۔ دوسری جانب کوہ اراولی میں کان کنی کی اجازت دینے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو بھی مختلف اخبارات نے کارپوریٹ نواز پالیسیوں کا تسلسل بتایا ہے کیونکہ اس سے ماحولیات اور مقامی آبادیوں کے حقوق کو شدید خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 12:46 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
۔ دوسری جانب کوہ اراولی میں کان کنی کی اجازت دینے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو بھی مختلف اخبارات نے کارپوریٹ نواز پالیسیوں کا تسلسل بتایا ہے کیونکہ اس سے ماحولیات اور مقامی آبادیوں کے حقوق کو شدید خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اترپردیشکی ایک عدالت نے ماب لنچنگ کے شکار اخلاق احمد کے ملزمین کے خلاف کیس واپس لینے کی سرکاری عرضی کو مسترد کرکے قانون کی بالادستی قائم رکھی ہے۔ اس فیصلے پر غیر اُردو اخبارات نےبھی یوگی سرکار پر تنقید کی ہے اور اس کی کوششوں کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قدم قرار دیا ہے۔ دوسری جانب کوہ اراولی میں کان کنی کی اجازت دینے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو بھی مختلف اخبارات نے کارپوریٹ نواز پالیسیوں کا تسلسل بتایا ہے کیونکہ اس سے ماحولیات اور مقامی آبادیوں کے حقوق کو شدید خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مرکزی حکومت کے ایک اور حالیہ فیصلے یعنی ریل کے کرایوں میں اضافے کو بھی عوام دشمن قرار دیتے ہوئے اداریوں میں حکومت پر مہنگائی کے بوجھ کو مزید بڑھانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ادھر مہاراشٹر میں ادھوٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کے اتحاد پر مراٹھی اخبارات نے اداریے لکھ کر اسے ریاست کی سیاست میں ایک نئی اور دلچسپ مساوات سے تعبیر کیا ہے۔
عدلیہ اب بھی اس ملک کی آئینی حرمت کی محافظ ہے
دی انڈین ایکسپریس( انگریزی، ۲۴؍ دسمبر)
’’ تقریبا دس برس قبل اتر پردیش کے گاؤں بساڈا میں محمد اخلاق کا سفاکانہ قتل نہ صرف ایک انسان کی جان لینا تھا بلکہ ملک کے اجتماعی ضمیر پر لگنے والا ایک کاری زخم بھی تھا۔ ایک افواہ کے سائے میں ہجوم کا تشدد جس درندگی کے ساتھ سامنے آیا، اس نے ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال کو بے نقاب کر دیا۔ اخلاق کے قتل کے بعد گائے کے تحفظ کے نام پر سرگرم گروہوں کو جیسے نئی سند مل گئی۔ افسوس کہ یہ گروہ صرف سماج ہی نہیں بلکہ بعض طاقتور حلقوں کی خاموش تائید سے تقویت پاتے رہے۔ توقع تھی کہ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوگی لیکن یہاں اُلٹا مقتول کے خاندان کو ہی قانونی اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صورتحال کسی بھی مہذب معاشرے کیلئے سوالیہ نشان تھی۔ اسی تناظر میں حال ہی میں اتر پردیش سرکار حکومت کی جانب سے اخلاق لنچنگ کیس کو ختم کرنے اور ملزمین کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی کوشش نہایت کمزور یکطرفہ اور انصاف کے اصولوں سے متصادم ثابت ہوئی۔ یہ اقدام دراصل اس تاثر کو مضبوط کر رہا تھا کہ ریاست قانون نافذ کرنے کے بجائے مجرموں کو ڈھال فراہم کرنے میں خود شامل ہے۔ ایسے نازک مرحلے پر عدلیہ نے نہ صرف حکومت کی درخواست کو مسترد کیا بلکہ ایک غیر معمولی اور جرأت مندانہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے صاف الفاظ میں واضح کیا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ جج صاحب نے روزانہ سماعت کا حکم دیتے ہوئے پولیس کو سخت ہدایت بھی دی کہ گواہوں اور ثبوتوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے تاکہ انصاف کے راستے میں کسی قسم کی دھونس یا اثراندازی نہ ہو۔ یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ عدلیہ اب بھی اس ملک کی آئینی حرمت کی محافظ ہے۔ ‘‘
