سورہ العصر میں فرمایا کہ ’’تمام انسان خسارے میں ہیں‘‘ کیوں؟ اس لئے ان کی عمر کے لمحات گزر رہے ہیں، زندگی کے لمحات کم ہورہے ہیں، سرمایۂ زندگی پگھل رہا ہے، لیکن جس انسان نے اپنی زندگی کے لمحات کو ایمان اور نیک عمل میں لگا دیا تو اس کے اس نقصان کی تلافی ہوگئی۔ نہ صرف یہ کہ اس نقصان کی تلافی ہوگئی بلکہ جتنا نقصان ہوا تھا، اس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جمع ہوگیا۔
سورہ العصر کا پیغام بہت واضح ہے۔
سورہ العصر میں فرمایا کہ ’’تمام انسان خسارے میں ہیں‘‘ کیوں؟ اس لئے ان کی عمر کے لمحات گزر رہے ہیں، زندگی کے لمحات کم ہورہے ہیں، سرمایۂ زندگی پگھل رہا ہے، لیکن جس انسان نے اپنی زندگی کے لمحات کو ایمان اور نیک عمل میں لگا دیا تو اس کے اس نقصان کی تلافی ہوگئی۔ نہ صرف یہ کہ اس نقصان کی تلافی ہوگئی بلکہ جتنا نقصان ہوا تھا، اس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جمع ہوگیا۔ اس لئے فرمایا کہ تم خسارے سے بچنا چاہتے ہو، نقصان سے بچنا چاہتے تو ان اوقاتِ زندگی اور لمحاتِ عمر کی قدر پہچانو اور اس کا ایک ایک لمحہ تول تول کر ایسے کاموں میں خرچ کرو جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو راضی کرنے والے ہیں، اس طرح تمہارے نقصان کی تلافی ہوجائے گی۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ورنہ یہ عمر تو گزرتی جارہی ہے، یہ کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ انسان اپنی زندگی کے اندر اصلاح کرنے کے لئے بعض اوقات اصلاح کو ٹالتا جاتا ہے کہ اچھا بھائی، کل سے اصلاح کریں گے، پرسوں سے کریں گے۔ اس کے نتیجے میں عمر گزرتی چلی جاتی ہے اور زندگی ڈھلتی جاتی ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ سارا سرمایہ ختم ہوجاتا ہے۔ آخر میں جا کر آدمی کو حسرت ہوتی ہے کہ ہائے، میں نے اپنی زندگی کا سرمایہ ضائع کردیا اور اپنے لئے آخرت کا کوئی سامان جمع نہیں کیا۔
یہ زندگی ایک سرمایہ ہے
سورہ العصر یہ پیغام دے رہی ہے کہ اللہ کے بندو، یہ زندگی جو تمہیں عطا ہوئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے، جس کے ایک ایک لمحہ کو کام میں لا کر اپنے لئے ثواب کے ڈھیر جمع کرسکتے ہو، آخرت میں جنت کما سکتے ہو ، اور اگر ان کو ضائع کر دیا تو پھر یہ سارا سرمایہ ضائع ہوجائے گا، پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔
عمر کے لمحات ان کاموں میں لگاؤ
اس سورہ کا جو پہلا سبق ہے وہ یہ ہے کہ عمر کے یہ لمحات اللہ تعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، ان لمحات کو بیکار کاموں ، لغویات اور لاپروائی کے ساتھ خرچ کرنے سے بچو۔ ان لمحات کو تول تول کر ایسے کاموں میں خرچ کرو جس میں یا تو دنیا کا فائدہ ہو یا آخرت کا فائدہ ہو، اور ان لمحات کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کرو۔ ان کو معصیت اور نافرمانی سے بچاؤ۔ اس بات کی کوشش کرو کہ عمر کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نفس کے جو حقوق رکھے ہیں مثلاً سونا ہے، کھانا پیناہے، وغیرہ بھی ایک مومن کے لئے عبادت ہے، بشرطیکہ شریعت کی بیان کردہ حدود کے اندر رہ کر کریں۔ اسی طرح بیوی بچوں کے ساتھ ہنسنا بولنا، ملاقات کرنا اور ان کی دلجوئی کرنا بھی عبادت ہے ۔ یہ بھی ضروری ہے۔ ان تمام کاموں کو اس نیت سے کرو کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حقوق مجھ پر عائد کئے ہیں ، یہ بھی نیکی کے اعمال میں داخل ہیں اور فرصت کے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں، اللہ تعالیٰ کی یاد میں، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنے میں، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کیا جائے تو پھر عمر کے یہ لمحات خسارے کے بجائے ان شاء اللہ فائدے اور نفع کا پیغام لائیں گے۔
دو عظیم نعمتیں
یہ ہے اس سورہ کا اصل پیغام کہ خدا کے لئے وقت کی قدر پہچانو، زندگی کے لمحات کو غنیمت سمجھو۔ اسی ذیل میں حضورﷺ کا ایک ارشاد ہے جو ہر مسلمان کو یاد رکھنا چاہئے ، اور اس ارشاد کا اس سورہ سے بھی تعلق ہے ۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’دو نعمتیں اللہ تعالیٰ کی ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، ایک صحت اور دوسرے فراغت اور فرصت کی نعمت۔ دھوکے میں پڑنے کے معنی یہ ہیں کہ جب تک یہ نعمتیں حاصل رہتی ہیں تو آدمی ان کی طرف سےبے پروا رہتا ہے اور یہ سمجھتا رہتا ہے کہ میں تو ہمیشہ سے تندرست ہوں اور ہمیشہ تندرست رہوں گا، لہٰذا تندرستی کے اوقات کو ضائع کرتا رہتا ہے۔
رات کو سونے سے پہلے شکر ادا کرلو
سورۃ العصر کا بھی پیغام یہ ہے اور نبی کریمﷺ کا ارشاد بھی یہ ہے کہ اس صحت کی نعمت کی قدر کرو ، اور اس کی قدر یہ ہے کہ اولاً تو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے رہو، رات کو سونے سے پہلے کم از کم اس نعمت کا تصور کرکے شکر ادا کرلو کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ میرا دماغ صحیح کام کررہا ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میرا دل صحیح کام کررہا ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میری آنکھیں صحیح کام کررہی ہیں ، یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میرے کان صحیح کام کررہے ہیں، میری ناک صحیح کام کررہی ہے، میرے ہاتھ پاؤں صحیح کام کررہے ہیں ۔ یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ کوئی بیماری نہیں ہے، کوئی دکھ درد نہیں ہے، کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ رات کو سونے سے پہلے اس طرح ایک مرتبہ ہر ہر نعمت کا استحضار کرکے شکر ادا کرلو، اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ’’اگر تم میرا شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘ (ابراہیم:۷)
حق اور صبر کی نصیحت کرنا فرض ہے
اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں یہ بات واضح فرمائی ہے کہ دنیا و آخرت کے نقصان سے بچنے کے لئے چار کام ضروری ہیں : ایمان، نیک عمل، ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی انسان کے نجات پانے کے لئے صرف اتنا کافی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو درست کرلے، اپنا ایمان اور اپنے اعمال درست کرلے بلکہ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ حق اور صبر کی نصیحت بھی کرتا رہے۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر حق بات ، حق نیت سے ، حق طریقے سے کہی جائے تو کبھی وہ نقصان نہیں پہنچاتی، گویا کہ اس کے لئے تین شرطیں : ایک تو یہ کہ بات حق ہو، دوسری یہ کہ نیت حق ہو اور تیسری شرط یہ کہ نصیحت کرنے کا طریقہ بھی حق ہو ، یعنی وہ طریقہ ہو جو انبیاء کرام ؑ کا تھا کہ نرمی ،محبت اور پیارسے بات کرتے تھے، ہمدردی کے تقاضے پر عمل کرتے تھے اور اس بات کی پروا نہیں کرتے تھے کہ جس کو نصیحت کی جارہی ہے اسے برا لگے گا۔
نصیحت اور وصیت کے انداز میں بات کہو
البتہ بات کہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جوالفاظ بیان فرمائے ہیں، وہ یہ کہ حق بات کی وصیت کرو، ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو۔ دوسروں کی توہین نہیں کرنی ہے نہ دوسروں کی دل آزاری کرنی ہے ، بلکہ وصیت کرنی ہے۔ وصیت کے اصل معنی تو ہیں کہ اگر کوئی آدمی دنیا سے جارہا ہے تو وہ مرنے سے پہلے اپنے گھر والوں کو اور اپنی اولاد کو وصیت کرتا ہے۔ آپ ذرا تصور کریں کہ ایک باپ جو بستر پر پڑا ہوا ہے اور اب وہ دنیا سے جانے والا ہے ، اس کی اولاد اس کے اردگرد بیٹھی ہے، اس وقت وہ اپنی اولاد کو جو نصیحت کرے گا تو کس انداز سے کرے گا؟ اس نصیحت میں کتنی محبت ہوگی؟ کتنا پیار ہوگا؟ کتنی ہمدردی ہوگی؟ کتنی دلسوزی ہوگی؟ کہ میں تو دنیا سے جارہا ہوں لیکن اپنی اولاد کو صحیح راستے پر لگاجاؤں۔
اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جس طرح تم بستر مرگ پر لیٹے ہوئے اپنی اولاد کو وصیت کرتے وقت جو اسلوب و لہجہ اور جذبہ اختیار کرتے ہو، کسی دوسرے کو بھی حق بات کی نصیحت کرتے وقت وہی انداز اختیار کرنا چاہئے۔ اگر تم نے ایسا انداز اختیار کرلیا جس سے دوسرے کی دل شکنی یا دل آزاری ہوگئی تو یہ وصیت نہ ہوئی۔ یہ ’’تواصوا‘‘ کے اندر داخل نہیں۔ جب دل میں دوسرے کی ہمدردی ہوتی ہے، دلسوزی ہوتی ہے ، خیرخواہی ہوتی ہے تو پھر عنوان، اسلوب اور انداز بھی ایسا اختیار کیا جاتا ہے جس سے دوسرا متاثر ہوجائے۔
ہمارے اندر افراط و تفریط
لیکن ہمارے معاشرے میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ ایک طرف تو بعض اوقات اس طرف دھیان بھی نہیں جاتا کہ دوسرے تک دین کی بات پہنچانا بھی کوئی کام ہے، کوئی ذمہ داری ہے ۔ جبکہ دوسری طرف بعض اوقات اس طرف دھیان جاتا ہے، لیکن بات پہنچانے کا طریقہ صحیح نہیں، مثلاً بے وقت بات کہہ دی ، ایسے وقت میں جب دوسرا شخص آپ کی بات سننے کے لئے آمادہ ہی نہیں تھا، اب وہ بات بیکار گئی۔ یا آپ نے بات کہنے کا ایسا انداز اختیار کیا جس سے اس کا دل ٹوٹ گیا، مثلاً اعتراض کا انداز اختیار کیا یا اس کو نشانہ بنایا ، اس کی توہین کردی، مجمع عام کے اندر اس کو ڈانٹ دیا۔ یہ وہ وصیت نہیں جس کا قرآن کریم حکم دے رہا ہے۔ وصیت تو وہ ہے جو ہمدردی سے ہو، خیرخواہی سے ہو، دلسوزی سے ہو اور دل میں یہ تڑپ ہو کہ کاش میری یہ بات اس کے دل پر اثر کرجائے۔ حق بات پہنچانے کا یہ اسلوب اختیار کرلیا جائے تو پھر ان شاء اللہ اس خسارے سے بچ جائیں گے جس کا تذکرہ سورۃ العصر میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