ہمارے یہاں مردم شماری کے فارم پر انگوٹھا لگانے کے بجائے اپنا نام لکھنے والوں کوخواندہ تصور کیا جاتا ہے اور انہیں ’ تعلیم یافتہ‘ سمجھا جاتا ہے
EPAPER
Updated: August 06, 2023, 7:12 AM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
ہمارے یہاں مردم شماری کے فارم پر انگوٹھا لگانے کے بجائے اپنا نام لکھنے والوں کوخواندہ تصور کیا جاتا ہے اور انہیں ’ تعلیم یافتہ‘ سمجھا جاتا ہے
خواندگی اور ہمارا تعلیمی نظام :
خواندگی کی تعریف ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں مختلف بیان کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستداں ہمیشہ دعویٰ تو ملک کے ترقی پذیر حتّیٰ کہ ترقی یافتہ ہونے کا کرتے ہیں البتہ خواندگی کے معاملے میں پالیسی وہی اپنائے ہوئے ہیں جو دُنیاکے پسماندہ ممالک میں رائج ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں خواندہ یا پڑھے لکھے فرد کی تعریف یہ ہے کہ وہ کم از کم میٹرک پاس ہو۔ ہمارے ملک میں پڑھا لکھا یا خواندہ اُسے کہا جاتا ہے جس نے مردم شماری کے فارم پر انگوٹھا لگانے کے بجائے اپنا نام لکھا ہو۔ جی ہاں دستخط کے خانے میں کسی نے ٹوٹے پھوٹے خط میں ہی اپنے نام کا پہلا لفظ بھی لکھ دیا تو مردم شماری کرنے والے کارندے اُس کا نام خواندہ یا تعلیم یافتہ افراد کے خانے میں لکھ دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں معلومات کا پھیلاؤ بڑھتا گیا اور خواندگی کی اس ہندوستانی تعریف پر خوب جگ ہنسائی ہوئی تب ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے ایک مزید آسان راستہ تلاش کر لیا اور نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر۲۰۰۹ء میں یہ اعلان کر دیا کہ اسکولوں میں آٹھویں جماعت تک کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔ گویا اُن کا اعلان یہ تھا کہ اب سارا ہندوستان آٹھویں پاس ہے یعنی اب ساری دنیا میں اس ملک کی شرح خواندگی سب سے زیادہ ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ چند برسوں میں حکومت یہ فیصلہ کرے کہ اب ملک بھر میں دسویں تک کوئی امتحان نہیں ہوگا یعنی سارا ہندوستان ایس ایس سی پاس ہو گا یعنی صرف تعلیم یافتہ نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلائے گا۔
ایک عام ہندوستانی کچھ زیادہ ہی تن آسان ثابت ہوا ہے۔ سیاست دانوں کو یقین ہو گیا ہے کہ اُس کی لا علمی بلکہ جہالت کی بناء پر اُسے بے وقوف بھی بنایا جاسکتا ہے۔ اسے نت نئے نعروں سے بہلا یا اور بہکایا بھی جاسکتاہے۔ لہٰذا جہاں آج بھی لاکھوں اسکولیں، ایک اسکول، ایک ٹیچر پر منحصر ہیں، اُن اسکولوں کی بے رنگ وروغن دیواروں پر سیاست داں ’ڈیجیٹل انڈیا‘کا نعرہ لکھ آتے ہیں۔
عوام اور حکومت میں مکالمہ:
عوام : ہم اور ہمارے بچّے بھی تعلیم یافتہ کہلوانا چاہتے ہیں۔
حکومت: ہاں تو آجاؤ، صرف نام لکھا ؤ اسکول میں۔
عوام : مگر امتحان سے ڈر رہتا ہے۔
حکومت: امتحان ہی ہٹا دیتے ہیں، پہلے آٹھویں تک اور بعد میں بس چلا تو دسویں تک بھی۔
عوام : ٹھیک ہے امتحان نہیں ہے البتہ روز روز اسکول میں اپنے بچّوں کو بھیجنا بھی ہمیں پسند نہیں ہے۔
حکومت: کیوں بھیج رہے ہیں، حاضری لازمی ہی نہیں ہے۔
عوام: اگلی کلاس میں داخلہ نہیں دیا جائے گا۔
حکومت: مقدمہ دائر کر دو اسکول کے انتظامیہ پر۔
عوام: کس چیز کا مقدمہ؟
حکومت: یہی کہ ہمارے بچّے اسکول میں بالکل حاضر نہیں تھے، امتحان بھی نہیں دیا البتہ انہیں اگلی کلاس میں داخلہ نہیں دیا جارہا ہے اُس سے گھر کے سارے افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے ہیں لہٰذا اگر ہمارے گھر پر کوئی آفت آتی ہے تو اسکول کا انتظامیہ اس کیلئے ذمہ دار ہے۔
عوام : ٹھیک ہے البتہ اس طرح ہمارے بچّے پاس بھی ہو گئے تو عالمی جاب مارکیٹ میں اُن کی کیا قدر و قیمت ہوگی۔
حکومت: اُس کے لئے ہم کوئی وعدہ نہیں کرتے ہیں، تمہیں، تعلیم یافتہ کا لیبل چاہئے وہ ہمارے دسویں / بارہویں کے سر ٹیفکیٹ سے مل جائے گا... تو اب ہمارے ووٹ پکے ؟
عوام : البتہ آپ کے ان سر ٹیفکیٹ /سند سے ہمارے بچّے زندگی میں کچھ تو بن جانے چاہئیں ؟
حکومت: یہ مت بھولو کہ تم عوام ہو، صرف عوام۔ اپنی اوقات میں رہو۔ کل تم یہ بھی نعرہ لگاؤ گے: ’’مَیں بھی سائنسداں، مَیں بھی ریسرچ اسکالر، مَیں بھی اے پی جے عبدالکلام، مَیں بھی راکیش شرما، مَیں بھی کلپنا چاؤلہ، میں بھی جے آرڈی ٹاٹا، مَیں بھی ہومی بھابھا، مَیں بھی سی وی رمن، مَیں بھی امرت سین۔ ‘‘ یہ اور بات ہے کہ تمہیں خواب دیکھنے پر تو جی ایس ٹی لگا یا نہیں ہے اسلئے تم لوگ تو یہ بھی نعرے لگاؤ گے کہ’’ میں بھی ٹیگور اور میں بھی پریم چند۔ اپنی حیثیت مت بھولو۔ تم صرف عوام ہو....ہمیشہ کی طرح نسیاں کا شکار۔ ‘‘
ایک نعرہ : تعلیم سب کیلئے:
ہر سال شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کیلئے اربوں روپوں کا بجٹ بنایا جاتا ہے۔ ہمارے سرکاری ماہرین تعلیم کو بیرونی ممالک بھی روانہ کیاجاتاہے کہ جاؤ سیر سپاٹا کر آؤ، اگر وقت ملے تو وہاں کے تعلیمی نظام کا مطالعہ بھی کرآؤ۔ ۲۰۰۰ء میں خواندگی کی شرح میں ’حقیقی‘ اضافے کیلئے ایک پالیسی متعارف کی گئی جس کا نام رکھا گیا: سروشکشا ابھیان یعنی سبھوں کیلئے تعلیم کی تحریک۔ ہرشہ و ہرخدمت کیلئے تعلیمی ٹیکس بھی مختص کیا گیا۔ عالمی بینک سے ہر سال کئی بلین ڈالر کا قرضہ لیا جانے لگا۔ اشتہاری ایجنسیوں کو کروڑوں کا ٹھیکہ دیا گیا اور ’پڑھے گا بھارت، بڑھے گا بھارت‘ قسم کے نعرے اسکولی دیواروں پر لکھے گئے مگر یہ ساری پالیسیاں لال فیتہ شاہی کی وجہ سے منترالیہ کی فائلوں میں دھول کھاتی رہیں۔ اعلان تو یہ کیا گیا کہ ہر تین کلو میٹر پر ایک اسکول ہونی چاہیے البتہ جب اسکول قائم کرنے کیلئے کوئی غیر سرکاری تنظیم آگے آتی ہے تو اسے دھمکایا جاتا ہے کہ ۲؍ایکڑ زمین بتاؤ، ۵؍ لاکھ روپے فکس ڈپازٹ بھرو۔ کھیل کا میدان بتاؤ۔ ورنہ تمہاری اسکول کوغیر قانونی قرار دیا جائے گا۔ اُس کا اعلان حکومت کے خرچ پر اخبارات میں شائع کیا جائے گا اور پھر بھی اسکول جاری رہا تواسکول کے انتظامیہ کو جیل کی ہوا کھانی ہوگی۔
