Inquilab Logo

سیاست کی فلم کے اضافی کردارذوق بصارت پر بار ثابت ہو رہے ہیں

Updated: May 29, 2023, 5:35 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اگر ملکی سیاست کو ایک فلم تصور کیا جائے اور جائزہ لیا جائےکہ اس فلم کے اداکار کس طرح عوام کو متاثر کرتے ہیں تو عوام کی آنکھیں کھل جائیں گی

While the BJP was playing the game of Bajrang Bili in the name of Bajrang Dal, the Janata Dal Secular was optimistic till the last day that it would become the king.
بی جے پی جہاں بجرنگ دل کے نام پر بجرنگ بلی کا کھیل کھیل رہی تھی وہیں جنتادل سیکولر آخری دن تک اس خوش فہمی میں تھی کہ وہ بادشاہ گر بنے گی

ہندوستانی معاشرے میں فلموں کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اپنی دلچسپی کے اعتبار سے سماج کا کم و بیش ہر طبقہ فلموں سے حظ اٹھا تا ہے۔ فلم انڈسٹری نہ صرف ملکی اقتصادیات میں اہم مقام رکھتی ہے بلکہ سماج پر فلموں کے اثرات بھی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اس معاملے میں سماج کے وہ طبقات بھی پوری طرح مستثنیٰ نہیں ہیں جن میں مذہبی عقیدے کی رو سے فلمیں دیکھنا ممنوع ہے۔ اس طبقے کے افراد بھلے ہی پردہ ٔ سیمیں پر فلم دیکھنے سے گریز کرتے ہوں لیکن ان کے گھروں میں بھی فلمی شخصیات کے طرز حیات کی نقل کا چلن عام ہے۔اور اب تو ملک کی سیاسی سمت و رفتار کو وسیع پیمانے پر متاثر کرنے والی فلمیں تواتر کے ساتھ بن رہی ہیں۔ اس کا مشاہدہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران واضح طور پر کیا گیا کہ ناظرین کو تفریح کا سامان فراہم کرنے والی فلمیں کس طرح سماج میں بعض ایسے نظریات کی تشہیر کا سبب بنیں جس سے کسی خاص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سماج اور سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی فلموں میں دکھائے گئے مناظر صرف ذوق بصارت کی تسکین کا سامان ہی فراہم نہیں کرتیں بلکہ ان مناظر کے توسط سے جن افکار کو عوام کے درمیان مقبول بنانے کی کوشش ہوتی ہے وہ وسیع پیمانے پر عوامی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ فلموں کی اس اہمیت کے پیش نظر اگر ملک کی موجودہ سیاست کو ایک فلم کے مشابہ قرار دیا جائے تو اس کا تجزیہ بھی ضروری ہے کہ اس فلم میں اداکاری کرنے والے افراد کس طریقہ سے عوام کو متاثر کرتے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اثر پذیری کا یہ عمل ملک کی خوشحالی اور ترقی میں معاون ثابت ہو رہا ہے یا اس کے منفی اثرات ملک اور معاشرے پر ظاہر ہو رہے ہیں؟
 فلم اور سیاست کی اس مشابہت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر موجودہ حقائق پر نظر ڈالی جائے تو جو پہلی حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ جمہوریت کی اسکرین پر چلنے والی اس سیاسی فلم کے ناظرین ہمہ وقت اس زعم میںمبتلا رہتے ہیں کہ فلم کے مناظر اور کہانی کو ان کی خواہش اور ضرورت کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے ۔ بعض عیار قسم کے سیاسی فلم ساز ناظرین کو اس کیفیت سے باہر نکلنے کا موقع بھی نہیں دیتے اور اپنی مرضی اور فائدے کی بنیاد پر تیار کی گئی ان سیاسی فلموں میں بعض ایسے تجسس آمیز مناظر عمداً شامل کر دیتے ہیں جن سے ناظرین ( عوام) پر یہ تاثر دائمی طور پر طاری رہ سکے کہ جمہوریت کے حوالے سے دکھائی جانے والی سیاسی فلموں میں ناظرین کو فیصلہ کن کردار کی حیثیت حاصل ہے۔ جب کبھی ناظرین کو حقیقت حال کا علم ہوتا ہے تو انھیں اپنے ذوق بصارت پر پچھتاوا اور افسوس بھی ہوتا ہے لیکن تب تک اسکرین پر منظر بدل چکا ہو تا ہے ۔ یہ تبدیل شدہ مناظر پھر انھیں اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ در حقیقت ناظرین ہی اس سیاسی فلم میں فیصلہ کن کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
