Inquilab Logo

بھیما کوریگاؤں کے ملزمین اِس حال میں ہیں

Updated: June 11, 2023, 10:36 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

ان میں کوئی ادیب ہے تو کوئی سماجی خدمتگار، کوئی ماہر قانون ہے تو کوئی پروفیسر۔ اس کے باوجود اِن کے ساتھ ایسا غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے کہ تفصیل پڑھ کر آپ بھی دہل جائینگے۔

This month will mark five years since the first arrests in the Bhima Koregaon case.
اِس مہینے میں بھیما کوریگاؤں کیس میں ہونے والی اولین گرفتاریوں کو پانچ سال پورے ہوجائینگے۔

اِس مہینے میں بھیما کوریگاؤں کیس میں ہونے والی اولین گرفتاریوں کو پانچ سال پورے ہوجائینگے۔ اس کیس میں مجموعی طور پر ۱۶؍ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں اسٹین سوامی بھی شامل تھے۔ قارئین جانتے ہیں کہ جب اسٹین سوامی کی موت واقع ہوئی تب وہ جیل ہی میں تھے۔ بقیہ گرفتار شدگان میں سے بیشتر اب بھی جیل میں ہیں جبکہ کسی کا جرم اب تک ثابت نہیں ہوا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو بھیما کوریگاؤں میں ہونے والے تشدد کے واقعہ میں ملوث رہا ہو۔ اگر کوئی مقدمہ یہ ظاہر کرتا ہو کہ ایک خطرناک قانون میں گرفتار کئے گئے لوگوں کو کس طرح غیر معینہ مدت کیلئے جیل میں رکھا جاسکتا ہے تو وہ یہ مقدمہ ہے۔ 
 یہ کافی اہم ہے کہ ہم اس کیس کو فراموش نہ کریں اور اُن لوگوں کو بھی یاد رکھیں جنہیں اس کیس کے تحت ماخوذ کیا گیا ہے۔ یو اے پی اے کے ۱۰؍ فیصد کیس ہی اب تک ختم ہوئے ہیں اور صرف ایک چوتھائی مقدمات میں ملزمین کو سزا ہوئی ہے۔ خاص طور پر اس کیس میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُن میں سماجی کارکن ہیں، پروفیسر اور ماہر قانون (لائرس) ہیں اور شاعر و ادیب ہیں۔ ان پر ملک کے خلاف سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔
 جس شکایت پر یہ کیس بنا، وہ ایک ایسے شخص نے کی تھی جس کا کہنا ہے کہ وہ ہندوتوا کے ایک سادا سے ضابطے یا اُصول پر کام کررہا ہے۔ وہ یہ کہ ’’جو چیز ہندوؤں کے مفاد میں ہو اُسے باقی رکھا جائے، بقیہ تمام کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘ اس شخص کی شکایت کے بعد متذکرہ لوگوں کے خلاف الزامات لگے جو سنگین نوعیت کے تھے۔ ان الزامات میں حکومت کا تختہ پلٹنا اور وزیر اعظم کو نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ اس کیس کی دیگر باتوں میں یہ شامل ہے کہ جب مہاراشٹر میں بی جے پی کو شکست ہوئی تو یہ کیس پونے پولیس سے لے لیا گیا۔ اُدھو  ٹھاکرے کے اقتدار کا آغاز ۲۸؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو ہوا تھا۔ اس کے چند ہفتوں بعد ہی ریاست ِ مہاراشٹر کو بتایا گیا کہ یہ کیس این آئی اے کو سونپا گیا ہے۔ یہ ۲۴؍ جنوری ۲۰۲۰ء کی بات ہے۔ اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ کھیل کیا ہے مگر جو بات زیادہ اذیت پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ ملزمین کے ساتھ بُرا سلوک کیا گیا۔ اس کی تفصیل ’’نیوز لانڈری‘‘  نامی صحافتی ادارے نے یکجا کی ہے جو کچھ اس طرح ہے:
 اسٹین سوامی پرکنسن (جسم میں رعشہ) کے عارضہ میں مبتلا تھے۔جیل میں اُنہوں نے ایک گلاس اور سِپر (پانی یا کوئی مشروب پینے کی نلکی یا چمچہ) کی مانگ کی تھی جو اُنہیں کئی ہفتوں تک نہیں دی گئی۔ شوما سین کو جوڑوں میں درد (آرتھرائٹس) کی شکایت تھی۔ وہ  دیسی طرز کے بیت الخلاء کا استعمال نہیں کرسکتی تھیں۔ اُن کی صاحبزادی کموڈ لے آئیں مگر جیل حکام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ سریندر گاڈلنگ کو یو اے پی اے اور آئی ٹی قوانین سے متعلق کتابیں، سوامی وویکانند کی چار کتابیں اور چند کاغذات کی ضرورت تھی۔ استغاثہ نے اُن کے مطالبہ کی پُرزور مخالفت کی اور یہ تک کہنے میں تردد نہ کیا کہ اُسے علم نہیں کہ وویکانند کی کتابیں ہندوستان میں دستیاب ہیں یا ممنوع۔ معاملہ عدالت میں گیا اور جب عدالت نے ان چیزوں کے فراہم کئے جانے کی اجازت دے دی تب بھی جیل حکام نے اُن تک یہ چیزیں پہنچنے نہیں دیں۔ 
 گاڈلنگ کو سویٹر فراہم کرنے کی اجازت بھی عدالت نے دی تھی مگر اُنہیں یہ کہتے ہوئے اس سے بھی محروم رکھا گیا کہ جیل میں صرف تھرمل سویٹرس کی اجازت ہے اونی سویٹر کی نہیں۔جب اُن کی بیگم پوری آستین کا ایک تھرمل سویٹر لے آئیں تو کہا گیا کہ آدھی آستین کے تھرمل سویٹر ہی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
 گوتم نولکھا کی عمر ۷۰؍ سال ہے۔ جیل میں اُن کا چشمہ چوری ہوگیا تھا۔ چشمے کے بغیر اُنہیں کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ اُنہوں نے چاہا کہ فون کرکے دوسرا چشمہ گھر سے منگوا لیں مگر تین دن تک اُنہیں فون کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ جب چشمہ جیل بھیجا گیا تو حکام کو مطلع کردیا گیا تھا کہ ایک پیکٹ روانہ کیا گیا ہے اس کے باوجود حکام نے یہ پیکٹ قبول کرنے سے انکار کردیا۔
 جب گاڈلنگ کی ماں کا انتقال ہوا تو اُنہوں نے آخری رسوم میں شریک ہونے کی اجازت کیلئے درخواست کی جسے یہ کہہ کر لوَٹا دیا گیا کہ اس کے ساتھ موت کا سرٹیفکیٹ نتھی نہیں کیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ اس کے بغیر این آئی اے موت کی خبر پر یقین نہیں کریگی۔ چونکہ لاک ڈاؤن جاری تھا اس لئے اہل خانہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کرسکے البتہ جب سرٹیفکیٹ جمع کیا گیا تو این آئی اے کا کہنا تھا کہ اب تو آخری رسوم ادا کردی گئی ہیں اب کیوں عارضی ضمانت دی جائے؟ جب گاڈلنگ نے تعزیتی جلسے میں شرکت کی اجازت طلب کی تو کہا گیا کہ درخواست کے ساتھ جلسے کا دعوتنامہ منسلک نہیں ہے۔ 
 جب سدھیر دھولے کے بھائی کا انتقال ہوا تو آخری رسوم میں شرکت کیلئے دی گئی عرضی کے ساتھ ضروری اسناد اور دستاویز بھی نتھی کی گئی مگر اسے بھی یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا گیا کہ اُن پر لگا ہوا الزام اتنا سنگین ہے کہ عرضی قبول نہیں کی جاسکتی۔ کچھ ایسا ہی حال مہیش راؤت کا بھی تھا جن کی بہن کی شادی تھی مگر مہیش جیل ہی میں تھے۔ ورنون گونسالو ِس کی ماں کا انتقال مئی ۲۰۲۱ء میں ہوا۔ اُنہوں نے افراد خانہ کو سمجھا دیا کہ وہ ضمانت حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔
 فروری ۲۰۲۱ء میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ رونا وِلسن کے لیپ ٹاپ سے پولیس کو جو خطوط ملے تھے وہ جعلی طور پر لیپ ٹاپ میں داخل کئے گئے تھے۔ ایک آزادانہ تجزئیے  میں کہا گیا کہ کسی جعلی سافٹ ویئر (مال ویئر) کے ذریعہ ایسا ممکن بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ خطوط مائیکروسافٹ ورڈ کے ایسے ورژن سے تیار کئے گئے تھے جو رونا وِلسن کے لیپ ٹاپ میں تھا ہی نہیں۔  اپریل ۲۱ء میں ڈجیٹل فورینسک کے ایک ادارے نے کہا کہ اس کے پاس ناقابل تردید ثبوت ہے کہ وِلسن کا کمپیوٹر ہیک کیا گیا تھا۔ بھیما کوریگاؤں واقعہ کے گیارہ دن بعد ( ۱۱؍ جنوری ۱۸ء کو) اس میں  کچھ فائلیں سیو کی گئی تھیں۔ 
 ان شواہد کے باوجود بیشتر ملزمین ہنوز جیل میں ہیں۔ یاد رہنا چاہئے کہ یہ واحد کیس نہیں جس کے تحت اُن لوگوں کو سخت دشواری  سے گزارا جارہا ہے جو کچھ بولنے کی جرأت کرتے ہیں۔ نوجوان طالب علم عمر خالد کا کیس بھی کم و بیش ایسا ہی ہے جو ایک ہزار دن سے جیل میں ہیں۔ اِن مقدمات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ اُن لوگوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا جارہا ہے جو بولتے ہیں، آواز اُٹھانے کی جرأت کرتے ہیں۔ کمزور اور حاشئے پر موجود لوگوں کے حق میں بولنا مذکورہ شخصیات کے حق میں کتنا مہنگا ثابت ہورہا ہے!n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK