سال کے ریکارڈ کومدِّ نظر رکھتے ہوئے یقین ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت یہ صرف جھانسا دے رہی ہے کہ وہ لیٹرل اینٹری سے انتہائی قابل افراد کا تقرر کرنے والی ہے۔ دراصل یہ کہ انتہائی ’قابل‘ افراد صرف سنگھ پریوارہی سے منتخب کئے جائیں گے۔ اس نے ایسے ہی افراد کو چُن چُن کر مرکزی کابینہ میں اور پارلیمنٹ میں بھیجا ہے جن کی کوالیفکیشن صرف ایک ہی تھی کہ وہ مسلمانوں کی دلآزاری کرسکتے ہیں بلکہ اُن کا جینا دو بھر کر سکتے ہیں۔ ہمیں کچھ تعجب نہیں ہوگا اگر لنچنگ کے ماہر گئورکشکوں کے سرپرست، حکومت کے جوائنٹ سیکریٹری کے کلیدی عہدے پر مقرر کردیئے جائیں ؟
(۵) ہمیں علم ہے کہ اس سے قبل لیٹرل اینٹری سے قابل افراد جیسے منموہن سنگھ، سام پیروڈا، اہلووالیہ، نند، شری دھرن اور پردیپ پوری کو مشاورتی کونسل میں داخلہ دیا گیا مگر وہ سارے کے سارے غیر سیاسی افراد تھے جنھوں نے اپنی فیلڈ سے متعلق ہی کام کیا اور حکومت کے امور میں کوئی دخل اندازی نہیں کی۔ البتہ ممکن ہے موجودہ حکومت زراعتی منسٹری کا جوائنٹ سیکریٹری کسی’بابا‘ کو مقرّر کردے جو اس حکومت کے دَور میں جڑی بوٹی بیچ بیچ کر ارب پتی بن گیا ہے یا معاشی معاملات کا مشیر بیسیوں ڈوبتے بینکوں کے چیر مین کو بنادیا جائے۔ سائنسی اُمور کیلئے اس منسٹر کو منتخب کیا جائے جس نے کہا تھا کہ سیتا ایک ٹیسٹ ٹیوب اولاد تھیں یا ماحولیات پر مشیر اس ’روحانی‘ گُرو کو بنادیا جائے جن پر ماحولیات کو نقصان پہنچانے کیلئے سپریم کورٹ نے ۵؍ کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا اور جنھوں نے بڑی ڈھٹائی سے جرمانہ ادا کرنے سے انکار کردیا تھا؟
(۶) حکومتِ ہند کے دس اہم شعبوں میں اِن مشتبہ و مشکوک دروازے سے جوائنٹ سیکریٹریوں کا تقرر پرائیویٹ سیکٹر کمپنیوں کے تجربہ کار افراد کا کرنا چاہتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کا کیامطلب ہے۔ کھرب پتی افراد کی کمپنیوں کو اس سے براہِ راست فائدہ پہنچانا ہے۔ ہر کمپنی والا اپنے ماہر بلکہ انتہائی شاطر شخص کو جوائنٹ سیکریٹری بنانے کیلئے بیتاب ہوگا۔ چاہے یہ تقرری پھر بلیک مارکیٹ میں فی تقرری ایک آدھ ہزار کروڑ روپے طے ہو کیوں کہ اس طرح کارپوریٹ کے اس شخص کو حکومت کی ہر فائل تک پہنچ ہوگی۔ عموماً کارپوریٹ کمپنیاں جاسوسوں کے ذریعے ڈرتے ڈرتے حکومت کے راز حاصل کرتی تھیں، اب تو ان کا جاسوس جو ائنٹ سیکریٹری کا لیبل لئے ساری فائلوں کے موبائیل کے ذریعے دن دہاڑے تصویریں لے گا اور پلک جھپکتے ہی اپنی کمپنی کو بھیجتے رہے گا۔ اگر کوئی کارپوریٹ ہاؤس ایک ہزار کروڑ کی رشوت کے ذریعے بھی اپنا نمائندہ جوائنٹ سیکریٹری کا تقرر کرنے میں کامیاب رہا تب بھی اُس کمپنی کو ایک لاکھ کروڑ کے سارے راز حاصل کرنے میں کامیابی ہو گی اور پھر ان کے خلاف انکوائری کمیشن اور پھر وہ سارے جوائنٹ سیکریٹریز کسی بیرونی ملک میں پناہ لے چکے ہوں گے؟
(۷) جو ائنٹ سیکریٹری کے تقرر کیلئے پی ایچ ڈی ہونی ضروری ہے۔ اس ملک میں حکمراں پریوار کی سر پرستی میں درجنوں ڈیمڈ یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ ان سے اپنے کیڈر کیلئے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں تو بس تیار ہی ہوں گی؟
(۸) سول سروس کیلئے اب تک کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ پرپلیمنری، مین اور انٹرویو کے ذریعے انہیں منتخب کیا جاتا ہے اور ایک تہائی افراد کا انتخاب ریاستی پبلک سروس کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آج جبکہ ملک بھر میں دس ہزار آئی اے ایس افسران کی ضرورت ہے تو پھر آخر صرف ساڑھے ۶؍ ہزار ہی منتخب کیوں کئے گئے ہیں ؟ ان دونوں لیول پر ذہین و قابل افراددستیاب نہیں ہیں ؟ آخر یہ مشکوک دروازہ کھولنے کیلئے حکومت کیوں بیتاب ہے؟
(۹) اس انتہائی اہم فیصلے کیلئے حکومت نے لوک سبھا سے اجازت طلب کئے بغیر سید ھے اشتہار کیسے دے دیا؟ کیا اس طرح اپنے پسندیدہ کارپوریٹ ہاؤس سے جوائنٹ سیکریٹریوں کو منتخب کرنا اس کا مقصد ہے؟
اس دھاندلی پر ہر شخص کو، طالب علم، والدین، اساتذہ اورتعلیمی اداروں کو تحریر، تقریر، دھر نا، مورچہ، بند و غیرہ کے ذریعے احتجاج کرنا ہے کیونکہ ملک کی پالیسیاں مرتّب کرنے والے افراد کے براہِ راست انتخاب سے اس ملک کی لگ بھگ تمام پالیسیاں متاثر ہوں گی جن میں مساوات و سیکولرزم کی بنیادی پالیسی اور حقِ تعلیم بھی شامل ہے۔