یہ اتحاد ٹھاکرے بھائیوں کا اصل امتحان ہے
لوک ستہ( مراٹھی، ۲۵؍ دسمبر )
مہاراشٹر کی سیاست اس وقت ایک ایسے دلچسپ موڑ پر کھڑی ہے جہاں ماضی کی تلخیاں مستقبل کی حکمت عملی کے سامنے ہیچ ثابت ہو رہی ہیں۔ اردو کے ممتاز شاعر بشیر بدر نے کبھی کہا تھا کہ’ ’دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے/ جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں۔ ‘‘ ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کے ممکنہ اتحاد پر یہ شعر صادق آتا ہے۔ تقریباً دو دہائیوں تک ایک دوسرے کے سیاسی حریف رہنے کے بعد، اب ’جو ہوا سو ہوا‘ کے مصداق دونوں بھائیوں کا ایک چھت تلے آنا محض ایک خاندانی ملاپ نہیں بلکہ ریاست کی سیاسی بساط کو پلٹنے کی ایک بڑی کوشش نظر آتی ہے۔ راج ٹھاکرے نے جب ’ایم این ایس‘کی بنیاد رکھی تھی تو اس وقت ان کا رخ اپنے ہی بھائی اور اصل شیو سینا کی مخالفت کی طرف تھا لیکن وقت بدل چکا ہے۔ آج ان کے سامنے وہ بی جے پی ہے جو اپنے اتحادیوں کو بتدریج کمزور کر کے ان کی سیاسی زمین ہڑپ کرنے کے فن میں مہارت رکھتی ہے۔ ادھو اس کا تلخ تجربہ کر چکے ہیں جن کی شیو سینا کو بی جے پی نے بڑی صفائی سے دو ٹکرے کر دیا۔ اب ٹھاکرے برادران کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بی جے پی کی وہ مشینری ہے جو ان کے اتحاد کی ساکھ اور ماضی کے تضادات کو ڈھال بنا کر ان پر حملہ آور ہوگی۔ اگرچہ دیویندر فرنویس اس اتحاد کو بے اثر قرار دے رہے ہیں لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ فرنویس کے اس اعتماد کو غلط ثابت کرنا ہی ٹھاکرے بھائیوں کا اصل امتحان ہوگا۔ اس اتحاد کی سب سے زیادہ تپش نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے محسوس کر رہے ہیں۔ ان کیلئے یہ صورتحال دُہری تلوار کی مانند ہے۔
حکومت بستیوں کو صحرا میں بدلنے پر آمادہ نظر آتی ہے
پربھات( مراٹھی، ۲۴؍دسمبر)
وطن عزیز میں ’ترقی‘کی جس تعبیر کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اب فطرت کے ساتھ کھلی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ گزشتہ چند روز سے اراولی کے قدیم پہاڑی سلسلے کو بچانے کیلئے جو عوامی تحریک برپا ہے، اس نے موجودہ نظام کے ترجیحی پیمانوں پر کئی سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جس مین اسٹریم میڈیا پر عوامی مسائل کی ترجمانی کی ذمہ داری تھی، اس نے مصلحت کی چادر اوڑھ کر اس اہم ترین معاملے سے مجرمانہ چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ تاہم عوام کے شعور کی لہر اس قدر توانا ہے کہ میڈیا کی خاموشی کے باوجود یہ تحریک ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے۔ اراولی کا یہ کوہستانی سلسلہ محض پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ گجرات سے دہلی تک پھیلا ہوا ایک قدرتی حصار ہے جس کا ۸۰؍ فیصد حصہ راجستھان کی زمین کو زرخیزی اورتحفظ فراہم کرتا ہے۔ ماہرین ماحولیات عرصہ دراز سے چیخ رہے ہیں کہ اراولی کی بقا ہی میں اس خطے کی بقا ہے کیونکہ یہی وہ ڈھال ہے جو ریگستان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکتی ہے لیکن حالیہ برسوں میں عدالتی احکامات کی آڑ لے کر جس طرح ۱۰۰؍ میٹر تک کی بلندی والے حصوں کو پہاڑی تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ہے، اس نے کارپوریٹ نواز پالیسیوں کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔ یہ امر نہایت تشویشناک ہے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کی ایسی تشریح کر رہی ہے جس سے مخصوص صنعت کاروں کیلئے ان قیمتی معدنیات تک رسائی آسان ہو جائے جو اراولی کے بطن میں پوشیدہ ہیں۔ اراولی سے لے کر ناسک کے تپوون تک کہانی ایک ہی ہے۔ کہیں کمبھ میلے کے سادھو گرام کے نام پر ہزاروں قدیم درختوں کا قتل عام ہو رہا ہے تو کہیں کان کنی کے لائسنس بانٹے جا رہے ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہے جو ہنستی بستی بستیوں کو صحرا میں بدلنے پر آمادہ نظر آتی ہے؟‘‘
ریلوے کا ناقص معیار اور مسافروں کی بدحالی
نوبھارت( ہندی، ۲۴؍ دسمبر )
’’ریلوے کی جانب سے طویل مسافت کی ٹرینوں کے کرایوں میں حالیہ اضافہ اگرچہ وقت کی ضرورت اور معاشی تقاضوں کے عین مطابق قرار دیا جا رہا ہے تاہم اس فیصلے نے ایک پرانا اور سنگین سوال دوبارہ زندہ کر دیا ہے کہ کیا کرایوں کے بوجھ تلے دبے مسافروں کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور ان کے تحفظ کے معیار میں بھی اسی تناسب سے بہتری آئے گی؟ انتظامیہ کے مطابق ۲۱۵ ؍ کلومیٹر سے زائد کے سفر پر فی کلومیٹر ایک پیسہ اور میل اور ایکسپریس ٹرینوں کے کرایوں میں ۲؍ پیسے کا اضافہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح ممبئی کے لاکھوں محنت کشوں کیلئے لوکل ٹرین اور ماہانہ پاس کے نرخ برقرار رکھنا بلاشبہ ایک مستحسن قدم ہے لیکن اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ رواں برس کرایوں میں یہ دوسری بار اضافہ کیا گیا ہے۔ جولائی کے اضافے سے ریلوے کے خزانے میں ۷۰۰؍ کروڑ روپے کا گراں قدر اضافہ ہوا جبکہ موجودہ اقدام سے مارچ تک مزید ۶۰۰؍ کروڑ روپے کا ریونیو بٹورنے کا ہدف ہے۔ ریلوے حکام نیٹ ورک کی توسیع اور افرادی قوت کے بڑھتے ہوئے مصارف کو اس اضافے کا جواز قرار دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حالیہ برسوں میں ریزرویشن سسٹم کی ڈجیٹلائزیشن، وندے بھارت جیسی جدید ٹرینوں کا اجرا اور بلٹ ٹرین جیسے بلند بانگ منصوبے ریلوے کی ترقی یافتہ تصویر پیش کرتے ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ حد درجہ دھندلا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہائی اسپیڈ گاڑیوں کے خواب دکھائے جا رہے ہیں وہیں عام مسافر آج بھی ٹرینوں کی گھنٹوں تاخیر اور وقت کی پابندی سے محرومی کا رونا رو رہے ہیں۔ اسٹیشنوں اور بوگیوں کے اندر صفائی و ستھرائی کی صورتحال ابتر ہے۔ پلیٹ فارمز پر پینے کے پانی کے نلوں کا ناکارہ ہونا محض اتفاق نہیں بلکہ اکثر اسے مسافروں کو مہنگا بوتل بند پانی خریدنے پر مجبور کرنے کا ایک حربہ سمجھا جاتا ہے۔ اسٹیشنوں پر غیرقانونی طور پر سامان فروخت کرنے والوں کی من مانی، پلیٹ فارمز پر پھیلی بدبو اور بھکاریوں کی یلغار انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ خاص طور پر ٹرینوں کے بیت الخلا کی حالت زار اور کیٹرنگ سروس کے گرتے معیار نے مسافروں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ قیمتیں تو آسمان چھو رہی ہیں مگر معیار پستی کا شکار ہے۔ ‘‘