 سیاست کی فلم کو اس قدر پیچیدہ بنانے میں ان اضافی کرداروں کا اہم رول ہوا کرتا ہے جو ناظرین کے ذوق کی تسکین کی خاطر اسکرین پر رونما ہوتے ہیں اور اپنے بعض جذباتی اور ہیجانی طرز عمل سے ناظرین کی توجہ کا مرکز بن جایا کرتے ہیں۔ان کرداروں کی حیثیت سیاست کی فلم میں ان تفریحی عناصر کی مانند ہوتی ہے جو سیاست کی فلم کو سنسنی خیز بنائے رکھتے ہیں لیکن اب ملک کی سیاسی فلم جس انداز کی حامل ہو گئی ہے ان میں یہ کردار غیر ضروری محسوس ہونے لگے ہیں۔ اس کے باوجود ناظرین کا ایک طبقہ ان کرداروں کے تئیں اپنی لگاوٹ اور دلچسپی پر قابو پانے سے قاصر ہے اور یہ اضافی کردار اسی نفسیاتی کیفیت کا فائدہ اٹھا کر سیاست کی فلم میں اپنی موجودگی بنائے رکھنے میں کامیاب ہیں۔
 فلمی صنعت نے جو جدید طر ز اختیار کر لیا ہے اب اس طرز میں ایسے کرداروں کی گنجائش کے مواقع بہت کم ہو گئے ہیں جبکہ سیاست کی فلم میں ان کی مستقل موجودگی نہ صرف یہ کہ کہانی کو کوئی فیصلہ کن اختتام تک لے جانے میں مخل ثابت ہو رہی ہے بلکہ ان کی اداکاری کے فریب میں پھنسنے کے بعد عوام کا ایک طبقہ اپنے قیمتی ووٹوں کو ان عارضی اور جذباتی قسم کے معاملات کی نذر کر دیتا ہے جن کا مجموعی طور پر سماج کی خوشحالی اور ملک کی ترقی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ کردار اکثر و بیشتر ایسے حلیہ میں اسکرین پر ظاہر ہوتے ہیں کہ جسے دیکھ کر سادہ لوح ناظرین انھیں اپنے سماج کا سچا خیر خواہ سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی سادہ لوح افراد ایسے اداکاروں کی حمایت پورے جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیاست کی فلمی کہانی میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کی اہلیت نہ رکھنے کے باوجود یہ اداکار اپنے حامیوں کا سہارا لے کر پورے منظر نامہ کو مخدوش بنا نے کا کام کرتے ہیں۔ ان بہروپئے قسم کے اداکاروں کا نہ تو کوئی سیاسی موقف ہوتا ہے، نہ ہی سیاسی کہانی میں تادیر باقی رہنے کا دم خم ہی ان کے اندر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ اپنے حامیوں کے درمیان اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کیلئے ان موضوعات کو ترجیح دیتے ہیں جو سماج میں تفریق اور تشدد کے پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔اس طرز کے اضافی کردار ہر سطح کی سیاسی فلم میں بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
 ان اضافی کرداروں کا اصل مقصد اپنی موجودگی سے سیاست کی فلم کے مرکزی کرداروں کی رفتار و گفتار کو ہر سطح پر متاثر کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل کو یہ اس پر فریب طریقے سے انجام دیتے ہیں کہ ناظرین کو یہ دھوکا ہونے لگتا ہے کہ سیاسی فلم کی جو کہانی وہ دیکھ رہے ہیں اس کے خوشگوار انجام کیلئے ان کرداروں کا وجود لازمی ہے۔ ناظرین کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر دینے کے بعد یہ اضافی کردار مختلف مراحل پر فلم کے مرکزی کرداروں سے سودے بازی شروع کر دیتے ہیں۔ سودے بازی کا یہ عمل بیشتر پس پردہ انجام پاتا ہے لہٰذا ناظرین پر یہ حقیقت عموماً ظاہر نہیں ہو پاتی کہ جن کرداروں سے وہ ہمدردی اور اخلاص کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہی کردار ان کے اخلاص کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے تب تک اتنی دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ ناظرین کے پاس سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ اور نہیں ہوتا۔
 اس وقت ملک کے سیاسی منظرنامے پر ریاستی اور قومی سطح کے ان کرداروں کی بہتات ہو گئی ہے جو سیاست کی فلمی کہانی کے مختلف مراحل پر صرف پیچیدگیاں پیدا کررہے ہیں۔جب تک سیاست کی فلمی کہانی میں یہ پیچیدگی باقی رہے گی تب تک یہ اضافی کردار کبھی مذہب کے نام پر کبھی زبان اور علاقے کے نام پر عوام کا استحصال کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی مرکزی کرداروں کی راہ میں ایسی اڑچنیں بھی پیدا کرتے رہیں جو اُن کے طے شدہ اہداف کے حصول کے عمل کو مشکل بناتی رہیں گی۔ان اضافی کرداروں کی اداکاری کے فریب سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ ناظرین اپنے ذوق بصارت کو اس قدر بالیدہ کر لیں کہ وہ ان کی ظاہری اداکاری میں پوشیدہ ان مصنوعیت کو پہچان سکیں جس کا عوامی فلاح و ترقی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
 یہ کوئی ایسا ناممکن کام نہیں ہے جسے کیا نہ جا سکے۔ ابھی حال میں کرناٹک میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر سیاست کی فلم کے ناظرین کا ذوق بصارت پختہ ہو تو وہ اس طرز چھلاوے میں نہیں آتے۔ سیاست کی فلم کے ان اضافی کرداروں کی پر فریب اداکاری کی دکان کا بند ہونا موجودہ سیاسی منظرنامہ کی ناگزیر ضرورت ہے ۔ اگر ملک گیر سطح پر ناظرین( عوام) اس حقیقت تک رسائی حاصل کر لیں تو غیر ضروری اور جذباتی طرز کے معاملات کو سیاسی کہانی میں جو ترجیح حاصل ہو گئی ہے وہ خود بخود اپنی اہمیت کھو دے گی ۔ اور یہ تبدیلی ہی دراصل عوام کی فلاح اور ترقی کے ان دریچوں کو وا کر سکے گی جو ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی فضا تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوں گے ۔بعض عیار قسم کے سیاستدانوں کے پرورہ دہ یہ اضافی کردار سماج میں مختلف قسم کے مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں ۔ اور پھر ہوتا یہ ہے کہ عوام ان مسائل میں الجھے رہتے ہیں اور یہ اپنی مصنوعی اداکاری سے ان مسائل کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بناتے جاتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اپنے ارد گرد کے حالات کا باریک بینی سے مشاہدہ کریں اور ان عناصر کو دریافت کرنے کی صلاحیت خود میں پیدا کریں جو اس طرز کی مصنوعی اداکاری سے نہ صرف سیاست کی فلمی کہانی کو پیچیدہ بناتے ہیں بلکہ عوام کے قیمتی ووٹوں کے ضائع ہونے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ اس طرز کی بیداری کے بغیر ان اضافی اور غیر ضروری قسم کے سیاسی اداکاروں سے نجات پانا مشکل ہوگا ۔ اور یہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر عوام کو مسلسل بیوقوف بناتے رہیں گے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK