• Sun, 09 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو کی بقا اور اس کا فروغ: ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کرنا چاہئے؟

Updated: November 09, 2025, 3:32 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

اس سوال کے تحت ہم نے اُرد و زبان و ادب کی چند اہم شخصیات سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی جب حسب ذیل ہے۔ ترتیب و پیشکش: قطب الدین شاہد

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

جہاں تک ممکن ہو، ہم اردو بولیں، اردو پڑھیں اور اردو لکھیں 


اردو کی بقا اور اس کے فروغ کی بنیادی کلید یہ ہے کہ ہم بذات خود اپنی اصلاح کریں، اپنے اندر احساس پیدا کریں اور اپنے او پر ذمہ داری مسلط کریں۔ 
جہاں تک ممکن ہو، ہم اردو بولیں، اردو پڑھیں، اردو لکھیں اور دوسروں کو اردو کی ترغیب دیں۔ 
اردو کے سیمیناروں اور مشاعروں پرہم اپنی جتنی توانائی اور جتنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، اتنا اگر ہم اردو کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور اس میں پڑھانے اور سکھانے پر خرچ کرنے لگیں تو اس کے بہترین نتائج برآمد ہوں گے۔ 
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ اس کیلئے ہم قرآن کی اس آیت سے استفادہ کریں جس کا مفہوم ہے کہ گفتگو کرو تو احسن طریقے سے کرو، اسلئے ہم اچھی اردو بولیں اور اچھی زبان استعمال کریں اور یہی بات ہم اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔ 
اردو کو فروغ دینے کیلئے اردو ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھیں۔ اچھی اردو سیکھنے کا یہ ایک آسان نسخہ ہے۔ 
اخبار اور رسائل کے ساتھ کوشش کریں کہ کوئی کتاب بھی پڑھیں خواہ روزانہ ایک صفحہ ہی کیوں نہ ہو۔ 
دوسری زبانیں سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جتنی چاہیں، اتنی زبانیں سیکھیں لیکن اس بات کا حلف لیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہم اُردو اور اچھی اردو بولیں گے۔ کسی اعلیٰ افسرسے گفتگو ہو یا پھر کسی ٹھیلے والے سے سبزی کی خریداری کا مرحلہ ہو، اُردو میں آپ کی گفتگو، اردو کے فروغ کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوگی۔ 
یہ صارفیت کا زمانہ ہے۔ اگر ہم عہد کرلیں کہ ہم وہی سامان خریدیں گے جس کے پیکٹ پر اُردو میں اس کا نام لکھا ہوگا یا پھر ہم ایسی ہی دکانوں سے خریداری کریں گے جن کے بورڈ اُردو میں لکھے ہوں گے تو یقین جانئے کہ ۲۰؍ کروڑ افراد کی بات نظرا نداز نہیں کی جاسکے گی۔ اگر ہم میں سے ایک چوتھائی بھی اس پر عمل کرلیں کہ ’اردو نہیں لکھا ہے تو وہ سامان نہیں خریدیں گے‘ تو بازار کا نقشہ بدل جائے گا۔ 
کسی بھی بات کو نتیجہ خیز بنانے کا ایک بہترین اصول جو ہمیں بتایا گیا ہے، وہ یہ کہ سخت مجاہدے کے بعد نبوت ملتی ہے اور پھر ہمیں اس پر عمل کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنے گھر والوں اور اپنےاعزہ واقارب کو آمادہ کرنا پڑتا ہے۔ 
پروفیسر عبدالحق(پروفیسر ایمریٹس، دہلی یونیورسٹی، دہلی)


کچھ اور نہیں ، صرف اپنے بچوں کو اُردو پڑھانا ہے
اس تعلق سے ہمیں کچھ اور نہیں کرنا ہے، صرف اپنے بچوں کو اُردو پڑھانا ہے۔ اگرہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو نہ صرف اردو کی بقا کی ضمانت دی جاسکتی ہے بلکہ اس کا فروغ بھی تیزی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ 
اس کی بہترین مثال مہاراشٹر ہے، جہاں اردو میڈیم کے بہترین تعلیمی ادارے ہیں۔ اسی طرح دوسری ریاستوں میں بھی کام ہونا چاہئے۔ 
بچوں کو انگریزی میڈیم یا کسی بھی میڈیم میں پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر اپنے بچوں کو اردو زبان تیسری زبان کے طور پر ضرور پڑھائیں۔ ایسا کرنے سے اردو کا مستقبل یقینی طور پر روشن ہوگا۔ 
ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ زبانیں سرکاروں کے سہارے نہیں بلکہ اپنے بولنےوالوں کی مدد سے زندہ رہتی ہیں۔ 
ہم نے آج تک ایسا کوئی سرکاری نوٹیفکیشن نہیں دیکھا جس میں اس بات کیلئے منع کیا گیا ہو کہ گھروں پر تختی اردو میں نہ لگائیں، مساجد، مدارس اورقبرستانوں پر نوٹس بورڈ اردو میں نہ لکھیں، مگر اس بات پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے ’نیم پلیٹ‘ انگریزی میں لکھواتے ہیں، مساجد اور مدارس میں اعلانات دیوناگری میں لکھتے ہیں ، یہاں تک کہ قبروں پر کتبے بھی اردو کے بجائے دوسری زبانوں میں لکھواتے ہیں۔ 
چار چیزوں کا تعلق معدے سے نہیں، دل سے ہونا چاہئے۔ ملک، ماں، مذہب اور مادری زبان۔ 
اورہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری مادری زبان اردو ہے۔ 
پروفیسر اخترالواسع(نائب صدر انجمن ترقی اردو ہند، دہلی)
ملک بھر میں بڑے پیمانے پرای لائبریریاں قائم کئے جانے کی ضرورت ہے


اردو کی بقا اور اس کے فروغ کیلئے ہمیں زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی بالخصوص ای ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہئے۔ بڑے پیمانے پرای لائبریریاں قائم کی جانی چاہئیں۔ 
ریختہ کی طرح کچھ اور اداروں کو بھی آگے آناچاہئے اورکچھ ایسے ’ای ریسورسیز‘ بنانے چاہئیں جہاں ’اردو کی ورڈ‘ سے اپنی پسند کے مضامین، کتابیں اور دیگر چیزیں تلاش کی جاسکیں۔ 
زبان اوررسم الخط کے درمیان جاری لڑائی کو ختم کردینا وقت کا تقاضا ہے۔ ان دونوں کا آپس میں گوشت اور ناخن کا تعلق نہیں ہے جیسا کہ پہلے کہا جاتا تھا۔ ای ٹیکنالوجی نے ویسے بھی رسم الخط کے جبر کو توڑ دیا ہے۔ اردو کسی اور اسکرپٹ میں بھی لکھی جائے تو اس کی وجہ سے اردو رسم الخط ختم نہیں ہوجائے گی۔ 
یہ دور مصنوعی ذہانت کا ہے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اس شعبے میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 
اردو کا مطلب صرف ادب اور شاعری نہیں ہے۔ دیگر علوم پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی اور سائنسی علوم پر اردو میں کتابیں پہلے بھی کم تھیں اور اب مزید کم ہوتی جارہی ہیں کیونکہ اس سلسلے میں زیادہ کام نہیں ہو رہا ہے، اسلئے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
اردو میں بچوں کیلئے کتابیں اور رسالے بہت کم ہیں اور جو ہیں ان میں سے زیادہ تر بچوں کو متاثر نہیں کرپارہی ہیں۔ ان کے تعلق سے باتصویر اور سائنس سے ہم آہنگ رسائل کی ضرورت ہے۔ 
پروفیسر شافع قدوائی
ڈائریکٹر سرسید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
اردو کو مذہب سے جوڑ کر ہمیں اپنے مکتبی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا


اردو میں بنیادی تعلیم کا نظم کیا جانا بہت ضروری ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارا مکتب کا نظام اس ضرورت کو پوری کررہا تھا لیکن اب وہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ 
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اُردو کا کوئی مذہب نہیں۔ اردو کو مذہب سے جوڑ کر ہمیں اپنے مکتبی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا بہت آسان ہو گا۔ 
گھروں میں اردو بول چال کو عام کرنا چاہئے، صاف اور شستہ زبان میں گفتگو کی جانی چاہئے اور برمحل محاوروں کا بھی استعمال کرنا چاہئے۔ ’دماغ کا دہی‘ جیسے غلط محاوروں کے استعمال سے بچنا چاہئے۔ 
مساجد کے منبر کا بھی اردو کے فروغ کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ 
ہر گھر میں اُردو کا ایک رسالہ اور ایک اخبار لازمی طور پرآنا چاہئے۔ 
رسائل اوراخبارات کے مدیران کوبھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے مشمولات ایسے ہوں جن سے قارئین کو دلچسپی ہو اور اس طرح قاری کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو۔ 
اردو کا فروغ اُس صورت میں مزید آسان ہوسکتا ہے جب ہم تمام لوگ بالخصوص والدین اور اساتذہ اسے اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور اپنی زبان کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ 
مشنریز کے انگلش میڈیم اسکول اکثر شہروں میں موجود ہیں جہاں مسلم بچے بڑی تعداد میں زیرتعلیم ہیں۔ اردو کے بڑے ادارے جیسے انجمن ترقی اردو یا قومی کونسل ان کے بورڈ سے رجوع کرکے اردو پڑھانے کی گزارش کریں تو وہاں بیسک سطح پر اُردو تدریس کا انتظام ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں جب میرے بچے بریلی کےایک کالج میں پڑھتے تھے تو میں نے’فادر‘ سے مل کر ایک تحریک چلائی تھی۔ افسوس کہ وہاں زیر تعلیم دیگر بچوں کے والدین نے اس میں دلچسپی نہیں لی لہٰذا بات آئی گئی ہوگئی۔ فادرکا کہنا تھا کہ اگر ہر کلاس میں اردو پڑھنے والے ۲۵؍ بچے آپ فراہم کردیں تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ آج کے اردو دشمن ماحول میں عیسائی اسکولوں میں اُردو تدریس کی راہ نکالنا نسبتاً آسان ہوگا۔ 
ہمارے بچپن میں ہر محلے میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں کلاسیکی کتابیں ، ناول، افسانوں کے مجموعے، اہم تاریخی کتب اور سوانحات وغیرہ ہوا کرتی تھیں۔ اخبارات ورسائل آیا کرتے تھے۔ میونسپل لائبریریاں بھی ہوتی تھیں۔ بعض بزرگ اپنی ذاتی لائبریری سے بھی استفادے کی راہ ہموار کیا کرتے تھے۔ اب ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ چھوٹے شہروں ، تحصیلوں اور قریوں میں اردو کے حوالے سےکتب خانے قائم کرنے سے جہاں اردو کتب بینی کا ذوق تازہ ہوگا وہاں زبان اردو سے ایک رسمی ہی سہی تعلق کی راہ ہموار ہوگی۔ 
ڈاکٹرشمس بدایونی( ادیب، محقق و مصنف)
اُردو ذریعہ تعلیم اردو زبان کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے، اس جانب سنجیدہ کوشش ہونی چاہئے


اب تو۲۱؍ ویں صدی کا چوتھائی زمانہ گزر چکا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ زبانوں کے تعلق سے سماجی، سیاسی، مذہبی اور ثقافتی مسائل جو۲۰؍ ویں صدی میں زندہ تھے وہ۲۱؍ ویں صدی میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اردو کا مستقل کیا ہوگا؟
اس سوال کا مثبت جواب اردو کی تعلیم کو خاص بڑھاوا دینا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مہاراشٹر میں اردو ذریعہ تعلیم کے بے شمار ادارے اردو ذریعہ تعلیم کے ساتھ انگلش / سیمی انگلش کے سہارے چل رہے ہیں ( اپنے ادارے چلا رہے ہیں )
صرف اداروں کو ترقی دینا اردو زبان کی ترقی کی کوئی مثبت فکر نہیں ہے۔ اس ذیل میں گلی محلے سے لے کر سرکاری ایوانوں تک اردو کی بقا کیلئے اردو والے حرکت میں ہیں۔ وہ اردو میلے، اردو آنگن، اردو کی شعری و ادبی نشستیں اور اردو کی لسانی ترقی کے مسابقے منعقد کررہے ہیں۔ اردو پبلشرز کوشش میں ہیں کہ اردو اپنی سطح سے نیچے نہ آئے۔ 
اردو ذریعہ تعلیم اردو کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن اس کیلئے اسکولوں میں دائیں سے بائیں طرف لکھی جانے والی زبان بورڈ پر لکھ کر طلبہ سے اس لکھی گئی زبان کو پڑھنے کی عادت ہونی چاہئے۔ 
ہمارے مدرسین کی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر وہ اردو کے مدرس ہیں تو پورے خلوص سے اس مقصد کو حاصل کرنے میں جُٹے رہیں۔ بہت سی سیاسی پارٹیاں ہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اردو اکیڈمیز، اردو میں تکنیکی تعلیم، اردو اخبارات، رسائل اور اردو کے ادباء و شعراء کی سرمائے سے معاونت اور ٹکٹ پر کئے گئے مشاعروں، ڈراموں اور قوالیوں جیسی سرگرمیوں کو اردو کی سطح کی بلندی کی مثال سمجھتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہوگی کیوں کہ اردو میلہ، اردو آنگن، مشاعرے، ڈرامے و دیگر ادبی مجالس اردو کی سماجی سرگرمی ہی سے تعلق رکھتی ہیں اسلئے کسی حد تک ان کا وجود قابلِ قبول ہے۔ 
یومِ اردوکے موقع پر اردو کی صورت حال پر غور و فکر خوش آئند ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی اردو شاعری میں اردو زبان میں تہذیب و تربیت کیلئے بہت سی نظمیں کہی ہیں، ان سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 
سلیم شہزاد
(ماہر لسانیات اور سابق رکن بال بھارتی، پونے)
اردو زبان کی درس و تدریس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اسے دلچسپ بنایاجانا چاہئے


اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کا مسئلہ اصلاً ہمارے، علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اسی زبان میں ہمارے بزرگوں کی عظمت رفتہ کالیکھا جوکھا پوشیدہ ہے۔ یہ ہماری قربانیوں کی دستاویز ہے اور بحیثیت ایک قوم ہمیں تشخص اور شناخت اسی زبان سے ملتی ہے۔ اس کی ترقی اور فروغ کے ضمن میں عملی اقدام اٹھانا ہم سب کا فرض ہے۔ اس سلسلے میں چند کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ 
اردو کو بطور مادری زبان قبول کرنا اور دوسروں کو ترغیب دلانا ضروری ہے تاکہ جذباتی طور پرہر فرد سے اس زبان کا رشتہ قائم ہو سکے۔ 
اپنے گھروں اور روز مرہ کی زندگی میں اردو کا چلن عام کیا جائے۔ اردو اخبار، رسائل و جراید بشمول بچوں کیلئے اخلاقی کہانیاں، کارٹون پر مبنی رسالے خریدنے اور پڑھنے پڑھانے کی تحریک پیدا کی جائے۔ 
شادی بیاہ یا دوسری تقریبا ت کے دعوت نامے ہندی انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی لازماًشائع کئے جائیں۔ اپنی دکانوں، مکانوں کے سائن بورڈ اور تختیاں ، پوسٹروں، بینروں اور اشتہارات میں اردو کو مناسب جگہ دی جائے۔ 
سرکاری اسکولوں میں بچوں کے داخلے کے وقت اردو کو بطور مادری زبان منتخب کرنا اور اردو استاد اور کتابوں کو مہیا کرانے کیلئے محکمے کو متوجہ کرانا ہمارا جمہوری حق ہے۔ غیر سرکاری انگلش میڈیم اسکولوں میں اردو استاد کے بندوبست کو یقینی بنانے کیلئے کوشش کی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ اردو زبان سکھانے کا انتظام گھر پر لازمی طور پر کیا جائے۔ 
بچوں میں شوق پیدا کرنے کی غرض سے بیت بازی، اردو کوئز یا بچوں کے مشاعرے منعقد کئے جائیں اوربچوں کو دسویں جماعت تک اردو بحیثیت مادری زبان پڑھانے کی کوشش کی جائے۔ 
سرکاری اداروں سےمطالبہ کیا جائے کہ مشاعروں اور سیمیناروں کے پہلو بہ پہلو اردو شبینہ اسکول اور غیرسرکاری اسکولوں میں ادارے کی طرف سے اردو اساتذہ رکھے جائیں تاکہ اردو آبادی کے بچے اپنی زبان سے محروم نہ رہ سکیں۔ یہ کامیاب تجربہ دہلی اردو اکادمی کر رہی ہے۔ 
اردو زبان کی درس و تدریس عموماً روایتی خطوط پر ہورہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اسے دلچسپ بنایا جاسکتا ہے۔ ای لرننگ /آن لائن کلاسز اورلینگویج لیب وغیرہ کو بڑھاوا دینا نیز سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ 
اردو زبان کی موجودہ پستی یا بدحالی میں نام نہاد ادیبوں، شاعروں اور اساتذہ کی مجرمانہ حرکتوں کو بھی دخل ہے جنھوں نے اردو کے بوتے شہرت اور دولت توحاصل کی ہے لیکن زبان کی ترقی کی بابت کبھی سنجیدہ نہ رہے۔ واضح رہے کہ زبان اور ادب کا مسئلہ دو مختلف مسئلے ہیں دونوں کے تقاضے الگ ہیں۔ نام نہاد اردو سفیروں نے کبھی بھی بے ریائی کے ساتھ اردو زبان کی ترقی کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ ہمیں ایسے افراد کی صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہئے جو اردو کے تئیں مخلص ہیں۔ 
جامعاتی کلچر سے باہر کی ایک دنیا بے جو بےحد متمول، ذہین اور کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے، ایسے افراد کی پذیرائی ہونا چاہئے۔ زبان کسی کی میراث نہیں ہوتی جس نے اسے گلے لگایا اسی کی ہوگئی۔ ایسے ہی افراد سے اردو زبان زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ 
ڈاکٹرآفتاب احمد آفاقی (صدر شعبہ اردو، بی ایچ یو، بنارس)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK