Inquilab Logo Happiest Places to Work

تکبیر تشریق اور ایام تشریق

Updated: June 23, 2023, 10:37 AM IST | Maulana Nadeem Ahmed Ansari | Mumbai

ذی الحجہ کا مہینہ اور خصوصیت سے اس کا پہلا عشرہ (جو اِن دنوں جاری ہے اور عید قرباں تک جاری رہے گا) بڑی عظمت و فضیلت والاہے۔

It is wajib for every Muslim to recite Takbir-e-Tashreeq once after every obligatory prayer from the Fajr prayer of Dhul-Hijjah to the Asr prayer of 13th Dhul-Hijjah.
؍۹ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

ذی الحجہ کا مہینہ اور خصوصیت سے اس کا پہلا عشرہ (جو اِن دنوں جاری ہے اور عید قرباں تک جاری رہے گا) بڑی عظمت و فضیلت والاہے۔ متعدد احکامات اس سے متعلق ہیں۔ من جملہ ان کے تکبیرِ تشریق بھی ہے، جو ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہے۔سال بھر میں کُل ۲۳؍ نمازوں کے بعد اسے پڑھا جاتا ہے، اس لئےضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے متعلق ضروری احکام و مسائل آپ کی خدمت میں پیش کئے جائیں۔
’تشریق‘ شروق سے بنا ہے، جس کے معنی ’طلوعِ آفتاب‘ کے آتے ہیں۔ تشریق سورج یا مشرق کی طرف رُخ کرنے یا کسی چیز کو دھوپ میں سکھانے کو کہتے ہیں، چوں کہ ان دنوں میں لوگ قربانی کا گوشت سکھایا کرتے تھے، اس لئے ان دنوں کو ’ایامِ تشریق‘ کہا جانے لگا۔
(النہایہ لابن الاثیر)
ایامِ تشریق کا ذکر قرآن مجید میں
قرآن مجید میں ایک مقام فرمایا گیا:’’اور اللہ کو گنتی کے دنوں میں (جب تم منیٰ میں مقیم ہوں) یاد کرتے رہو۔‘‘ (البقرۃ) اور ایک مقام پر فرمایا گیا:’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کی راہوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کیلئے رکھے گئے ہیں۔ اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انہیں عطا کیے ہیں۔ چنانچہ (مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔‘‘ (الحج)
ایامِ تشریق میں روزہ
چونکہ یہ دن کھانے پینے اور خوشی منانے کے ہیں اسلئے ان دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایامِ تشریق کے کسی درمیانی دن میں ہم لوگ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد کھانا آیا اور لوگ قریب قریب ہوگئے، لیکن ان کا ایک بیٹا ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس سے فرمایا: آگے ہو کر کھانا کھاؤ! اس نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ انہوں نے فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔(مسند احمد) اورحضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت ابومرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے والد حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ انھوں نے عبداللہ کی طرف کھانا بڑھایا اور فرمایا: کھاؤ! عبداللہ نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ اس پر عمرو بن عاص نے کہا: کھاؤ! کیونکہ یہ ایسے دن ہیں جن میں رسول ﷺ نے ہمیں افطار کا حکم دیا اور روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک نے کہا: ان دنوں سے مراد ایامِ تشریق ہیں۔ (ابوداؤد)
تکبیر ِ تشریق اور اس کا پس منظر
تکبیر ِ تشریق کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جبریل ؑجب حضرت اسماعیلؑ کے بدلے میں جانور لے کر پہنچے اور حضرت ابراہیمؑ  کو اِس حال میں دیکھا کہ وہ اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کیلئے بس تیار ہی ہیں تو اُنہوں نے اس خوف سے کہ مجھے پہنچنے میں اگر ذرا سی دیر ہوئی تو ابراہیمؑ اسماعیل ؑ کو ذبح کر ڈالیں گے، اس لئے انھوں نے حضرت ابراہیمؑ کو متنبہ کرنے کیلئے  دور سے ہی پکارا: اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ حضرت ابراہیم ؑنے جب انہیں دیکھا تو فرمایا: لا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبر۔ اور جب اسماعیلؑ کو فدیے کے جانور کا علم ہوا تو انھوں نے کہا: اللہ اکبر، وللہ الحمد۔(البحر الرائق) اس طرح تکبیرِ تشریق کے الفاظ یہ ہوئے: اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔(کنز العمال)
تکبیر ِ تشریق کی مشروعیت
تکبیرِ تشریق کی مشروعیت اس وقت کی تعظیم کیلئے ہے، جس میں مناسکِ حج ادا کئے جاتے ہیں۔ اسلئے اس کی شروعات یومِ عرفہ سے ہوتی ہے کہ اس دن حاجی عرفات کے میدان میں قیام کرتے ہیں۔ (بدائع الصنائع) حضرت عکرمہؒ حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عرفہ کے دن صبح سے ایام تشریق کے آخری دن تک تکبیریں کہتے تھے۔(سنن کبری بیہقی)
تکبیر ِ تشریق کا حکم
۹؍ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ تکبیرِ تشریق ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، آزاد ہو یا غلام، جماعت سے نماز پڑھنے والا ہو یا منفرد۔ البتہ ان دنوں کی کوئی نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کے وقت تکبیرِ تشریق پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح پہلے کی کوئی قضا نماز جو کہ واجب الادا تھی،اسے ان دنوں میں قضا کرے، تو بھی تکبیرِ تشریق نہیں پڑھی جائے گی۔ یہ تکبیر مرد متوسط بلند آواز اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔ (خلاصۃ الفتاویٰ)  بہت سے لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں، یا تو پڑھتے ہی نہیں یا مرد ہو کر آہستہ پڑھ لیتے ہیں، حالاں کہ اس کا درمیانی طریقے پر بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔
اگر نمازِ قضا کو اِن دنوں میں ادا کرے؟
جن دنوں میں یہ تکبیر کہی جاتی ہے اگر ان دنوں کی کوئی نماز رہ گئی ہو، اب اگر اس کی قضا اسی سال کے ان ہی دنوں میں کی جائے گی تب تو یہ تکبیر کہی جائے گی، ورنہ نہیں۔ مثلاً نویں تاریخ کی نماز کی قضا اسی سال کی دسویں کو کی جائے تو تکبیر بھی نماز کے بعد کہی جائے اور اگر اس کی قضا ان دنوں کے گزرنے کے بعد یا اگلے سال کے ان ہی دنوں میں کی جائے، اسی طرح ان دنوں سے پہلے کی قضا نماز اگر ان دنوں میں پڑھے، تو یہ تکبیر نہ کہے۔ (الفضائل و الاحکام للشہور والایام)
تکبیرِ تشریق نماز کے بعد کب تک ؟
فرض نماز کے بعد فوراً  تکبیرتشریق کہہ لینی چاہئے، لیکن اگر دعا مانگتے ہوئے کسی کو یاد آئےتو اُسی وقت پڑھ لے، واجب ادا ہو جائے گا۔نماز کا سلام پھیرنے کے بعد جب تک قبلے سے سینہ نہ پھیرا ہو اور نہ کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے نماز کی بنا ممنوع ہوجاتی ہے، اس وقت تک یہ تکبیر کہی جا سکتی ہے۔ نماز کے سلام کے بعد اگر کسی نے قہقہہ لگایا یا عمداً حدث کیا، یا کلام کیا تواب یہ تکبیر نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اگر سلام کے بعد خود بخود حدث ہوگیا ہو تو یہ تکبیر کہہ لے، کیوں کہ ان کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔(الہندیہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK