افسوس کی بات ہے کہ ایک باپ نےٹیوشن ٹیسٹ میں کم نمبر لانے پراپنی ۱۷؍سالہ بیٹی کو اس قدر بے رحمی سے پیٹا کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 1:54 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
افسوس کی بات ہے کہ ایک باپ نےٹیوشن ٹیسٹ میں کم نمبر لانے پراپنی ۱۷؍سالہ بیٹی کو اس قدر بے رحمی سے پیٹا کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔
طلبہ کیلئے معیاری تعلیم کی فراہمی اور تعلیمی نظام کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے عنوان سے کئے جانے والے اصلاحی اقدامات اب تک تعلیمی عمل کو اس قدر خوشگوار نہیں بنا سکی ہیں جو طلبہ کی ذہانت کو فطری انداز میں پروان چڑھا سکے۔ تعلیم کا حصول اب ایک ایسا سماجی مسئلہ بن گیا ہے جو تعلیمی عمل سے وابستہ فریقین خصوصاً طلبہ کی ذہنی اور جسمانی صحت نیز ان کی گھریلو اور سماجی زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ اس مسئلے کا اثر مختلف صورتوں میں ظاہر ہو رہا ہے اور اس کی انتہائی شکل یہ ہے کہ طلبہ اور ان کے والدین کے مابین تعلقات میں محبت و شفقت، ادب و احترام اور انسانی جذبوں کی قدر دانی معدوم ہوتی جارہی ہے۔ اب سے ربع صدی قبل کیا یہ سوچا بھی جا سکتا تھا کہ امتحان میں امتیازی نمبرات نہ لانے کی پاداش میں کوئی باپ اپنی اولاد کو اس قدر زدو کوب کرے گا کہ اس کی موت واقع ہو جائے؟اولاد اور والدین کے باہمی ربط میں جذبہ و احساس کی جو نازک اور لطیف لہر موجزن رہتی ہے اس کے پیش نظر یہ تصور بھی محال ہے کہ امتحان میں بہترین کارکردگی نہ کر پانے کے سبب کوئی باپ اپنی اولاد کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے گا۔ لیکن ایسا ہونا اب کوئی حیرت کی بات نہیں رہی۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی مہاراشٹر کے سانگلی سے اسی نوعیت کی ایک خبر منظر عام پر آئی۔ اس خبر کے مطابق ایک باپ نے ٹیوشن ٹیسٹ میں کم نمبر لانے پراپنی ۱۷؍سالہ بیٹی کو اس قدر بے رحمی سے پیٹا کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
سانگلی کا یہ دردناک واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اب تعلیم کے نام پر والدین اپنی اولاد سے ہمیشہ امتیازی نمبرات کی ہی توقع کرتے ہیں۔ اگر اولاد کبھی اس توقع پر پوری نہ اُتر پائے تو اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کو بھی معیوب نہیں سمجھاجاتا۔ ایسے لوگ نہ صرف انسانی رشتوں کی حرمت اور اقدار حیات کیلئے سنگین خطرہ ہیں بلکہ ان کا شقاوت آمیز رویہ تہذیب و تمدن کے ان دعوؤں کو بھی بے حقیقت بناتا ہے جو انسان کی فضیلت اور روئے زمین پر اس کے وجود کی برکت سے وابستہ ہیں۔ تعلیمی عمل کے تناظر میں دیکھیں تو یہ معاملہ صرف اولاد اور والدین ہی سے وابستہ نہیں ہے بلکہ اسکول یا کالج میں تدریسی اور بعض معاملات میں غیر تدریسی عملہ بھی اسی راستے پر گامزن نظر آتا ہے جو انسانی جذبہ و احساس سے پوری طرح عاری ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ کوبھی سماج ان دیگر ملازمت پیشہ افراد کی مانندہی دیکھتا اور سمجھتا ہے جن کا کام بہ اعتبار محکمہ مخصوص اقدامات اور مشوروں کی تعمیل کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل کی تکمیل میں فہم و دانش کا وہ معیار عموماً درکار نہیں ہوتا جو تدریس کیلئے لازمی حیثیت رکھتا ہے۔
تعلیمی ادارے میں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ سے طلبہ کا رابطہ ایک متعینہ مدت کیلئے ہوتا ہے اور اگر اس ربط باہمی میں تعلیمی اغراض و مقاصد کی تکمیل کا عمل خوشگوار ماحول میں انجام نہ پائے تو اس سے بہرحال نقصان طالب علم کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ بیشتر تعلیمی اداروں سے وابستہ اساتذہ اس منصب سے وابستہ احترام و تقدیس کے تصور کو فراموش کر کے صرف ایک کاروباری کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں تعلیم کے معیار کومد نظر رکھنے سے زیادہ ادارے اور ذاتی مفاد پر ان کی نظر رہتی ہے۔ یہ صورتحال طالب علم کو بعض اوقات ایسے مسائل سے دوچار کرتی ہے جو اُن کے تعلیمی مراحل کو پیچیدہ اور مشکل بناتے ہیں۔ ذی فہم اور معاملہ شناس طالب علم ان مسائل کے حل کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں لیکن اگر اسی نوعیت کے مسائل ان کے والدین یا دیگر اہل خانہ سے ان کے تعلقات میں پیدا ہو جائیں تو ان کا تصفیہ آسان نہیں ہوتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اور ان میں سب سے بڑی وجہ امتحان میں امتیازی نمبرات حاصل کرنے کی وہ توقعات ہیں جو والدین اور اولاد کے ربط باہمی پر مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔
والدین کی اپنی اولاد سے ایسی توقعات اب ایک سماجی رجحان کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ رجحان بیشتر متوسط طبقہ کے ان گھروں میں واضح طور پر نظر آتا ہے جو اپنے گھریلووسماجی پس منظر اور تہذیبی تشخص کو بالائے طاق رکھ کر اس بھیڑ چال میں شامل ہو گئے ہیں جسے تعلیم کے نام پر صرف امتحان میں ٹاپ کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ یہ غرض سراسر ایسی خود غرضی ہے جسے فریق ثانی کے جذبہ و احساس سے کوئی غرض نہیں اور ہر حال میں صرف اپنی خواہش کی تکمیل ہی اس کا ہدف ہوتی ہے۔ تعلیم سے وابستہ اس ناقص رجحان نے کم عمر بچوں سے ان کا بچپن بڑی حد تک چھین لیا ہے اور نوجوان نسل کو ایسی نفسیاتی کجی میں مبتلا کر دیا ہے جو ان کی زندگی کو وسیع پیمانے پر متاثر کر سکتی ہے۔ بچپن اور نوجوانی کے نازک اور حساس دور میں والدین کا یہ جبر اولاد کو تعلیم سے بھی بد دل کر سکتا ہے اور پھر حصول تعلیم کا عمل نہ تو ان کی ذہانت اور لیاقت میں اضافہ کر پاتا ہے اور نہ ہی وہ زندگی کے ان دیگر تقاضوں کی تکمیل بہتر انداز میں کرپاتے ہیں جو ایک کامیاب اور معیاری زندگی کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں۔
امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیابی کی خواہش طالب علم سے زیادہ اس کے سرپرست، والدین یا ان دیگر متعلقین کو ہوتی ہے جو اسے اپنے سماجی وقار اور رتبہ کی ایک علامت بنا لیتے ہیں۔ اگر اولاد ایک طالب علم کے طور پر اپنی تعلیم کے تئیں مخلص اور ایماندار ہو یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ امتحان میں ٹاپ ہی کرے۔ تعلیم کا بنیادی اور اصل مقصد طالب علم کو ذہین اور زمانہ شناس بنانا ہوتا ہے اور اگر امتحان میں ٹاپ نہ کر کے بھی یہ مقاصد پورے ہورہے ہیں تو یقیناً اسے طالب علم کی کامیابی گردانا جائے گا لیکن فی زمانہ کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار فہم و دانش سے زیادہ امتحان کے اس رپورٹ کارڈ پر ہو گیا ہے جو طالب علم کو کلاس اور ادارے میں ممتاز مقام کا حامل قرار دیتا ہو۔ اب تو بیشتر والدین کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ کلاس یا ادارے میں ان کی اولاد کی یہ قد آوری اس کی گھریلواور سماجی زندگی میں اسے بلند قامت بنا بھی سکتی یا نہیں ؟اب سماج میں ایسے والدین کی خاصی تعداد ہوتی جارہی ہے جو امتحان میں اپنی اولاد کی سرخروئی کو اپنی سماجی فضیلت کے طور پر دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ اپنی اولاد کو تعلیم کے نام پر ایسے اضافی جبر میں مبتلا کر دینے والے والدین تعلیمی مراحل کے اس فرق کی بھی پروا نہیں کرتے جو عمر اور انسانی نفسیات کی رو سے یکساں نہیں ہوتے۔
تعلیمی نظام میں در آئے اس رجحان کی زد پر وہ معصوم بچے بھی ہیں جو چھوٹے درجات کے طالب علم ہوتے ہیں لیکن اسی دور سے ہی کلاس یا اسکول میں ٹاپ کرنے کی والدین کی خواہش کا بوجھ بھی اسکول بیگ کے ساتھ ان کے وجود کو گرانبار بنائے رکھتا ہے۔ دسویں، بارہویں تو بہت بعد کے مراحل ہیں اب تو نرسری، کے جی کی سطح پر ہی ان کے امتحانی نتائج کی نمائش کرنا والدین کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ والدین کی یہ خواہش جس مرحلے پر ناکام ہوتی ہے وہ مرحلہ والدین اور اولاد کے باہمی ربط کو پیچیدہ مسائل کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔ یہ مسائل جب شد ت اختیار کرتے ہیں تو سانگلی جیسا حادثہ ہوتا ہے جو مہذب سماج کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
تعلیم کا مقصد صرف امتحان میں امتیازی نمبرات کے حصول تک ہی محدود نہیں ہے۔ تعلیم کا مقصدطالب علم کو ان صفات سے آراستہ کرنا ہے جو عمر اور زندگی کے مختلف مراحل اور مسائل کا سامنا کرنے اور ان کا تصفیہ نتیجہ خیز انداز میں کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھا سکیں۔ والدین اور تعلیمی اداروں کی امتحان مرکوز ذہنیت نے بڑی حد تک اس مقصد کو پس پشت ڈال دیاہے جس کا اثر طلبہ کی شخصیت پر منفی صورتوں میں ہو رہا ہے۔ طلبہ کی شخصیت کو مثبت افکار و افعال کا حامل بنانے کیلئے اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں پہل کرنا والدین اور تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد کی ناگزیر ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو محسوس کرنے اور موثر انداز میں اسے پورا کرنے میں تاخیر نہ صرف تعلیمی نظام کو مخدوش بنائے گی بلکہ اس کی وجہ سے ایسے سماجی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں جن کا ازالہ کرنا بجائے خود ایک مشکل امر بن سکتا ہے۔