Inquilab Logo

ربِّ کائنات نے جوعلم ہمیں دیا ہے، وہ ایک جوابدہی ہے،اسلئے اس علم کو ہمیں دوسروں میں تقسیم کرنا ہی ہے

Updated: March 25, 2024, 11:45 AM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

سیاست، ادب، معاشرت اور معیشت اِن سب سے زیادہ تعلیمی موضوعات پر لکھا جاسکتا ہے کیوں کہ تعلیم نگاری میں بے حد وسعت موجود ہے۔

You and only your natural intelligence knows the demands of psychology to our students and parents. We believe that natural intelligence is superior to any artificial intelligence, so please don`t rely on Google and AI. Photo: INN
ہمارے طلبہ و والدین کو نفسیات کے تقاضوں سے آپ اور صرف آپ کی فطری وقدرتی ذہانت ہی واقف ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ قدرتی ذہانت ہر مصنوعی ذہانت پر بھاری ہے اسلئے برائے کرم گوگل اور اے آئی پرانحصار نہ کریں۔ تصویر : آئی این این

سیاست، ادب، معاشرت اور معیشت اِن سب سے زیادہ تعلیمی موضوعات پر لکھا جاسکتا ہے کیوں کہ تعلیم نگاری میں بے حد وسعت موجود ہے۔ اس کیلئے موضوعات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، مثلاً بچّہ گھر میں ہو، اسکول میں یا نکّڑ پر.... اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش ہرکوئی کرسکتا ہے۔ اسی ضمن میں ہم اساتذہ سے مخاطب ہیں :
اپنی رائے قائم کیجئے :
 کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے قبل اس موضوع پر آپ اپنی ایک رائے قائم کیجئے کہ آپ کو اس موضوع پر کیا کہنا ہے۔ اس میں آپ کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ آپ اکثریت کی رو میں بہہ نہیں جائیں گے کہ بڑی اکثریت اس موضوع پر کچھ ایسا ہی سوچتی ہے لہٰذا مجھے بھی اُسی طرز پر سوچنا ہے اور لکھنا ہے، اگر میں مختلف رائے رکھوں گا توتنہا ہو جاؤں گا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر بار ’ہٹ کے‘ سوچنے میں بالکل ہٹ جائیں، بلا وجہ تنازع کھڑا کریں اور مختلف رائے صرف اسلئے رکھیں کہ سبھوں سے بالکل مختلف ثابت ہو جائیں۔ 
 آپ یہ بھی نہ سوچیں کہ کس دُکان پر کون سا مال بکتا ہے، ویسا مال اور اُس کی پیکنگ ویسی تیار کی جائےکیونکہ بعض قلم کا راکثر یہ سوچتے ہیں کہ کس اخبار / رسالے کی کیا پالیسی ہے، اُس کا اور اُس کے قارئین کا مزاج کیسا ہے، بس اس قسم کی پُڑ یا تیار کی جائے۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہر قلم کار اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنے زاویۂ نگاہ کو اس رسالےکے مطابق اپناتا ہے، ہونا یہ چاہئے کہ کسی بھی موضوع پر آپ اپنی رائے رکھئے، پھر وہ کچھ لوگوں کو قابل قبول ہو یا نہ ہوالبتہ وہ نافع ہو۔ 

یہ بھی پڑھئے: تعلیم نگاری میں طلبہ، اساتذہ، والدین، انتظامیہ، معاشرہ اور حکومت سبھی سے خطاب کرنا ہے

صرف مسائل نہیں حل بھی !
 ہماری قوم میں عام طور پر مسائل اوروسائل پر بحث کرنے کا تناسب بڑاتکلیف دہ ہے یعنی ۹۵؍ فیصد وقت مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اور اس کے حل سے متعلق بات صرف ۵؍فیصد ہوتی ہے یعنی اکثر ہوتا یہ ہے کہ مسائل پر خوب خوب سینہ کوبی و ماتم ہوتا ہے، ہرکسی کو ملزم بلکہ مجرم ثابت کیا جاتا ہے، شکایات کے دفتر کھولے جاتے ہیں مگر ان مسائل کے عملی حل پر کوئی بات نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے۔ ایسی تحریریں بڑی ’شاہکار‘ بھی ہو سکتی ہیں مگر کار آمد ہرگز نہیں۔ براہ کرم آپ مسائل سے پُر چٹخارے دار تحریروں کا انبار لگانے والوں کی قطار سے ہٹ جائیں اور ان کے عملی حل بتانے والوں کی نئی قطار قائم کریں۔ 
’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘....سے پرے
 اپنے کسی بھی خیال کو قلمبند کرتے وقت ’لوگ کیا کہیں گے؟‘ اس خیال کو اپنے ذہن پر حاوی ہونے نہ دیں کہ ایسا لکھا تو لوگ کیا کہیں گے اور ویسا لکھا تو لوگ کیا کہیں گے ؟ لوگ بہر حال ہمیشہ کچھ نہ کچھ تو کہتے رہیں گے لہٰذا صرف تنقید نہیں ( تنقید تو اچھی بات ہے )، نکتہ چینی بلکہ عیب جوئی کیلئے بھی تیار رہیں کہ آپ مکمل دیانت داری، بڑے ہی در دو تڑپ سے کوئی بات تحریر کرتے ہیں، اُس کے باوجود اس سے کچھ لوگوں کو اتفاق نہیں ہوگا وہ تنقید کریں گے اور یہ کوئی بُری بات نہیں ہے البتہ کچھ بھی مثبت کام نہ کرنے والے لوگ ( اور اُن کی بڑی اکثریت ہے ) وہ بھی نکتہ چینی بلکہ عیب جوئی بھی کریں گے، ایسی ایسی دُور کی کوڑی لائیں گے، عیب جوئی میں ایسے ایسے کیچڑ اُچھالیں گے جس کا آپ تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ اور وہ اُس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک کہ آپ ہمت ہار کر اپنے مشن سے تو بہ نہ کر لیں۔ ایسے میں آپ ڈھیٹ بن جائیں، ثابت قدم رہیں اور یاد کریں کہ آپ کے اس قلمی جہاد کوشروع کرنے کا مقصد کیا تھا۔ 
دس کلو پڑھیں، دس گرام لکھیں :
 مطالعہ، دماغ کی سب سے بڑی ٹانک ہے۔ مطالعہ آپ کے دماغ کی مشین کیلئے تیل کا کام کرتا ہے۔ مطالعے سے ذہن کے دریچے کھلتے ہیں۔ دوسرے مفکرین و دانشوروں کے افکار کے مطالعے سے کسی بھی معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی بصیرت آجاتی ہے۔ آپ کے مطالعے اور تحریر کا تناسب یہ ہونا چاہئے کہ آپ دس کلو پڑھیں اور دس گرام لکھیں۔ خوب خوب حسن اور گہرائی و گیرائی آجائے گی آپ کی تحریر میں آج ہمارے تعلیمی اداروں میں مطالعہ کا کیا حال ہے یہ ہم بھی جانتے ہیں۔ چند ایک مثالیں ہم دینا چاہیں گے کہ ممبئی کے ایک بڑے اُردو اسکول میں جس میں اساتذہ کی تعداد سو سے زائد ہے، ہم ’اساتذہ کی شخصیت سازی‘ کے موضوع پر اُن کو لیکچر دے رہے تھے۔ ہم نے دوران گفتگو پوچھا کہ آپ اساتذہ کرام اُردو کا کوئی اخبار پڑھتے ہیں۔ سبھوں نے جواب دیا کہ وہ پڑھتے ہیں، ایک اخبار اسکول میں آتا ہے۔ ہمارا سر چکرا گیا یہ سوچ کر کہ ۱۱۰؍اساتذہ ایک اخبار بانٹ کر پڑھتے ہیں، جنہیں چھٹے پے کمیشن کی تنخواہیں مل رہی ہیں۔ ایک اسکول میں اردو کے استاد کے انتخاب کیلئے ہم انٹرویو لے رہے تھے وہاں ہمیں ایم اے ( اردو ) والوں سے یہ جواب سننے ملے کہ’غبارِ خاطر‘ سرسید احمد خاں کی لکھی ہوئی ہے اور ’بانگ درا‘حالی کا شعری مجموعہ ہے۔ ’عیدگاہ‘ کے مصنف سے وہ واقف تھے نہ ابّوخاں کی بکری کے تخلیق کار سے۔ 
 محترم اساتذہ کرام ! ہم آپ ہمیشہ حکومت کے فرمان کے غلام کیوں رہیں ؟ حکومت آپ کی تنخواہ میں سے کئی قسم کے ٹیکس وصول کر لیتی ہے تو آپ کچھ نہیں کرتے۔ چلئے ایک ٹیکس آپ خود اپنے اوپر عائد کرلیں۔ آپ ہر ماہ اپنی تنخواہ کا صرف ایک فیصد اپنے مطالعے پر لازمی طور پر خرچ کریں۔ اَن ایڈیڈ اسکولوں کے اساتذہ کو فی الفرض دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہے اور ایڈیڈ اسکول میں ۸۰؍ ہزار، اُن کا صرف ایک فیصد بالترتیب سوروپے سے ۸۰۰؍روپے ماہانہ مطالعے میں سرمایہ کاری کریں۔ مطالعے کی اس ٹانک سے آپ بھی صحت مند رہیں گے اور اُردو زبان کو آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں ٹرانسفر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ 
فطری ذہانت سب پر بھاری
 اسمارٹ فون کی ٹیکنالوجی آنے کے بعد سے بچّوں سے لے کر بڑوں تک اس کے محتاج ہوگئے اور اُس پرمکمل منحصر بھی۔ ہمارے نوجوانوں سے پوچھئے تو ہر بار ایک ہی جواب دیں گے: ’’گوگل کہتا ہے‘‘ اس طرح ہمیں صرف تکنیکی معلومات گوگل وغیرہ سے استفادہ کرنا تھا، اُس کے بجائے اب کوئی رائے قائم کرنے کے علاوہ ذہن سازی کیلئے بھی اِس میڈیم کے بھی کچھ لوگ محتاج ہوگئے ہیں۔ اب جب مصنوعی ذہانت بھی آگئی تب سے ہمارے بعض قلم کار، تخلیق کار، اساتذہ و اسکالر مصنوعی ذہانت اور چیٹ جی پی ٹی پر منحصر ہوگئے ہیں۔ یہ بڑا اور شدید نقصان ہوگیا کیونکہ اس طرح صرف کٹ پیسٹ ماسٹر یعنی نقلچی بن سکتے ہیں۔ ویسے عنقریب ایسا ایپ ضرور آجائے گا جو اِن نقلچیوں کو بے نقاب بھی کردے گا۔ 
 تعلیم نگاری کو اس نقل کی قبیح بیماری سے دُور رکھیں۔ ہمارے معاشرے، ہمارے سماج، ہمارے طلبہ و والدین کو نفسیات کے تقاضوں سے آپ اور صرف آپ کی فطری وقدرتی ذہانت ہی واقف ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ قدرتی ذہانت ہر مصنوعی ذہانت پر بھاری ہے اسلئے برائے کرم تعلیم نگاری کو نقلچیوں کا بازار نہ بنائیں۔ ہر بار نقل پر عقل بھاری ہوتی ہے۔ 
اپنے علم کا صدقہ دیجئے :
 محترم اساتذہ کرام ہر چیز کا ایک صدقہ ہوتا ہے۔ زرکا، مال کا، بالکل اُسی طرح علم کا بھی صدقہ ہوتا ہے۔ آپ کے پاس جو نالج ہے، علم ہے، اللہ کیلئے اس کا بھی صدقہ نکا لیں۔ اپنا وہ علم طلبہ، والدین، اساتذہ غرض کہ معاشرے کو دے کر جائیں کیوں کہ حساب ہوگا، جسے مال دیا ہے اُس کے مال کا حساب ہوگا، جسے علم دیا ہے اُس کے علم کا حساب ہوگا کہ اُس نے وہ علم بانٹا یا اُس سے کسی کو فیضیاب کئے بغیر ہی اس دنیا سے رُخصت ہوا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK