Inquilab Logo Happiest Places to Work

’بتی گل احتجاج ‘ اندھیرے میں اتحاد، اُمت کی روشنی کا مثبت پیغام ثابت ہوا

Updated: May 04, 2025, 2:43 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قومی سطح پر’’بتی گل‘‘احتجاج اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس کی کامیابی نے تاریخ رقم کردی ہے۔

The area around Charminar in Hyderabad during the Batigal protest. Photo: INN.
بتی گل احتجاج کے دورن حیدرآباد کے چارمینار کے آس پاس کا علاقہ۔ تصویر: آئی این این۔

حکومت کیسی ہی تاویلیں پیش کرے ملت اسلامیہ ہند ہی نہیں بلکہ ملک کا انصاف پسند طبقہ اس رائے کا حامل ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ وقف املاک پر غاصبانہ قبضے کی ناپاک سازش کا حصہ ہے۔ پہلے طلاق ثلاثہ مخالف قانون پھر شہریت ترمیمی ایکٹ اوراب وقف ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ ملک کی اقلیتوں  کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملک کاآئین تمہیں  کیسے ہی اختیارات یا کتنے ہی حقوق کی ضمانت کیوں  نہ دیتا ہو، تمہیں  اتنا ہی حق اور اتنے ہی اختیارات ملیں گے جتنے برسراقتدار طبقہ چاہے گا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ اس کیلئے وہ اُسی آئین کے ذریعہ وضع کی گئی پارلیمنٹ کو استعمال کررہا ہے جو عام شہریوں  کو بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے۔ ا سلئے اس کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے اور الحمدللہ یہ فریضہ مسلمان پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کررہے ہیں۔ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قومی سطح پر’’بتی گل‘‘احتجاج اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس کی کامیابی نے تاریخ رقم کردی ہے۔ قانونی محاذ پر سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے اورمسلمان اس امید کے ساتھ قانونی لڑائی لڑ رہا ہے کہ انصاف پر مبنی فیصلہ آئے گا مگر عوامی سطح پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا اتناہی ضروری ہے جتنا کہ عدالتی چارہ جوئی۔ ملک میں ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیں  کہ کئی ریاستوں   میں اقلیتوں  کیلئے اپنے آئینی حقوق کی خاطر جمہوری طریقہ کار کو اپناتے ہوئے احتجاج کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے بلکہ جر م بنا دیاگیاہے۔ احتجاج کی پاداش میں  انہیں  جس طرح کی قانونی چارہ جوئیوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی مثالیں  اتر پردیش، آسام اور ان ریاستوں سے پیش جاسکتی ہیں  جہاں  زعفرانی ٹولہ برسراقتدار ہے۔ ایسے میں بغیر کسی نعرہ بازی، جلوس یا تصادم کے  ’’بتی گل احتجاج‘‘ نے اُن ریاستوں  کے مسلمانوں کو بھی بلاخوف احتجاج میں شرکت کا موقع فراہم کیا جہاں  بصورت دیگر قانونی چارہ جوئی کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس احتجاج کی انفرادیت اس کے پرامن اور علامتی انداز میں تھی، ورنہ سب جانتے ہیں کہ جس حکومت کے کان پرزائد از ایک سال چلنےوالے شاہین باغ مظاہروں سے جوں تک نہیں  رینگی وہ ۱۵؍ منٹ کے بتی گل سے کیا ہی اثر لےگی۔ 
 البتہ اس احتجاج نے ملک بھر کے مسلمانوں  کو زبان سے ایک لفظ بھی ادا کئے بغیر یہ پیغام دینے کا موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے حقوق پر شب خون مارے جانے کے خلاف متحد ہیں، شریعت میں مداخلت کو برداشت نہیں  کریں  گے اور وقف ترمیمی ایکٹ کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔ مخالفت کی یہ شدت ۳۰؍  اپریل کی شام مسلم بستیوں  میں  چھاجانےوالی ۱۵؍ منٹ کی تاریکی سے ظاہر ہے۔ مسلمانوں نے شام۹؍ سے ۱۵:۹؍ بجے تک بتیاں بجھا کر یہ پیغام دیا کہ وہ نہ صرف اپنے آئینی و مذہبی حقوق کے تحفظ کیلئےسنجیدہ ہیں بلکہ متحد بھی ہیں۔ انہوں   نے ایک زبان ہوکر اندھیرے میں اپنے اتحاد کی روشنی بکھیر دی۔ احتجاج میں سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور دیگر مسالک کے علماء و عوام نے پورے جوش وخروش کے ساتھ شرکت کی جو اتحاد اُمت کا عملی مظہر تھا۔ تمام اختلافات پس پشت ڈال کر اور بحیثیت ’’مسلمان ‘‘ اکھٹے ہوکر انہوں  نے یہ واضح پیغام دیا کہ مسالک، فرقوں  اور خانوں  میں  بٹے ہونے پر انہیں بھلے ہی کوسا جاتا ہے مگر اپنی اسلامی شناخت کیلئے اور بطور مسلمان وہ کل بھی متحد تھے، آج بھی متحد ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ 
 یہ احتجاج حکومت کے اس پروپیگنڈہ کا بھی منہ توڑ جواب تھا کہ اقلیتوں  کا ایک طبقہ وقف ترمیمی ایکٹ کا حامی ہے۔ اس کا دعویٰ اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے پارلیمنٹ میں  کیاتھا مگر ۳۰؍اپریل کے احتجاج نے ان کے اس دعوے کی قلعی کھول کررکھ دی۔ اس کے برخلاف اس احتجاج میں مسلمانوں  کے ساتھ برادران وطن کی خاصی تعداد کی شرکت حکومت کیلئےیہ پیغام بھی تھا کہ اکثریتی طبقہ کا بھی ایک قابل قدر اور سمجھدار حصہ ظلم پر مبنی اس قانون کے پس پشت حکومت کی منشاء کو سمجھ رہا ہے اوراس کی تائید نہیں کرتا۔ حکومت اثر لے یا نہ لے، ’بتی گل احتجاج‘ نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ کبھی ’’پسماندہ مسلمان‘‘کاشوشہ چھوڑ کر اور کبھی مسلکی اختلافات کے سہارے ملت کو تقسیم کرنے کی کوششیں  کرنے والے عناصر جو کل بھی سرگرم تھے اور آج بھی سرگرم ہیں، نہ کل کامیاب ہوئے، نہ آج کامیاب ہیں  اور نہ ہی مستقبل میں  کامیابی ان کا مقدر ہو گی۔ 
’’بتی گل احتجاج‘‘ کو اگر ظلم اور ناانصافی کے خلاف خاموش چیخ سےتعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسی چیخ جو اتحاد اوراخلاص کے ساتھ بلند کی گئی اور دلوں میں اتر گئی۔ اس احتجاج نے بلا شبہ ملت میں  ایک نیا جوش پیدا کیا ہےا ور ایک ایسے جذبے کو بیدار کیا ہے جس کو جلا بخش کر ایک نئی تحریک کی شکل بھی دی جاسکتی ہے۔ یہ ملت کے قائدین کیلئے بھی ایک پیغام ہے کہ اگر قیادت مخلص ہوتو اس کے فیصلے سے اتفاق ہویا اختلاف، عوام متحد ہوکراتباع کرتے ہیں۔ ہم ایسے بہت سے ا فراد سے واقف ہیں جو احتجاج سے قبل اس کی افادیت پر سوال اٹھارہے تھے۔ اس اندیشے کااظہار کررہے تھے کہ یہ کتنا بااثر ہوگا کیوں کہ جس طرح ملک میں  مسلمان اقلیت میں ہیں اسی طرح  بستیوں  میں  بھی ان کی تعداد کم ہوتی ہے اس لئے ا گر کسی بستی میں   مسلمانوں کی چھوٹی سی تعداد اپنی دکانوں  اورگھروں  پر روشنی گل بھی کردے تو اس کا کتنا اثر مرتب ہوگا۔ تاہم ایسے لوگ بھی پورے اخلاص کے ساتھ علامتی احتجاج میں شریک ہوئے۔ بعید نہیں  کہ آل انڈیا پرسنل لاء بوڈ کو بھی احتجاج کی ایسی کامیابی کی توقع نہ رہی ہو مگر اس کامیابی کاایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اب بورڈ بخوبی اندازہ لگا سکتاہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف مسلمانوں  کی کتنی بڑی تعداد اس کے ساتھ متحد ہے۔ اس کیلئے مستقبل کے لائحہ عمل طے کرنے میں  آسانی ہوگی۔ باالفاظ دیگر یہ کہیں  کہ بتی گل احتجاج وقت ترمیمی ایکٹ کے تعلق سے ملت کا لٹمس ٹیسٹ تھا اوراس ٹیسٹ کا جو نتیجہ برآمد ہوا ہے وہ غیر معمولی طور پر حوصلہ افزا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں  ہوچکی ہےکہ ہندوستان کی پوری ملت اسلامیہ اللہ کے نام پر وقف کی گئی املاک پر غاصبانہ قبضہ کی راہ ہموارکرنے والے قانون کے خلاف ہےاور ضرورت پڑنے پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں  اقلیتوں  کے مظاہروں  کے خلاف ارباب اختیار کا جو رویہ ہے وہ بھی ’’بتی گل‘‘ احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کاسبب بنا ہوگا کیوں  کہ مخالفت کے اظہار کیلئے پورے ملک کے مسلمانوں  کو سڑکوں  پر اتارنے خطرے سے خالی نہیں  تھا البتہ اِس طرح  حکومت کو کامیابی کے ساتھ یہ پیغام دے دیا گیا کہ ملک کا مسلمان اس قانون کے خلاف متحد ہے۔ ضروری ہے کہ اس جذبے کو زندہ رکھا جائے، اور اختلافات کو بھلا کر مشترکہ مفادات کیلئے اجتماعی حکمت عملی اپنائی جائے کیوں  کہ اختلاف رائے کے باوجود اجتماعیت کا یہ مظاہرہ حوصلہ افزا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK