Inquilab Logo Happiest Places to Work

تقویٰ صرف ڈر نہیں بلکہ محبت الٰہی کا نام بھی ہے!

Updated: March 01, 2024, 1:51 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

شریعت اسلامی کے اعتبار سے ایک مثالی انسان بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم تقویٰ والی زندگی اختیار کریں۔

If piety is attained, no one is more fortunate than us. Photo: INN
تقویٰ حاصل ہوجائے تو ہم سے بڑا خوش نصیب کوئی نہیں۔ تصویر : آئی این این

شریعت اسلامی کے اعتبار سے ایک مثالی انسان بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم تقویٰ والی زندگی اختیار کریں۔ آئے دن ہم تقویٰ کا لفظ علماء سے سنتے اور دینی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ آئیے! ہم سمجھتے ہیں کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے۔ تقویٰ کا استعمال شریعت میں دو معنی میں ہوتا ہے، ایک ڈرنا دوسرے بچنا، اصل مقصد تو معاصی سے بچنا ہی ہے، ڈرنا اس کا سبب ہے، کیونکہ جب کسی چیز کا خوف دل میں ہوتا ہے تبھی اس سے بچاجاتا ہے، پس تقویٰ کا حاصل یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس ڈر کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے منکرات ومعاصی اور فواحش سے بچنا۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات میں تقویٰ مذکورہ معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کو اختیار کرنے پر بہتر نتائج کی خوشخبری دی گئی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے؛ اس لئے میں ان لوگوں کے لئے رحمت کا فیصلہ کروں گا، جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور جو ہماری باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ‘‘ (الاعراف:۱۵۶)
 تقویٰ اختیار کرنے سے انسان مثالی اس وجہ سے بھی بنتا ہے کہ اس کی زندگی متوازن بن جاتی ہے اور وہ نہ کسی ملامت کرنے والے سے ڈرتا ہے اور نہ کسی تعریف کرنے والے سے بےجا متاثر ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا مطمح نظر صرف یہ بن جاتا ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی اسے کسی طرح حاصل ہوجائے۔ یہاں سے تقویٰ کا ایک معکوس مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ رب العزت کی محبت کا اسیر ہو جائے۔ اس اعتبار سے تقویٰ نام ہے محبت باری تعالیٰ کا۔ اسی فلسفے کو قرآن مجید کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے:’’خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے، (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقوٰی شعار رہے۔ ‘‘ (یونس:۶۲۔ ۶۳)

یہ بھی پڑھئے: امت ِمسلمہ کو اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہونا چاہئے

 آج عمومی طور پرعام مسلمان کی حالت یہ ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے اللہ کی مدد کا انتظار کرتے ہیں ؛ حالانکہ یہ عادت الٰہی کے خلاف ہے کہ وہ بے عمل کو کوئی بدلہ دے۔ اس پس منظر میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم تقویٰ والی زندگی اختیار کریں گے تو بدیہی طور پر ہمیں اللہ رب العزت کی پناہ اور مدد حاصل ہو جائے گی۔ قرآن مجید کا یہی اعلان ہے: ’’بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو اچھے عمل کرتے رہیں۔ ‘‘ (النحل:۱۲۸) یقیناً اگرہم تقویٰ اختیار کرکے اللہ رب العزت کی معاونت حاصل کر لیتے ہیں تو ہم سے بڑا خوش نصیب کوئی اور نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ جس کو اللہ کا ساتھ مل جائے اسے نہ کوئی ڈرا سکتا ہے اور نہ ہرا سکتا ہے۔ 
 تقویٰ کے تعلق سے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ تقویٰ کے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ ایک درجہ یہ ہے کہ انسان کفر اور شرک سے بچے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ اعمال صالحہ کو ترک نہ کرے اور محرمات کا ارتکاب نہ کرے، پھر جیسے جیسے اعمال ہوں گے ویسا ہی تقویٰ پیدا ہوتا رہے گا، اور اس تقوے کے کمال سے ایمان بھی کامل ہوتا رہے گا۔ یاد رہے کہ تقویٰ کے مختلف درجات کو طے کرنے کے لئے دنیا سے کنارہ کشی شرط نہیں ہے بلکہ دنیا کے کاروبار میں رہتے ہوئے یہ منازل طے کی جاسکتی ہیں۔ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا ایک سمندر کی طرح ہے اور اس سمندر میں ہماری زندگی کی کشتی ہے۔ اب اگر اس سمندر سے ہم اپنی کشتی نکال لیں گے تو ہماری کشتی نہیں چلے گی اور اگر ہماری کشتی سمندر میں تو ہے لیکن اس میں سمندر کا پانی داخل ہو جائے تو بھی ہماری کشتی ڈوب جائے گی۔ اس لئے ہمیں اس دنیا میں اس طرح رہنا ہے کہ نہ ہم اس دنیا سے باہر جائیں اور نہ اس میں مکمل ڈوب جائیں ؛ اس کے لئے ہی ہمیں تقویٰ کی راہ پر چلنا ضروری ہے۔ 
 تقویٰ کے اس پہلو کو بہت ہی واضح انداز سے صحابی رسول حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا یا ہے۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ کبھی کانٹوں والے راستے پر نہیں چلے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کیوں نہیں۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے پوچھا کہ اُس وقت تمہارا عمل کیا ہوتا ہے؟ حضرت عمر فاروق ؓ نے کہا کہ میں اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرا دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے کہا کہ بس یہی تقویٰ ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
تقویٰ کی اہمیت کے پیش نظر، ہمیں اپنی زندگی میں ہمہ وقت اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کی عملی شروعات ہم آنے والے رمضان سے کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ روزہ کا ایک اہم مقصد تقویٰ کا حصول ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو ! جیسے تم سے پہلی اُمتوں پر روزے فرض کئے گئے تھے، تم پر بھی روزے فرض کئے گئے ہیں ؛ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔ ‘‘(البقرہ:۱۸۳)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK