جب دل کی دنیا بدلتی ہے اور فکر میں انقلاب آتا ہے، تو کردار کی بلندی کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ جو آخرت پر یقین نہ رکھتا ہو اور خدا کے خوف سے خالی ہو، وہ کردار کی پستی کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتا۔
خدا ترسی اور آخرت کی جوابدہی کے احساس سے جس کو حصہ مل جاتا ہے وہ اپنی بادشاہی کو بھی فقر و درویش کے تاج سے آراستہ رکھتا ہے۔ تصویر: آئی این این
’’حمص ‘‘ شام (سیریا) کا ایک شہر ہے۔ ایک زمانہ میں یہی شام کا پایہ ٔ تخت تھا، عہد فاروقیؓ میں شام کے گورنر یہیں قیام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حمص سے ایک وفد خدمت ِفاروقی ؓ میں حاضر ہوا۔ حضرت عمرؓ کو اپنی مملکت کے غرباء اور حاجت مندوں کا بڑا پاس تھا۔ آپ ؓ نے واردین سے فرمایا کہ وہاں کے زیادہ محتاج اور ضرورت مند لوگوں کی ایک فہرست بنائیں کہ میں ان کی کچھ مدد کر سکوں۔ فہرست بنی اور حضرت عمرؓ نے ایک نگاہ ڈالی تو دیکھا اس میں ایک نام ’’سعید بن عامر‘‘ بھی ہے۔ حضرت سعید بن عامرؓ ، صحابی ٔرسولؐ، جن کو حضرت عمرؓ نے شام کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ حضرت عمرؓ جب اس نام پر پہنچے تو اچنبھا ہوا ، خیال ہوا کہ شاید کوئی اور سعید ہوں۔ دریافت فرمایا :یہ سعید بن عامرکون ہیں؟ عرض کیا گیا: ہمارے امیر و گورنر!؟ حضرت عمرؓ نے پوچھا: تو تمہارے گورنر فقیر و محتاج ہیں؟ کہا گیا: بیشک، ایسے محتاج کہ مدتوں گھر میں چولہا سلگنے کی نوبت نہیں آتی ۔ حضرت عمرؓ پر سلطانی میں اس درویشی کو دیکھ کر گر یہ طاری ہو گیا ، آنسوؤں نے آنکھوں ہی کو نہیں، داڑھی کو بھی تر کر دیا۔
پھر آپؓ نے تھیلی میں ایک ہزار دینار رکھے ( جو ایک بہت بڑی رقم تھی )، اس تھیلی کو وفد کے حوالہ کیا اور فرمایا کہ حضرت سعیدؓ کو میرا اسلام کہنا اور یہ تھیلی دے دینا اور بتا دینا کہ عمر نے یہ آپ کی ضرورت کے لئے بھیجے ہیں۔
تھیلی جب حضرت سعیدؓ کے پاس پہنچی تو آپ اسے قریب سے ہٹانے لگے اور بے ساختہ زبان سے نکلا : انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گویا کوئی مصیبت آپڑی ہو یا کوئی تکلیف دہ خبر آئی ہو ۔ اہلیہ گھبرائی ہوئی آئیں: ’’کیا امیر المومنین کا انتقال ہو گیا؟‘‘ فرمایا: ’’اس سے بھی بڑھ کر۔‘‘ کہنے لگیں: ’’کیا مسلمان کسی آفت اور ابتلاء میں پڑ گئے ہیں؟ ‘‘ارشاد ہوا : ’’اس سے بھی بڑی بات پیش آئی ہے۔‘‘ اہلیہ نے بے قراری سے پوچھا : ’’آخر کیا واقعہ پیش آیا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’میرے پاس دنیا آ پہنچی ہے کہ میری آخرت کو خراب کر دے اور فتنہ نے میرے گھر میں قدم رکھ دیا ہے۔‘‘
اہلیہ اب تک صحیح صورتحال سے واقف نہیں تھیں ، کہنے لگیں:’’ پھر تو اس سے نجات پانے کی کوشش کریں۔‘‘ حضرت سعیدؓنے گفتگو کے اس مرحلہ کو غنیمت جانا اور دریافت فرمایا کہ ’’کیا تم اس میں میرا تعاون کروگی ؟‘‘ بیوی نے تعاون کا یقین دلایا۔ حضرت سعیدؓنے اسی وقت سارے کے سارے دینار مختلف تھیلیوں میں رکھے اور ضرورتمندوں کیلئے انہیں روانہ کردیا ۔
اس واقعہ کوبہت عرصہ نہ گزرا تھا کہ خود حضرت عمرؓ، شام تشریف لائے۔ دار الخلافہ حمص کے لوگ کسی قدر گلہ شکوہ کے عادی تھے، اس لئے لوگ اس کو چھوٹا کوفہ کہا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ ، جب حمص میں فروکش ہوئے تو لوگوں سے حضرت سعیدؓ کے بارے میں بھی استفسار فرمایا ۔ اہل شہر حسب عادت شکایت سے باز نہ رہے اور چار باتوں کی شکایت کی۔ صبح میں حضرت عمرؓ نے اجلاس منعقد کیا۔ پہلے لوگوں سے شکایات دریافت کیں۔ لوگوں نے کہا کہ ’’سویرے گھر سے نہیں نکلتے، سورج چڑھے نکلتے ہیں ۔‘‘ آپؓ نے حضرت سعیدؓ سے جواب طلب کیا۔ انہوں نے فرمایا : ’’میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا، در حقیقت میرے یہاں کوئی خادم نہیں ہے، صبح میں گھر کے کام کاج خود ہی کرتا ہوں، اس لئے آنے میں تاخیر ہوتی ہے۔‘‘
لوگوں نے عرض کیا کہ ’’گورنر صاحب رات کو کسی سے ملاقات کے روادار نہیں ہوتے۔‘‘ حضرت سعید ؓنے کسی قدر تامل سے جواب دیا: ’’افسوس کہ میں جس بات کے اظہار سے بچنا چاہتا تھا، اس کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے، دراصل میں نے دن رات کی تقسیم کر رکھی ہے، دن لوگوں کی ضروریات کیلئے اور رات اللہ کی عبادت کے لئے، اس لئے رات میں غیرضروری طور پر کسی سے نہیں ملتا۔‘‘
کہا گیا کہ ’’مہینہ میں ایک دن تو ایسا گزرتا ہے کہ گھر سے باہر ہی تشریف نہیں لاتے۔‘‘ حضرت سعید ؓ عرض گزار ہوئے: ’’امیرالمومنینؓ میرے پاس کپڑا صرف یہی ایک ہے جو جسم پر ہے، اس لئے ماہ میں ایک دن اس کو دھوتا ہوں، کپڑے خشک ہونے تک انتظار کرتا ہوں، یہاں تک کہ دن کے آخری حصہ میں باہر آتا ہوں۔‘‘
ایک شکایت یہ بھی کی گئی کہ بعض اوقات درمیان مجلس بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور آپ حاضرین سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ حضرت سعیدؓ نے وضاحت فرمائی کہ’’ ایک لرزہ خیر منظر میری آنکھوں میں پھر نے لگتا ہے: میں اس وقت ایمان سے محروم تھا اور مکہ میں اس غول میں شامل تھا جس میں شامل لوگ حضرت خبیبؓکی مظلومانہ شہادت کا گویا ’’تماشہ‘‘ دیکھ رہے تھے، دشمن ان کے جسم کا ایک ایک عضو کاٹتے جاتے اور پوچھتے جاتے کہ کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ تمہاری جگہ محمد (ﷺ) ہوتے؟ حضرت خبیبؓ، اس کرب و تکلیف کی حالت میں بھی کہتے جاتے کہ مجھے اتنا بھی گوارا نہیں کہ میں اس سے بچ جاؤں اور اس کے بدلہ سرکار مدنی ؐ کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے، جب بھی میری آنکھوں میں یہ منظر آتا ہے، میں بے قرار ہو جاتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ میں نے جو اس دن اس جاں نثارِ رسول ﷺ کی مدد نہیں کی، شاید اس کی وجہ سے اللہ مجھے معاف نہ کرے اور یہی احساس مجھے ہوش و حواس سے محروم کر دیتا ہے !!‘‘
امیر المومنین حضرت عمرؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کا گمان اور انتخاب غلط ثابت نہ ہوا۔ واپس جا کر پھر حضرت سعیدؓکے لئے ایک ہزار دینار بھیجے۔ بیوی نے کہا: ’’اللہ کا شکر ہے کہ اب آپ کو کوئی پریشانی نہ رہی، اس سے کوئی خادم خرید کر دیں۔‘‘ حضرت سعید ؓنے استفسار فرمایا: ’’اس سے بہتر بات نہ بتاؤں ؟‘‘ بیوی نے وضاحت چاہی۔ فرمایا: ’’کسی ایسے شخص کے حوالہ کر دیں جو انتہائی ضرورت کے وقت ہمیں واپس کرے۔‘‘
اہلیہ نے پوچھا :’’اس کی کیا صورت ہوگی؟‘‘ فرمایا: ’’ہم اللہ کو قرض حسنہ دےدیں!‘‘ بیوی بھی آخر حضرت سعیدؓ ہی کی تھیں، شوہر کی تجویز کو بہ خوشی قبول کرلیا۔ مجلس ختم بھی نہ ہوئی کہ جلدی جلدی حضرت سعیدؓ نے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں دینار بھرے، یہ فلاں بیوہ خاتون کیلئے، یہ فلاں مرحوم کے یتیم بچوں کیلئے اور وہ فلاں فلاں غرباء کے لئے۔ چند لمحوں میں وہ تھیلی بھی خالی ہو گئی اور حضرت سعیدؓ کے قناعت پسند دل کو قرار آ گیا۔
اور نگ زیب عالمگیر ہندوستان کا ایک بدقسمت محسن ہے۔ محسن اس لئے کہ اس نےمتحدہ ہندوستان کا تصور دیا اور ہندوستان کو ایسی وسعت عطا کی جو نہ اس سے پہلے اسے حاصل تھی اور نہ اس کے بعد پھر حاصل ہو سکی اور بد قسمت اس لئے کہ چند منصف مزاج مؤرخین کو چھوڑ کر تاریخ نے اس کے ساتھ نا انصافی اور احسان ناشناسی ہی کو روا رکھا۔ اس محب وطن درویش صفت بادشاہ کا حال یہ تھا کہ اس نے اپنی آخری وصیت میں ہدایت کی تھی کہ اس کی سلی ہوئی ٹوپیوں کی قیمت میں سے چار روپے دو آنے لے لئے جائیں اور اس کے کفن پر خرچ کئے جائیں اور کتابت ِ قرآن میں اس نے جو اُجرت حاصل کی تھی، اس میں تین سو پانچ روپے بچ رہے ہیں، جو اس کے ذاتی اخراجات کے بٹوے میں ہیں، اسے اس کی موت کے دن فقراء میں تقسیم کر دیا جائے ۔
یہ واقعات نہ فرشتوں کی دنیا کے ہیں، نہ عالم بالا کی کسی مخلوق کے، یہ اسی دنیا کے واقعات ہیں اور اسی زمین پر پیش آئے ہیں۔ جب دل کی دنیا بدلتی ہے اور فکر میں انقلاب آتا ہے، تو کردار کی بلندی کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ جو آخرت پر یقین نہ رکھتا ہو اور خدا کے خوف سے خالی ہو ، وہ کردار کی پستی کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتا، اس کاج میں جو شخص جس قدر اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوگا ، اس قدر خیانت، خود غرض اور اپنے تئیں کو تاہی میں بھی وہ ممتاز ہوگا، اور خدا ترسی اور آخرت کی جوابدہی کے احساس سے جس کو حصہ ملا ہوگا، وہ یقیناً اپنی بادشاہی کو بھی فقر و درویش کے تاج سے آراستہ رکھے گا اور اس اختیاری فقیری کی لذت و حلاوت پر متاعِ دنیا کی ساری لذتوں کو قربان کرنا اس کے لئے آسان ہو گا !!