اس سال جولائی ۲۰۲۳ء میں یعنی ’سروشکشا ابھیان‘ کے اعلان کی ربع صدی کے بعد بھی کئی’غیر قانونی‘اسکولوں کو بند کیا گیا، یہ سوچے بغیر کہ آخر والدین اِن اسکولوں میں اپنے بچّوں کو داخل کیوں کرتے ہیں ؟ دراصل اعلان تو یہ کیا گیا کہ ہر کلاس میں ۳۰؍ سے زائد طلبہ نہ ہوں البتہ ایک ایک کلاس میں ۷۰؍ تا۱۱۰؍بچّے تک ٹھونسے جانے لگے۔ وہ اسلئے کہ اگر دو تین ڈویژن بنائے گئے تو زائد اساتذہ کا تقرر ضروری ہو جائے گا اور اس کیلئے زائد فنڈ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ہاں کوئی فلاحی تنظیم چاہے تو خود فنڈ جمع کرے اور اِن زائد اساتذہ کی تنخواہ کا انتظام کرے۔ آج کئی شہروں وقصبوں میں کچھ فلاحی تنظیمیں اس کام میں جُٹی ہیں البتہ اپنے محدود وسائل کی بناء پر وہ اُس اُستاد کو جسے سرکاری اسکیل سے ۴۵؍ ہزار روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں، اسے وہ تنظیمیں ۵؍ ہزار ماہانہ دے پاتی ہیں۔ اب بتائیے کہ تعلیم ’سبھوں کیلئے ‘اس مہم میں حکومت واقعی سنجیدہ ہے؟
خواندگی کی شرح سو فیصد ہو سکتی ہے:
آزادی کے ان سے۷۵؍ برسوں میں تمام تر کوششوں کے باوجود اس ملک میں خواندگی یعنی حروف شناسی کی شرح۵۵؍ فیصد تک پہنچی ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ اس سے بھی کم ہے۔ ہمارے خیال میں اس ملک میں صرف ایک ماہ میں خواندگی کی شرح سو فیصد ہو سکتی ہے۔ کیسے؟ اگر سارے بیدار مغز افراد یہ تحریک چلائیں اور الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالیں کہ الیکشن میں ووٹنگ مشین ( یا پر چے ) پر امیدوار کے نام کے سامنے انتخابی نشان نہیں رہے گا بلکہ امیدواروں کے پورے نام وپتے چھپیں گے یعنی ووٹ صرف وہی دے پائے گا جس کو تمام امید واروں کے نام وپتے پڑھنے آتے ہوں۔ بس پھر دیکھ لیجئے کیا ہوتا ہے۔ فوراً سارے سیاستداں اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں نہ صرف خواندگی مہم چھیڑیں گے، اسکولیں کھولیں کے بلکہ تعلیم بالغان کے بھی کئی مراکز فوراً قائم کردیں گے۔ ان اسکولوں پر سیاستداں اپنے ایم پی/ ایم ایل اے فنڈ کو لُٹادیں گے۔ ان اسکولوں کے قیام کیلئے کئی ایکڑ زمینیں الاٹ کردیں گے۔ کچھ تو اپنے گھروں کو اسکولوں میں تبدیل کر دیں گے۔ دن رات ایک کردیں گے سارے ملک کو خواندہ بنانے کیلئے اور نعرہ لگاتے پھریں گے ’’آئیے پڑھنا لکھنا سیکھیں ‘‘۔ ’’الیکشن کی نشانی : جمہوریت کا کلنک‘‘ وغیرہ۔ ووٹ اِن سیاستدانوں کی آکسیجن ہے، آب حیات ہے۔ جب تک تعلیمی نظام اور خواندگی کو ووٹ سے نہیں جوڑا جاتا، یہاں خواندگی صرف حروف شناسی تک ہی محدودر ہے گی۔
خواندگی، علم، تعلیم اور تعلیم کے پھیلاؤ کے ضمن میں اس ملک میں حکومتیں اکثر سردمہری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اگر عوام بیدار، فعال، ذمہ دار اور متحرک ہو جائیں تو منظر نامہ تبدیل بھی ہو سکتا ہے اور یقیناً ہوسکتا ہے۔