اس زبان کی حقیقی ترقی تب تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اسے زندگی کا جزو نہ بنایا جائے اور اس پرسنجیدگی سے عمل نہ کیا جائے۔
EPAPER
Updated: November 09, 2025, 11:51 AM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اس زبان کی حقیقی ترقی تب تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اسے زندگی کا جزو نہ بنایا جائے اور اس پرسنجیدگی سے عمل نہ کیا جائے۔
اردو کے ممتاز شاعر علامہ اقبال کے یوم ولادت ۹؍ نومبر کو عالمی یوم اردو کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اردو شعر و ادب کے حوالے سے علامہ اقبال کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں بر صغیر کی حدود سے باہر کے ملکوں میں بھی خاصی مقبولیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال کی یہ مقبولیت معاشرے کے کسی ایک طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ اب سوشل میڈیا کی سہولت نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ نیم پختہ(ناقص) شعری ذوق اور خود ساختہ پختہ ایمان کے حامل افراد بحر سے خارج اور سطحی مفہوم والے اشعار اس ممتاز شاعر سے منسوب کر کے ان کی تشہیر کو اردو کی بڑی خدمت سمجھتے ہیں۔ اقبال نے اپنے افکار کی شعری تجسیم میں اردو زبان کے جن مخصوص الفاظ کو تاریخی و تہذیبی معنویت کا موثر وسیلہ بنایا تھا، یہ نام نہاد خدام اردو انہی لفظیات کا سہارا لے کر اپنے غیر منطقی موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ اردو کے ان خادموں کے علاوہ اس زبان کی خدمت کرنے والوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو یوم اردو یازبان و ادب سے مخصوص دیگر ایام میں اردو دوستی اور اس زبان کی بہتری کیلئے اپنی فکر مندی کا اظہارزور و شور سے کرتے ہیں۔ عالمی یوم اردو کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقاریب میں بھی یہ محبان اردو ایسا مثالی رویہ روا رکھتے ہیں جس کا زبان کی حقیقی صورتحال سے برائے نام تعلق ہوتا ہے۔
اردوکے درخشاں مستقبل کی پیش گوئی کرنے والے مفکر نما محبان اردواس زبان کی موجودہ صورتحال سے وابستہ ان حقائق (مسائل) کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے ہندوستانی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل اردو کا دائرہ سمٹتا جا رہا ہے۔ جو زبان محبت و امن کا استعارہ ہو، جس نے انقلاب و احتجاج کو قوت و توانائی عطا کی ہو اسے نظر انداز کرنے اور اس کی ترقی کی راہ کو سیاست و مذہب کے رخنوں سے مسدود کرنے کی کوشش سے صرف زبان کا ہی خسارہ نہیں ہوگا بلکہ یہ صورتحال اس ملک کے تہذیبی اور ثقافتی اختصاص اور لسانی ثروت مندی کو بھی نقصان پہنچائے گی۔
آزادی کے بعد اس ملک کی لسانی سیاست نے خصوصی طور پر اردو کو ہدف بنایا اورکبھی اس پر غیر ملکی زبان کا لیبل چسپاں کر کے اور کبھی رسم الخط کی بنا پر اسے ایک مخصوص طبقہ سے منسوب کر کے اس کی مقبولیت و علمی و ادبی حیثیت کو کم تر ثابت کرنے کی سازشیں بارہا کی گئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سازشوں میں نادانستہ طور پر اور کبھی مصلحتاً اس طبقے کے افراد بھی شامل رہے جس طبقے سے اس زبان کو تعصب زدہ اذہان نے وابستہ کردیا ہے۔ اس لسانی بغض کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کی لسانی و ادبی تاریخ میں امتیازی حیثیت کے حامل علاقوں سے اردو ناپید ہوتی جارہی ہے۔
اردو زبان سے اس لاتعلقی کے سبب ان علاقوں سے وہ تہذیب بھی منہا ہوتی جارہی ہے جس کی تشکیل میں شائستگی، انکساری اور حفظ مراتب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اس تہذیب سے نابلد نسل نہ تو اردو زبان کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتی ہے اور نہ ہی ان انسانی صفات و اقدار سے آشنا ہو سکتی ہے جسے پروان چڑھانے میں اردو شعر وادب کا نمایاں رول رہا ہے۔
ماضی میں اردو کے اہم مراکز رہے علاقوں میں اس زبان کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ انسانی روابط اور رویے سے وابستہ امور اور سماجی و تہذیبی معاملات و مسائل کی ترجمانی میں اس زبان کے استعمال کو سماجی پسماندگی تصور کیا جانے لگا ہے۔ اس احساس کمتری کی انتہا یہ ہے کہ اردو کی تعلیمی سرگرمیوں اور ادبی تقاریب سے متعلق معلومات کی تشہیر و ترسیل میں بھی انگریزی اور ہندی زبان کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ شمالی ہندوستان میں اردو کا مرکز رہے بیشتر شہروں میں اردو کے شیدائیوں کی ایسی نسل بھی نمو پا چکی ہے جو تعلیمی، ادبی اور مذہبی امور میں اس زبان کا استعمال تو کرتی ہے لیکن ان شیدائیوں کی اس محبت میں تلفظ اور املا کی ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں جنھیں سن اور پڑھ کر ایسی عاقبت نا اندیش محبت پر فاتحہ پڑھنے کا جی کرتا ہے۔
اردو کی حقیقی ترقی تب تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس زبان کو زندگی کا جزو نہ بنایا جائے۔ کسی بھی زبان کی ترقی کا دار و مدار گھریلو اور سماجی سطح پر اس کے طرز استعمال پر ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد لسانی تعصب نے اردو کو جس قوم سے منسوب کر دیا ہے اس قوم کا حال یہ ہے کہ والدین بچوں کی پرورش اور تربیت میں اردو کے بجائے انگریزی اور ہندی کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ ابتدائے عمر ہی سے ان زبانوں کے الفاظ سننے والی نسل نہ تو اردو کے لسانی امتیاز سے آشنا ہو سکتی ہے اور نہ ہی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے وابستہ امور کی تکمیل میں اس زبان کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ انگریزی کی دلدادہ اس نسل میں ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو ہاؤ (How)اور ہو (Who) کے فرق اور موزوں استعمال سے بھی ناواقف ہیں۔ یہ اردو کی بدبختی ہی ہے کہ اس زبان کو جس قوم سے مخصوص کر دیا گیا وہی اس کے تحفظ اور ترقی کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔ اس زبان کو اس بحران سے نکالنے کیلئے ایسی منظم حکمت عملی درکار ہے جو اردو کی حقیقی ترقی کی ضمانت دے۔