Inquilab Logo Happiest Places to Work

امت ِمسلمہ کو اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہونا چاہئے

Updated: February 23, 2024, 12:02 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

اس لئے کہ اللہ رب العزت نے اسے اسلام اور قرآن کی حفاظت کے لئے منتخب فرمایا ہے اور ختم نبوت کا علمبردار بنایاہے۔

Praiseworthy are those people who make the work of religion auspicious. Photo: INN
قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو دین کے کام کو حرزِ جاں بناتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اسلام بنی نوع انسان کے لئے کامل اور آخری مذہب ہے، اس کے بعد اللہ رب العزت کی جانب سے کوئی نیا مذہب آنے والا نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعلان خود باری تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمادیا ہے۔ ارشاد ہے: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کیا۔ ‘‘ (المائدہ: ۳)۔ عقلی طور پر اسی آیت سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ جس کتاب میں دین اسلام کے آخری دین ہونے کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ کتاب بھی خدا کی آخری کتاب ہوگی۔ جہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےآخری نبی اور رسول ہونے کا تعلق ہے تو وہ بھی آخری کتاب قرآن مجید میں صاف طور پر مذکور ہے: ’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں ؛ لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہیں۔ ‘‘ (الاحزاب:۴۰)
 نص قطعی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلام خدا کاآخری مذہب ہے، قرآن خدا کی آخری کتاب ہے اور نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اس مقام پر ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال قائم ہوسکتا ہے کہ آمد اسلام کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک ایک نامعلوم مدت مدید ہے، اس درمیان اسلام کی صحیح شکل، قرآن مجید کی درستگی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات من وعن کس طرح باقی رہ سکتی ہیں جبکہ عاداتِ انسانی کے مطابق مرور ایام سے چیزوں میں تغیر عام سی بات ہے۔ اس حوالے سے اسلامی تعلیمات میں تشفی بخش جوابات موجود ہیں۔ 
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مذہب اسلام کا منبع قرآن مجید ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے تعلق سے فرمایا ہے: ’’ہم ہی نے قرآن اُتارا ہے اور یقیناً ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ ‘‘ (الحجر:۹)۔ یہاں علماء نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ گزشتہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری خود ان اُمتوں کو سپرد کی گئی تھی مگر وہ لوگ اس کی حفاظت نہیں کرپائے، قرآن مجید سے چوں کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت متعلق ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت خود اپنے ذمہ رکھی ہے۔ اللہ رب العزت اگر چاہتے تو بغیر کسی ذریعے کے بھی قرآن کی حفاظت فرما لیتے لیکن انسانوں سے حفاظت قرآن کا کام لے کے انہیں اعزاز سے نوازاہے۔ چنانچہ جہاں حفاظ و قراء الفاظ قرآنی کی حفاظت کرتے ہیں وہیں مفسرین، محدثین اور فقہاء معانی ٔ  قرآن کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس دورِ انحطاط میں جبکہ ہر چیز میں زوال ہے، حفاظ ِ قرآن کی تعداد میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ حفاظت ِ قرآن کی اس سے بہتر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے جو عقل میں بیٹھ جائے؟
  یہاں حفاظت قرآن کے تعلق سے ایک چشم کشا واقعی بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مامون رشید کی مجلس میں ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی نفیس، عمدہ اور اَدیبانہ گفتگو کی۔ مامون رشیدنے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا۔ جب ایک سال بعد دوبارہ آیا تو وہ مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے فقہ کے موضوع پر بہت شاندار کلام کیا۔ مامون رشید نے اس سے پوچھا’’تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا ہوا؟‘‘اس نے جواب دیا’’جب پچھلے سال میں تمہاری مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کر لیا، چنانچہ میں نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی، اس کے بعد مَیں یہودیوں کے مَعْبَد میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ تینوں نسخے خرید لئے۔ پھر میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی۔ جب میں یہ نسخے لے کر عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں نےبھی وہ نسخے خرید لئے۔ پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے لکھے اور اس کی عبارت میں بھی کمی بیشی کر دی۔ جب میں قرآن پاک کے وہ نسخے لے کر اسلامی کتب خانے میں گیا تو انہوں نے پہلے ا ن نسخوں کا بغور مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کر دئیے اور خریدنے سے انکار کر دیا۔ اس سے میری سمجھ میں آ گیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے میں نے اسلام قبول کرلیا۔ ‘‘ (قرطبی)

یہ بھی پڑھئے: ڈپریشن: اسلام نے ۱۴؍سو سال قبل اس کاعلاج بتادیا تھا

اب تک کی بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرآن مجید کی حفاظت کا اللہ رب العزت نے اتنا مضبوط انتظام فرمایا ہے کہ مرور ایام اور حوادث زمانہ کا اس پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ جب قرآن اصلی شکل میں موجود ہے تو ظاہر ہےکہ جس مذہب کی بنیاد یہ کتاب مقدس ہے تو وہ مذہب بھی اصلی شکل میں موجود ہوگا اور اسی طرح جس ذات گرامی کواللہ رب العزت نے مذہب اسلام کا پیغمبر بنا کر بھیجا تھا اس کا آخری نبی ہونا بھی مسلم ہوگا کیونکہ یہ بات بھی اس محفوظ کتاب میں موجود ہے۔ 
چونکہ ہم نہ تو سوچتے ہیں نہ ہی غور کرتے ہیں اس لئے امت مسلمہ ہونے پر ناز نہیں کرتے کہ اللہ رب العزت نے اس اُمت کو اسلام اور قرآن کی حفاظت کے لئے منتخب فرمایا ہے اور ختم نبوت کا علمبردار بنایا ہے۔ اس لئے ہم میں سے کوئی اگر دین کا کوئی کام کرتا ہے جو کہ کسی نہ کسی درجے میں بقائے اسلام، حفاظت قرآن اور ختم نبوت کے کاز کو تقویت پہنچاتا ہے تو ہمیں فخر کے بجائے عاجزی کا مجسمہ بننا چاہئے کیونکہ ہم، سبحان اللہ، الطاف باری تعالیٰ کے سائے میں ہیں۔ 
 اگر ہماری یہ کیفیت نہیں ہے تو ہمیں اس دن سے ڈرنا چاہئے جس دن رب العالمین ان کاموں کیلئے کسی دوسری قوم کو منتخب فرمالیں گے کیونکہ اسی آخری کتاب میں ہمیں یہ پیغام بھی واضح لفظوں میں دے دیا گیا ہے:’’اگر تم سرکشی کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو پیدا کردیں گے، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوگی۔ ‘‘ (محمد: ۳۸)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK