Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو: شکوہ کریں تو کس سے، شکایت کریں توکیا کریں ؟

Updated: June 29, 2025, 2:01 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کی ریاست کے منتری جی کے جنم دیوس کے موقع پر آپ ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد کرنے جارہے ہیں۔ بے شک یہ اُردو زبان مشاعروں ہی سے زندہ رہے گی اور اب جبکہ آپ نے ہمیں یاد فرمایا ہے تو سمجھ لیجئے وہ مشاعرہ یادگار ہو ہی جائے گا۔

Mushairas are still very popular today. Photo: INN.
مشاعرے آج بھی کافی پسند کئے جاتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

شاعر بنام مشاعرہ آرگنائزر 
یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کی ریاست کے منتری جی کے جنم دیوس کے موقع پر آپ ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد کرنے جارہے ہیں۔ بے شک یہ اُردو زبان مشاعروں ہی سے زندہ رہے گی اور اب جبکہ آپ نے ہمیں یاد فرمایا ہے تو سمجھ لیجئے وہ مشاعرہ یادگار ہو ہی جائے گا۔ جناب اب تک درجن بھر مشاعرے تو ہم لُوٹ چکے ہیں۔ آپ کو دو سال قبل کا مشاعرہ تو یاد ہو گا ہی جب صبح تک لوگ میرے کلام پر’ مکرّر مکرّر‘ کی آواز میں لگا رہے تھے۔ بس ایسا ہی کلام مَیں اس بار بھی پیش کرنے والا ہوں مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ نہیں لکھا کہ’ لفافہ‘ کتنے کا ہو گا ؟ بھئی ہماری تو شرط واضح ہے کہ نذرانہ اسٹیج پر چڑھنے سے قبل ہی پیش کیا جائے، بعد میں حجّت و تکرار کر کے کیا فائدہ۔ 
ایک اور مشورہ ہے، چند روز قبل پڑوسی ملک سے ہمارے ایک دُور کے رشتہ دار انڈیا گھومنے آئے ہیں۔ کہتے ہیں وہ بھی تھوڑی بہت شاعری کر ہی لیتے ہیں۔ آپ کہہ دیں تو اُن کو بھی ساتھ لے آؤں، اُس سے ہو گا یہ کہ آپ آل انڈیا مشاعرہ کے بجائے اسے عالمی مشاعرہ کا نام دے سکیں گے ( یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اُن کا ’نذرانہ‘ علاحدہ رہے گا)۔ آپ کے فوری جواب کا انتظار رہے گا۔ 
شاعر بنام پبلشر
میرے تازہ کلام کے مجموعے کا مسودہ آپ کی خدمت میں بھیج چکا ہوں۔ مَیں نے آپ سے کہا تھا کہ۳۰۰؍ کی تعداد میں شائع کرنا ہے۔ اب اس میں تھوڑی تبدیلی یہ ہے کہ آپ۲۰۰؍ کی تعداد میں شائع کیجئے۔ ۲۰۰؍ جلدیں شائع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان میں سے ۵۰؍ کا پیاں مختلف اخبارات ورسائل میں تبصرے کیلئے بھیج دوں گا۔ گڈ لک بیئر بار کے مالک جو ہمارے علاقے کے کارپوریٹربھی ہیں، انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر میں اُن کے ہاتھوں سے اس کا اجراء کراتا ہوں تو وہ ۵۰؍ کا پیاں خرید لیں گے۔ ۵۰؍کاپیاں دوستوں میں بانٹوں گا۔ ذرا اُنہیں بھی معلوم پڑے کہ کس پائے کا کلام میں نے کہا ہے۔ سب کے منہ بند کرنے ہیں۔ رسمِ اجراء کے وقت ۱۰؍ کا پیاں تو فروخت ہو ہی جائیں گی۔ ابھی اُردووالوں کی محبت باقی ہے۔ اب بھی اُردو زبان سے اُن کا لگاؤ، اُردو کیلئے ان کی چاہت بلکہ دیوانگی زندہ ہے۔ بس آپ جلد ہی یہ کتاب شائع کر کے بھیج دیجئے کیونکہ یہ کتاب آتے ہی صرف اُردو ادب میں نہیں بلکہ پورے ہندوستانی ادب میں ایک تہلکہ مچ جائے گا۔ اس کی تعداد اِشاعت پر آپ فکر نہ کریں۔ لوگ دیکھیں گے کہ اس کے ذریعے میں برِّ صغیر کے اُردو عوام میں رہتی دنیا تک زندہ ر ہوں گا۔ 
مُدیر بنام شاعر 
آپ کا کلام مِلا۔ نصف درجن غزلیں آپ نے بھیجی ہیں۔ غالباً آپ ہمارا ارسالہ بغور نہیں پڑھتے۔ ہم اپنے رسالے کے ہر دوسرے صفحے پر ایک چوکھٹا لگاتے ہیں جس میں شاعروں کو تنبیہ کرتے رہتے ہیں : ’’براہ کرم کوئی بھی شاعر اپنا کوئی کلام نہ بھیجے ابھی دفتر میں اِتنی شعری تخلیقات دستیاب ہوئی ہیں کہ آئندہ دس برسوں تک کسی نئے کلام کو جگہ نہیں دی جاسکے گی۔ ‘‘ اس واضح ہدایت کے باوجود آپ ہر ماہ در جن بھر غزلیں بھیج رہے ہیں۔ 
قاری بنام مُدیر 
گزشتہ سال آپ سے درخواست کر چکا ہوں کہ آپ اپنا پرچہ مجھے بھیجنا بند کر دیجئے۔ اب ہمارے گھر میں اُردو پڑھنے والا کوئی بچا نہیں۔ بیٹے بیٹیاں، پوتے نو اسے سب انگریزی میڈیم اسکولوں میں جاتے ہیں۔ میں ایک اُردو پڑھتا تھا لیکن اب میری آنکھوں کی بینائی کمزور ہو چکی ہے۔ اب میں نہیں پڑھ سکتا۔ اسلئے آپ اپنا پرچہ بھیجنا بند کر دیجئے۔ 
اُستاد بنام اُستاد
تم نے فون پر بتایا کہ گزشتہ ہفتے اُردو اخبار میں ’ ضرورت اساتذہ‘ کا اشتہار چھپا تھا۔ وہ کون سی تاریخ کو چھپا تھا؟ مَیں آج عوامی لائبریری گیا تھا، وہاں سارے اخبارات کھنگال ڈالے لیکن مجھے تو وہ اشتہار کہیں نظر نہیں آیا: دراصل میں صرف مئی مہینے میں اُردو اخبار اپنے گھر پر جاری کرتا ہوں کیونکہ اس مہینے میں ’ضرورت اساتذہ‘ کے کافی اشتہارات اُردو اخبار میں شائع ہوتے ہیں۔ 
ویسے عوامی لائبریری جانے کا ایک فائدہ ہوا کہ اخبار سے یہ خوش خبری ملی کہ اُردو کے اساتذہ کو بھی آٹھواں پے کمیشن لاگو ہوگا۔ اس طرح سے ہماری ماہانہ تنخواہ اب ایک لاکھ ۷۰؍ ہزار روپے ہوجائے گی۔ بہرحال میں اپنے گھر پر اُردو اخبار صرف مئی مہینے ہی میں جاری کروں گا، اس دوران اگر کسی اخبار میں کوئی اہم اشتہار نظر آ جائے تو تم مجھے اس کی اطلاع ضرور دینا۔ 
سوشل ورکربنام پریس ایجنسی 
عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے۔ آپ اپنی نیوز ایجنسی کے ذریعے اس خبر کو نمایاں طور پر پیش کریں گے ہی ! البتہ اتنی ہی ایک زبردست خبر بھی سُن لیجئے۔ ہمارے منتری جی اُردو کی بقا وترقی کیلئے ایک آل انڈیا سیمینار کا انعقاد ہمارے شہر میں کرنے جا رہے ہیں۔ آپ کو یاد دلادیں کہ پانچ سال قبل بھی اُنہوں نے ایک اُردو کا نفرنس کا انعقاد بڑے پیمانے پر کیا تھا۔ اس بار تو اس سیمینار میں مرکزی حکومت کے دو بارُ سوخ وزیر بھی تشریف لا رہے ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ اس کا افتتاح کریں گے۔ اُردو کو اس کا جائز مقام دلانے کیلئے اس سیمینار میں ایک تجویز بھی پاس کرنے والے ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعد سے اُردو کے ساتھ جتنی بھی ناانصافیاں ہوتی آئی ہیں، بس یوں سمجھئے اُن سب کا ازالہ اس سیمینار سے ہوگا۔ ملک گیر شہرت یافتہ اُردو کے اسکالر، شعراء اور ادباء اپنے گراں قدر مقالے پیش کریں گے۔ سیمینار کے بعد عشائیہ کا اہتمام ہے اور اُس کے بعد ایک آل انڈیا مشاعرہ بھی ہوگا۔ براہِ کرم اس خبر کو نمایاں طور پر تمام اخبارات تک پہنچادیں۔ 
محلّہ بنام ضلع پریشد 
ہم آپ کو یہ اطلاع دینا چاہیں گے کہ ہمارے گاؤں میں ۱۹۲۰ء میں قائم کردہ اُردو کا پرائمری اسکول دو سال قبل بند ہو چکا ہے۔ آپ کے محکمہ کے ہی ایک افسر نے دو سال قبل آکر اُسے تالا لگا دیا تھا۔ اب ہمارے گاؤں کے تمام بچّے انگریزی اسکول میں جاتے ہیں۔ ہم بے حد خوش ہیں کہ ہمارے بچّے اب’لب پہ آتی ہے دُعا‘ کے بجائے ’جیک اینڈ جِل‘ گاتے گاتے گھر میں داخل ہوتے ہیں لہٰذا بند ہوئی اسکول کی عمارت کے پاس انگریزی میڈیم کی شاندار عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ اُس انگلش اسکول میں پڑھنے والے بچّے، سامنے بند پڑی اُردو اسکول کے کمروں میں جاکر تاش کھیلتے ہیں اور سگریٹ پھونکتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ کھڑکیوں کے کواڑ گاؤں والے تو ڑتوڑ کر اپنے گھر اٹھا لے گئے ہیں۔ پوری عمارت میں کبوتروں نے بسیرا کر لیا ہے۔ ایک دو کلاس روم میں تو صرف کتوں نے ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ جلدازجلد اپنا عملہ بھیج کر اس عمارت کو تو ڑ دیجئے۔ اب جبکہ پورے گاؤں میں کوئی بچّہ اردو اسکول میں جاتا ہی نہیں، اُردو کا کوئی نام لیواہی نہیں بچا تو پھر اردو کی آخری نشانی بھی کیوں رکھے ہوئے ہیں ؟ 
اولاد بنام کباڑی والا
ابّو کی طبیعت بہت ناساز چل رہی ہے، ہمیں بڑا مسئلہ اُن کی اُردو کی سیکڑوں کتابوں کا ہے۔ اُن کی موجودگی میں ہم اُن کتابوں کا کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ اُنھیں اُن سے بڑا لگائو ہے۔ ہم نے چند لائبریریوں سے بات کی، وہ بھی اُن کتابوں کو قبول کرنے تیار نہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ سارے انگلش میڈیم کے بچّے اپنے گھر کی اُردو کتابیں نکال کر لائبریری کا رُخ کر رہے ہیں، اب اُن کے یہاں بھی جگہ نہیں ہے۔ اسلئے ابّو کے بعد ہمیں وہ کتابیں ردّی میں بیچنی ہیں۔ تیسرے ہی دن وہ کتابیں لینے تم گھر پر آجانا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر ہمیں ڈانٹ رہے تھے کہ ابّو کی ساری زمین جائیداد میں حصّہ چاہئے لیکن اُن کی کتابوں اور علمی ورثے میں نہیں۔ لیکن اب ان کو کیا بتائیں کہ ہم چاروں بھائی بہن انگلش میڈیم سے پڑھے ہیں اور ہم میں سے کسی کو بھی اُردوپڑھنے نہیں آتی ! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK