Inquilab Logo Happiest Places to Work

تمہید کے بہانے آئین کیخلاف آر ایس ایس، بی جے پی کی جنگ کا آغاز

Updated: July 06, 2025, 11:47 AM IST | Mukul Saral | Mumbai

طریقہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کوئی بات شروع کرتا ہے، بی جے پی لیڈر اسے دُہراتے ہیں ، نائب صدر جمہوریہ اُسے آگے بڑھاتے ہیں اور پھر وہ حکومت کی رائے بن جاتی ہے۔

RSS and BJP are not just concerned with `secularism` and `socialism` but with the entire Constitution. Photo: INN.
آر ایس ایس اوربی جے پی کو صرف ’سیکولرازم‘ اور ’سوشلزم‘ سے بیر نہیں ہے بلکہ پورے آئین سے ہے۔ تصویر: آئی این این۔

پہلے ترنگا جھنڈے کو قبول کرنے سے انکار کیا، پھر آئین کو غیر ملکی کہا اور اب اسی آئین سے اس کی روح نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندوستانی آئین کے دیباچے سے’سوشلزم‘ اور’سیکولرازم‘ جیسے الفاظ کو ہٹانے کی بحث ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ آر ایس ایس اسے شروع کرتا ہے، بی جے پی لیڈر اور وزراء اسے دُہراتے ہیں اور نائب صدر جمہوریہ اسے آگے بڑھاتے ہیں۔ اس طرح یہ حکومت کی رائے بن جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری دتاتریہ ہوسبولے نے کہا کہ ’’سوشلزم اور سیکولرازم جیسے الفاظ آئین کے اصل دیباچے میں نہیں تھے، انہیں ہٹا دینا چاہئے۔ ‘‘اس کے فوراً بعد مرکزی وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان سامنےآتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’سوشلزم اور سیکولرازم ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہیں۔ ان پر دوبارہ غور کیا جانا چاہئے۔ ‘‘ پھرآسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئین کے دیباچے سے ان الفاظ کو ہٹانے کا یہ صحیح وقت ہے۔ دریں اثنا نائب صدر کا بھی ایک بیان آتا ہے۔ ایک پروگرام کے دوران جگدیپ دھنکر نے کہا کہ ’’ایمرجنسی کے دوران تمہید میں جو الفاظ شامل کئے گئے ہیں وہ ناسور ہیں، سناتن کی روح پر حملہ ہے۔ ‘‘
خیال رہےکہ ہندوستان کی آئین کے تمہید میں ۱۹۷۶ء میں ۴۲؍ ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کے تحت’سوشلزم‘...’سیکولرازم’ اور’سالمیت‘ جیسے الفاظ شامل کئے گئے تھے۔ اب اسی کو بنیاد بنا کر آئین کے خلاف محاذ کھول دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولرازم، سوشلزم اور سالمیت جیسے الفاظ سے کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟لیکن آر ایس ایس اوربی جے پی کو اعتراض ہے اوریہ شروع ہی سے ہے۔ یہ آر ایس ایس اوربی جے پی کے نظریات کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا حتمی ہدف منوسمرتی پر مبنی’ہندو راشٹر‘ کا قیام ہے، جس میں مساوات، تکثیریت اور سماجی انصاف کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ 
۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں ایک مہم شروع کی گئی تھی ’’اب کی بار۔ ۴۰۰؍ پار‘‘کئی لیڈروں نے بیان دیا کہ آئین میں تبدیلی کیلئے ۴۰۰؍ سیٹیں ضروری ہیں۔ اپوزیشن ’انڈیا‘ اتحاد بالخصوص راہل گاندھی نے اسے ایک موضوع بنادیا اور آئین کا کاپی ہاتھ میں لے کر بی جے پی کو سیدھا چیلنج کیا۔ معاملہ عام لوگوں تک پہنچا، جس کا نتیجہ سامنے ہے۔ ہر طرح کی کوششوں کے بعد بھی بی جےپی۴۰۰؍ تک نہیں پہنچ سکی بلکہ اسے اکثریت تک نہیں مل سکی۔ بے انتہا کوششوں کے بعد بھی وہ ۲۴۰؍ پر سمٹ کر رہ گئی۔ بی جے پی کو دھچکا لگا کیونکہ آئین میں تبدیلی کی مہم رک گئی۔ حالانکہ عملی طور پر آئین پر آئے دن حملے ہو ر ہے ہیں۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کو کسی نہ کسی بہانے کچلا جا رہا ہے۔ عوام دشمن پالیسیوں اور قوانین پر بلاامتیاز عملدرآمد کیا جا رہا ہے، لیکن آئین میں براہ راست تبدیلی کی بات بہرحال رک گئی ہے۔ لیکن جیسے جیسے مودی کے تیسرے دورکا پہلا سال گزرا، اور ایمرجنسی کی۵۰؍ ویں سالگرہ آئی تو اسی کو بہانہ بنا کر ایک بار پھر آئین کی بنیادی روح یعنی تمہید کو تبدیل کرنے کی بات شروع ہوگئی۔ 
جب حکومت مہنگائی، بیروزگاری، حادثات اور خارجہ پالیسی سمیت دہشت گردانہ حملوں کے محاذوں پر چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے اور بہار کے انتخابات سامنے ہیں تو اچانک آر ایس ایس کا یہ بیان آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے کی طرح اس بار آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نہیں بولتے بلکہ آر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری ہوسبولے بولتے ہیں اور پھر بی جے پی کے لیڈر اپنے اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ کیا یہ اتفاق ہے؟ نہیں بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جنہیں اس پر شبہ ہو، انہیں چاہئے کہ وہ کچھ تاریخی حقائق کو غور سے د یکھیں۔ 
یہ وہی آر ایس ایس ہے جس نے۱۹۴۷ء میں ملک کے قومی پرچم یعنی ترنگے کو کھلے عام مسترد کر دیا تھا۔ اُس وقت آر ایس ایس کے سربراہ ایم ایس گولوالکر نے’آرگنائزر‘ میں لکھا تھا کہ’’ترنگا ہمیں کبھی متاثر نہیں کر سکتا.. یہ ہندوستان کا پرچم نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ آزادی کے۵۲؍ سال بعد تک آر ایس ایس نے اپنے صدر دفتر(ناگپور ہیڈکوارٹرز) پر ترنگا نہیں لہرایا تھا۔ کئی مواقع پرگولوالکر اور ساورکر کے پیروکاروں نے کہا کہ ’’یہ آئین ہندوستانی اقدار کا نہیں بلکہ مغربی نظریات کا دستاویز ہے۔ ‘‘آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے لکھا کہ ’’اس میں قدیم ہندوستانی ثقافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ‘‘یہ وہی لوگ ہیں جو آج بابا صاحب امبیڈکر کا نام لے کر انہیں کے بنائے گئے آئین کی بنیادی روح کوختم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس تنازع کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار کیا ہے۔ 
 ملاحظہ کریں اس حوالے سےسپریم کورٹ کانظریہ:
۱۹۷۳ء میں کیشوانند بھارتی کیس میں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ ’’آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے’بنیادی ڈھانچے‘ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ 
۱۹۹۴ء میں ایس آر بومئی کیس میں واضح کیا گیا تھا کہ’’سیکولرازم آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ ‘‘
۲۰۲۴ء میں، سپریم کورٹ نے تین درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سوشلزم اور سیکولرازم، یہ الفاظ ہندوستانی آئین کی بنیادی روح کے مطابق ہیں۔ انہیں ہٹانے کا مطالبہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘
یہ عرضداشتیں ڈاکٹر بلرام سنگھ نامی ایک کارکن کے ساتھ بی جے پی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی اور بی جے پی سے منسلک سپریم کورٹ کے وکیل اشونی کمار اپادھیائے نے دائر کی تھی۔ اُس وقت چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار نے ان درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ’’آرٹیکل۳۶۸؍ کے تحت، پارلیمنٹ تمہید میں ترمیم تو کر سکتی ہے لیکن آئین کے بنیادی ڈھانچے پر کوئی پابندی نہیں لگاسکتی۔ ‘‘
ابھی اس واقعے کو ۶؍ ماہ بھی نہیں گزرے کہ ایک بار پھر تمہید کے نام پر آئین کے خلاف محاذ کھول دیا گیا ہے۔ کیا یہ صرف لفظوں کا کھیل ہے؟ نہیں، قطعی نہیں۔ دراصل سرمایہ داروں کے حامیوں نے ہمیشہ ’سوشلزم‘ سے نفرت کی ہے۔ اسی طرح ہندوتواوادی ’سیکولرازم‘ سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسے ہٹا دیا جائے – تاکہ ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دینے کا نظریاتی راستہ واضح ہو۔ آئین کے یہ الفاظ دلتوں، مسلمانوں، قبائلیوں، خواتین، کسانوں اور مزدوروں سبھی کے حقوق سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں ہٹانا نہ صرف آئین بلکہ عوام سے انصاف چھیننے کی کوشش ہے۔ 
مطلب صاف ہے کہ یہ صرف الفاظ کا جھگڑا نہیں ہے۔ یہ اس لڑائی کا حصہ ہے جس میں آر ایس ایس اور بی جے پی بار بار ہندوستان کی روح کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں – اور جب بھی ان کی سچائی سامنے آتی ہے، وہ بابا صاحب کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK