Inquilab Logo

صحافت چھوڑ کر میں نے سیاست کاانتخاب کیوں کیا؟

Updated: February 25, 2024, 1:42 PM IST | Sagarika Ghose | Mumbai

آج کی تاریخ میں بہت ساری چیزیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہم کیسی جمہوریت چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایک ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جہاں ایک بے رحم انتخابی اکثریت، اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کر دے اور جہاں صحافی خوف سے یا تو مفلوج ہو جائیں یا اس قدر احتیاط سے چلنے لگیں کہ ان کی موجودگی کااحساس تک باقی نہ رہے۔

Sigarika Ghosh, Sushmata Dev and Mamata Bala Thakur after being elected Rajya Sabha members. Photo: INN
راجیہ سبھا رکن منتخب ہونے کے بعد سگاریکا گھوش،سشمتا دیو اور ممتا بالا ٹھاکر۔ تصویر : آئی این این

آج کی تاریخ میں بہت ساری چیزیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہم کیسی جمہوریت چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایک ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جہاں ایک بے رحم انتخابی اکثریت، اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کر دے اور جہاں صحافی خوف سے یا تو مفلوج ہو جائیں یا اس قدر احتیاط سے چلنے لگیں کہ ان کی موجودگی کااحساس تک باقی نہ رہے۔ کیا ہم ایک ایسی جمہوریہ بننا چاہتے ہیں جہاں صحافی سڑکوں پر وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنیں، جیسا کہ حال ہی میں سینئر صحافی نکھل واگلے کے ساتھ ہوا؟ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ بی جے پی کارکنوں کے ذریعہ واگلے پر حملے کو مبینہ طور پر مقامی پارٹی سربراہ کی حمایت حاصل تھی۔۲۰۲۰ء میں، کیرالا کے صحافی صدیق کپن کو اتر پردیش میں گرفتار کیا گیا اور ان پر’یو اے پی اے‘ لگادیا گیا جبکہ وہ ہاتھرس میں ایک گھناؤنے جرم کی رپورٹنگ کرنے جا رہے تھے۔ انہیں ضمانت کیلئے دو سال تک جدوجہد کرنی پڑی۔
 کیا ہم ایک ایسی جمہوریت بننا چاہتے ہیں جہاں احتجاج کو جرم قرار دیا جائے اور اکیڈمک عمر خالد جیسا  اکٹی وِسٹ ساڑھے تین سال تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رہے اور پھر اپنی ضمانت کی درخواست واپس لینے پر مجبور ہوجائے کیونکہ دس ماہ  میں ان کی سماعت ایک دو بار نہیں بلکہ۱۴؍ بار ملتوی ہو چکی ہے۔ ? احتجاج کرنے والے کسانوں کو ’خالصتانی‘ کہا جاتا ہے، احتجاج کرنے والے طلبہ کو’ٹکڑے۔ٹکڑے گینگ‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نامور وکیل سدھا بھاردواج، جنہیں ہارورڈ یونیورسٹی نے ان کے کام کیلئے اعزاز سے نوازا تھا، کو بھی نہیں بخشا گیا اور انہیں یو اے پی اے کے تحت تین سال سے زیادہ کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان اذیت ناک وقتوں میں زیادہ تر صحافیوں نے مقابلے کے بجائے مودی حکومت کی حمایت کا انتخاب کیا۔
ان حالات میں معیاری صحافت یا جسے میں اچھی تحریر سمجھتی ہوں کیلئے بہت کم گنجائش رہ گئی ہے۔ ان حالات میں اب جبکہ زیادہ تر مین اسٹریم میڈیا حکومت سے سوالات نہیں کرسکتا، لیکن  اپوزیشن جماعتیں ایسا کرسکتی  ہیں اور کررہی ہیں۔ اسلئے آج کی تاریخ میں اپوزیشن کا متحد ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ جمہوریت سانس لے سکتی ہے بہ شرط یہ کہ اپوزیشن بچ جائے۔ ’’اپوزیشن فری انڈیا‘‘ کا مطلب ہے کہ حکمران پارٹی کے علاوہ کوئی نقطہ نظر باقی نہیں رہے۔ بلاشبہ حزب اختلاف کو بھی بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن حزب اختلاف ہی ہندوستانی جمہوریت کی آخری سانس کی نمائندگی کرتی ہے۔
 میں نے نہ تو راجیہ سبھا کی سیٹ مانگی اور نہ ہی اس کیلئے کوئی لابنگ کی۔ میں کوئی کاروباری خاتون نہیں  کہ بدلے میں کچھ پیش کرسکوں، لیکن مجھے ایک شہری اور ایک بنگالی دونوں کے طور پر یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کی واحد خاتون وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مجھے یہ موقع فراہم کیا ہے۔ اسلئے میرے ساتھ پارلیمنٹ میں آئیے، اور عوام کی خاطر مجھ سے جڑیئے، کیونکہ میں نڈر ہوکر آواز اٹھانے کی کوشش کررہی ہوں۔
- سگاریکا گھوش 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK