سپر پاورنے ’وشوگرو‘کوباقاعدہ پابند کرنے کی کوشش کی ہےکہ وہ یہ کرےاور یہ نہ کرے، جب صورتحال اس طرح یکطرفہ ہوجائے تو خاموش رہنے میں بھلائی نہیں۔
EPAPER
Updated: August 31, 2025, 3:58 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
سپر پاورنے ’وشوگرو‘کوباقاعدہ پابند کرنے کی کوشش کی ہےکہ وہ یہ کرےاور یہ نہ کرے، جب صورتحال اس طرح یکطرفہ ہوجائے تو خاموش رہنے میں بھلائی نہیں۔
حکومت کے دعوے کے مطابق ہندوستان ۳؍ٹریلین ڈالر کی معیشت تک پہنچ چکا ہےاوراب اس کا ہدف ۵؍ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کا ہے۔ مجموعی گھریلو پیداوارکی شرح(جی ڈی پی ) کے لحاظ سے بھی جو کورونا کے دور میں ۳ء۱؍ فیصدتک گر گئی تھی، ملک کی معیشت اب کافی بہتر ہوچکی ہےاور مالی سال۲۶-۲۰۲۵ء میں یہ شرح ۷ء۸؍ فیصد تک پہنچ گئی۔ ملک کی موجودہ معیشت ۴۷؍ لاکھ کروڑ روپے(کم وبیش ۳ء۲۰؍ لاکھ کروڑڈالر)تک بتائی جاتی ہے۔ حقیقی صورتحال اور مسائل سے قطع نظر اعدادوشمار کی حد تک تو ملک معاشی ترقی کی راہ پرگامزن نظر آتا ہے، ہندوستان کے وشوگرو ہونے کے مودی حکومت کے دعوےسے بھی یہی محسوس ہوتا ہےکہ مودی حکومت اپنے دور میں ملک کو اقتصادی لحاظ سے اتنا مضبوط سمجھتی ہےکہ وہ عالمی تجارت کا قائد ہے اور یہ بھی کہ اس کے مشورے کے بغیر عالمی تجارتی معاہدے شاید ممکن نہیں ہیں۔
بہر حال حقیقی صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ ’وشوگرو‘ سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پرایک’ سپر پاور‘ کی جانب سے ۵۰؍ فیصد ٹیرف عائد کردیاگیا ہے اور یہ کوئی خالص تجارتی نوعیت کا اقدام نہیں ہےبلکہ اس سپرپاور کی جانب سے تادیبی کارروائی ہےجو وشوگرو کے روس سے تیل خریدنے کی پاداش میں کی گئی ہے۔ یعنی وہ سپر پاوروشوگروکو یہ بتا رہا ہےکہ اسے کن ممالک کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے ہیں، کاروباراورسرمایہ کاری بڑھانی ہےاور کن ممالک کے ساتھ محدود کرنا ہے یا ختم کرنا ہے۔ یہ الگ بات ہےکہ اسی سپرپاور کے سربراہ نے گزشتہ دنوں اس ملک کے سربراہ سےملاقات کی تھی (الاسکا میں ٹرمپ اور پوتن کی ملاقات) جس سے وشوگروتیل خریدرہا ہےاوراس ملاقات کو مثبت نتائج کی حامل قراردیا تھا۔ نہ تو اس ملاقات پر وشو گرو کی حکمراں جماعت کے سربراہ اوروزیر اعظم مودی اوران کی حکومت کے کسی نمائندے نےکوئی سوال اٹھایا اورنہ اس سے قبل سپر پاورکی جانب سے عائد کردہ ۵۰؍فیصدٹیرف پر کوئی رد عمل دیاگیا۔
وزیر اعظم مودی نے ۱۵؍ اگست کے اپنے خطاب میں کچھ معاشی اصلاحات کا اعلان کیا تھا اورخود کفیل ہونے کی ــضرورت پر زوردیا تھا۔ انہوں نے خود انحصاری اور ٹیکنالوجی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئےکہا تھا کہ پہلی ’’میڈ ان انڈیا‘‘ سیمی کنڈکٹر چپ اس سال کے آخر تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔ ٹرمپ یا امریکہ کا نام لئے بغیر انہوں نےملک کی طاقت، عزت نفس اور خودداری کا حوالہ دیتے ہوئےکہا تھاکہ جن ممالک نے ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی ہے وہ نئی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں سیمی کنڈکٹر بنانے کے تصور کے تعلق سے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ۵۰-۶۰؍ سال پرانا ہے لیکن فائلیں سابقہ حکومتوں میں دھول کھاتی رہیں اور یہ پروجیکٹ ادھورا رہ گیا۔ موجودہ حکومت نے ان منصوبوں کو گرین سگنل دے دیا ہے۔ ‘‘
یہ ملک کے معاشی منصوبوں کا بیان تھا، ٹرمپ کے ٹیرف کا کوئی براہ راست جواب نہیں تھا۔ ٹیرف کے ہندوستان پر کیا اثرات ہوں گے، اس بارے میں وزیر اعظم مودی خاموش ہیں۔ انہوں نے دیوالی کے موقع پر جی ایس ٹی اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے چیزیں سستی ہونے کا دعویٰ کیا لیکن ٹیر ف کے نتائج اور نتائج سے بچنے کےکسی متبادل پلان پر ایک لفظ بھی نہیں کہا، حالانکہ اس سے ملک کا ایکسپورٹ سنگین حد(۴۷؍ ارب ڈالر) تک متاثر ہونے والا ہےاور آر بی آئی کے سابق گورنر رگھورام راجن نے اس معاملے کو سنگین قراردیاہے۔ انہوں نےحکومت کو اب آنکھیں کھولنے کا اور اپنی تجارتی حکمت عملی پر از سرنو غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
’انڈیا ٹوڈے‘ کو دیئے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں راجن نے کہا ہےکہ’’ موجودہ عالمی حالات میں تجارت، سرمایہ کاری اور مالیات تیزی سے جغرافیائی سیاست کا ہتھیار بنتے جا رہے ہیں، اس لیے ہندوستان کیلئے یہ مناسب نہیں ہےکہ کسی ایک ملک پر حد سے زیادہ انحصارکرے۔ ‘‘ انہوں نےمشورہ دیا ’’ہندوستان کو اپنے تجارتی تعلقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مشرقی ایشیا، یورپ اور افریقی خطوں کی طرف بھی دیکھنا ہوگا اور ایسی اصلاحات نافذ کرنی ہوں گی جو نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں اور ۸؍ سے ۹؍ فیصد ترقی کی شرح حاصل کرنے میں مدد دیں۔ اس مقصد کے لئے ہندوستان کی حکومت کو اپنی بہت سی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہو گا۔ ‘‘
وشو گرو میں بے روزگارنوجوانوں کی تعداد کو ہی دیکھ لیں تو دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ۲۸؍ملین( یعنی۲؍ کروڑ۸۰؍ لاکھ) نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں اورنوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ حکومت جس روزگار کی صورتحال بہتر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ یعنی اگرملازمتو ں اورروزگار کی تعداد بڑھی ہے تو پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے روزگار کے ذرائع منظم ہی نہیں ہیں اور ان میں سے کئی ملازمتیں ایسی ہیں کہ ان میں تنخواہ معیارکے مطابق نہیں ہے۔
اب اس صورت میں جبکہ ہندوستانی مصنوعات پر امریکہ میں ۵۰؍ فیصد ٹیرف عائد کئے جانے سے ہندوستان کے اربوں ڈالرکا ایکسپورٹ متاثر ہوگا، اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ وسیع تناظر میں ایکسپورٹ کے شعبے سے جڑی ملازمتوں پرکیا اثرات ہو سکتے ہیں ! اس سوال کاکوئی جواب حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ہماری حکومت کے پاس صرف اعداد و شمار کی شکل میں دعوے ہیں لیکن مارکیٹ کا زمینی منظر نامہ اس کے بہت سے دعوؤں کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے۔
یہاں صرف معاشی پہلو ہی نہیں ہے بلکہ معیشت کی آڑ میں جو سیاسی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں وہ زیادہ سنگین ثابت ہو سکتے ہیں ۔ یہاں سپر پاور کی جانب سے وشوگروکوباقاعدہ پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہ کرے اوریہ نہ کرے۔ جب معاملہ اس حد تک یکطرفہ ہوجائے تو خاموش رہنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ اب دعوؤں سے متاثر نہیں کیاجاسکتابلکہ جو سوالات سامنے ہیں وہ جواب کے متقاضی ہیں۔