Inquilab Logo

سورۃ الفاتحہ میں اعلیٰ انسانی کردار کی تشکیل کے ضابطے اور اصول موجود ہیں

Updated: February 03, 2023, 12:06 PM IST | Dr. Naeem Anwar Nomani | Mumbai

تشکیلِ سیرت انسان کی زندگی کا اہم مرحلہ ہےجو بڑا ہی کٹھن اور بڑے شدائد کا حامل ہے اور اگر اس کی کامل معرفت نصیب ہوجائے اور احکاماتِ الٰہیہ کے مطابق اور موافق ہوجائے تو اس کی تکمیل آسان ہوجاتی ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این


انسان کو اس ذات کا پرتو ہونا چاہئے جس نے اس کو خلق کیا ہے۔ یہ مخلوق ہوکر اپنے خالق کی صفات کا آئینہ دار ہو اور ان صفات کی عملی شہادت اپنے کردار سے پیش کرے تو یہی اس انسان کی شخصیت و کردار کی تعمیرکے لئےسب سے بڑا ضابطہ اور اصول ہے۔ ایک انسان کو اپنی صفات اور خصائل میں عالمگیرانسانی اخوت کا پیکر ہونا چاہئے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو اس تعلق اخوت میں ہر لحظہ مضبوط کرتا ہوا دکھائی دے تو اس کی شخصیت صحیح نہج پر اپنے کردار کی تعمیر کا آغاز کررہی ہوگی۔ انسان کی زندگی دو مرحلوں سے گزرتی ہے: تخلیق ِ  ذات اور تشکیل ِ سیرت۔
تخلیق ِ ذات کے مرحلے میں باری تعالیٰ نے سب کو مساوی رکھا ہے۔ سرتاپا ہر انسان کو خوبصورت اور دلکش انسانی اعضا عطا کئے ہیں اور حسنِ توازن سے معمور کیا ہے اور یوں انسان کو تمام مخلوقات کے مابین اشرف الخلق بنایا ہے۔ اس پوری کائناتِ خلق میں جس قدر باری تعالیٰ نے انسان کو حسین وجمیل بنایا ہے، اس قدر کسی اور مخلوق کو نہیں بنایا ہے۔
انسان کی زندگی کا دوسرا مرحلہ تشکیلِ سیرت کا ہے۔ یہ مرحلہ بڑا ہی کٹھن اور بڑے شدائد کا حامل ہے اور اگر اس کی کامل معرفت نصیب ہوجائے اور احکاماتِ الہیہ کے مطابق اور موافق ہوجائے تو اس کی تکمیل آسان ہوجاتی ہے اور اگر یہ احکامِ ربانی کے خلاف اور نفس کی خواہشات کی پیروی میں طے ہو تو یہ تخریب ِ نفس اور تذلیلِ انسانیت اور ندامت ِ انسانی کا ایک نشان بن جاتا ہے۔
اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ انسان ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ کا سفر اختیار کرے اور خود کو اللہ کے رنگ سے رنگ لے۔ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ انسان اپنی شخصیت اور اپنے کردار کی تشکیل سورۃ الفاتحہ میں مذکور درج ذیل اصولوں اور ضابطوں پر کرے
l پیکرِ اخوت:  ایک مسلمان الحمدللہ رب العالمین کے کلمات کے ذریعے اپنے رب کی آفاقی اور کائناتی اور عالمی ربوبیت کا اقرار کرتا ہے۔یہ اقرار تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان ایک عالمی اور آفاقی نظام ربوبیت سے وابستہ  ہوکر محدود عصبیتوں، گروہی وفاداریوں، رنگ و نسل کے دائروں اور طبقاتی تقسیموں سے خود کو الگ تھلگ کرلے اور خود کو ایک وحدت کی لڑی میں پرو دے۔
اسلامی اخوت اور اسلامی وحدت کا ہر مسلمان سے یہی مطالبہ ہے کہ ہم دوسرے انسانوں سے نفرت نہ کریں اور ان سے کسی قسم کا تعصب نہ کریں اور ان سے حق زیست نہ چھینیں۔ ہر انسان کو اپنے سینے سے لگائیں۔ ہر کسی کی فلاح و بہبود کا سوچیں،اپنے عمل کو اخوت اور محبت والا بنائیں۔ اپنی  زبان و قلم کو وحدت و اخوت سے آشنا کریں،  اپنی مخصوص سوچ کو ہی حتمی  نہ کہیں بلکہ دوسروں کی سوچ کا بھی احترام کریں۔ خود کو ہی اسلامی وحدت اور اسلامی اخوت کا علمدار تصور نہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی اسلامی وحدت اور اسلامی اخوت کا حامل اور صاحبِ کردار سمجھیں۔
ہم اسلام اور اس کی تعلیمات کے ٹھیکیدار نہ بنیں بلکہ مبلغِ اسلام اور محافظ ِ دین بنیں۔ اپنے قول و فعل کے ہر تضاد کو دور کریں اور اپنے دل و نگاہ کو مسلمان بنائیں اور اعلیٰ مسلمان شخصیتوں کی طرح جینے والے بنیں۔ اللہ رب العزت کی شان ربوبیت مسلمان کو اپنی شخصیت و کردار کی تعمیر کے باب میں دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کا اور اپنے اہلِ خانہ کا خود کفیل بنے اور اپنے وسائل کی کثرت کے ساتھ اپنے سارے خاندان والوں کی حاجت روائی کرے حتیٰ کہ اللہ کی شان ربوبیت سے مستفید ہوتے ہوئے خلق خدا کی کثیر تعداد کی کفالت کرنے والا بنے۔
l  پیکرِ شفقت و رحمت: انسان کی شخصیت و کردار کی تشکیل کا دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لئے خود کو پیکر رحمت اور شفقت بنائے۔ اللہ تعالیٰ الرحمٰن  الرحیم کی صفات کا حامل ہے۔ اس نے سورۃ فاتحہ میں اپنی ربوبیت عامہ کا تعارف بھی صفتِ رحمت سے کرایا ہے اور یہ صفت رحمت ایک ایسی صفت ہے جو ہر کمال کو محیط ہے۔ اللہ رب العزت کے ہر فعل سے اس کی یہ صفت یکسا ں جھلکتی ہے اور اسی بنا پر باری تعالیٰ نے پورے قرآن میں اس صفت کو بار بار بیان کیاہے۔
الرحمٰن  الرحیم کی یہ الوہی صفت ہر انسان کو پیغام دیتی ہے کہ وہ اپنے اندر وصف ِ رحمت کا پر تو پیدا کرے۔ صفت رحمت سے انسان کا متصف ہونا ہی اس کی شخصیت کا کمال ہے اور اسی طرح انسان کے اخلاق کا چراغ صفات الہیٰہ سے روشن ہوگا۔
l  پیکرِ عدالت و امانت:  انسان کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے کے لئےایک ضابطہ اور اصول؛ کردار میں عدالت اور امانت کو پیدا کرنا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں مذکور مالک یوم الدین کا معنی و مفہوم یہی ہے کہ ہر نیکو کار اور ہر بدکار کو اپنے عمل کا صحیح بدلہ جزا اور سزا کی صورت میں مل کر رہے گا۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ یوم الدین صحیح معنوں میں یوم العدل ہوگا۔ جب حقیقی زندگی میں ہر شخص کو وہی مقام ملے جس کا وہ حقیقت میں مستحق اور اہل ہے تو اس عمل کو ہی عدل کہتے ہیں اور اگر حقدار کو صحيح مقام نہ ملے یا غیر اہل کو وہ مقام ملے جس کا وہ حقدار نہ تھا تو اسی کا نام ظلم ہے۔ظلم کی خصلت انسانوں کی ہے جبکہ اللہ کی سنت اپنی مخلوق پر رحمت و مغفرت کی ہے۔ اس لئےوہ اس حقیقت کو بڑے واشگاف الفاظ میں بیان کرتا ہے (ترجمہ):
’’بے شک اللہ لوگوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ (خود ہی) اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔‘‘ (یونس:۴۴)
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا تعارف رحمٰن و رحیم سے کروایا وہاں مالک یوم الدین کے ذریعے وہ اپنے بندوں کو باور کرارہا ہے کہ صفت رحمت میری کمزوری بھی نہیں کہ میں عذاب کے حقداروں کو عذاب ہی نہ دوں۔ سن لو! میں جبار و قہار ہوکر ظالموں کو سزا دینے والا ہوں۔ میری رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ مظلوموں کو رحمت میسر آئے اور ظالموں کو سزا اور قہر و غضب میسر آئے۔
l  پیکرِ استغناء: تعمیر ذات اور شخصیت اور کردار کے لئےایک اور اصول و ضابطہ یہ ہے کہ مسلمان پیکر استغناء ہو اور اپنی عزت نفس کا ہر لمحہ پاسباں ہو۔ یہ ضابطہ انسان کو ایاک نعبد وایاک نستعین کے انقلاب آفریں کلمات عطا کرتے ہیں۔ انسان پوری دنیا کے ناخداؤں اور فرعونوں کے سامنے ان کلمات کے ذریعے یہ برملا اعلان کرتا ہے کہ نہ تو میرا سر خدا کے سوا کسی اور کے سامنے جھکے گا اور نہ میرا دستِ طلب خدا کے سوا کسی اور کے سامنے دراز ہوسکے گا۔  میں تیرا بندہ ہوں، تیری بندگی ہی میری کل زندگی ہے، ميں اس میں کسی اور کو شریک ہرگز ہرگز نہ کروں گا۔
l پیکرِ تواضع و انکساری:  انسان کی ذات اور شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لئےقرآن ایک اور ضابطہ سورہ فاتحہ کے ذریعے پیکر تواضع وانکساری اور سراپا عجز و نیاز مندی بننے کا دیتا ہے۔ یہ اصول شخصیت سازی اھدنا الصراط المستقیم کے کلمات کے ذریعے ملتتا ہے۔ اس لئےکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ استغنا کا تصور رفتہ رفتہ انسان کے اندر تکبر و غرور سے بدل جائے۔ اس لئےکہ استغنا اور تکبر ان دونوں کی سرحدیں قریب قریب ہوتی ہیں اور ان کے درمیان فرق کو بہر طور پیش نظر رکھنا لازمی ہے۔ عدمِ التفات اور بے پروائی کا وطیرہ اگر فرعون صفت، طاقتور اور ظالم و جابر لوگوں کے ساتھ رکھا جائے تو اس کا نام استغناء ہوجاتا ہے اور اس کے برعکس اگر یہی وطیرہ کمزور غریب اور بے کس و مظلوم افراد کے ساتھ رکھا جائے تو اس کا نام تکبر بن جاتا ہے۔
l پیکرِ اعتدال و توازن : انسان کی شخصیت و کردار کی تعمیر کا ایک ضابطہ اور اصول اس کا پیکر اعتدال و توازن ہونا بھی ہے۔ یہ ضابطہ ہمیں قرآن حکیم کے ان کلمات اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین سے میسر آتا ہے۔ اس لئےکہ راستے تین طرح کے ہیں
 ایک راستہ غضب کا ہے، دوسرا راستہ ضلالت کا ہے اور تیسرا درمیانی راستہ نعمت کا ہے۔
تیسرے راستے یعنی طریقِ نعمت کی مخالفت دو سمتوں سے ہوتی ہے:افراط کی سمت سے اورتفریط کی سمت سے۔
افراط اور تفریط دونوں سے بچاؤ کا راستہ اعتدال اور توازن کا ہے۔ اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو امت وسط بنایاہے اور اس امت کے ہر فرد اورہر مسلمان کو بھی اپنی زندگی میں معتدل اور متوازن رہنے کی تاکید کی ہے۔ اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے
’’اور اے مسلمانو! اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔‘‘ (البقرہ:۱۴۳)
قرآن تمام مسلمانوں کو افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ کی رحمت کے حصول کی راہ اعتدال ہے۔ افراط سے انسان خدا کے قہرو غضب کا شکار ہوتا ہے اور تفریط سے انسان گمراہی کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا ہے۔یہ دونوں انتہا پسندی کے راستے ہیں جبکہ اعتدال میانہ روی کا راستہ ہے۔ انسان کےاعضاء و جوارح میں بھی باہمی تناسب اور اعتدال ہے اور انسانی شخصیت  کے حسین و جمیل ہونے کا نسخہ بھی صرف اعتدال و توازن ہے۔ حتیٰ کہ باری  تعالیٰ نے انسان کو اپنی بول چال، خرچ، طعام، لباس، معاملاتِ زندگی الغرض ہر حوالے سے اعتدال کے وصف کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر اس میں سے یہ اعتدال و توازن ختم ہوجائے تو اسے بدعقیدگی اور بداعمالی کہتے ہیں۔
 پس انسان کی شخصیت کی کل خوبصورتی اعتدال اور توازن سے ہی قائم ہوتی ہے بصورت دیگر انسانی شخصیت غیر متوازن ہوکر رہ جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK