Inquilab Logo

امریکی قوم خفگی اور ندامت کی کیفیت میں مبتلا ہے

Updated: September 14, 2021, 4:39 PM IST | Hassan Kamal

امریکہ کےاس وقت چین سے تعلقات نہایت نیچی سطح پر ہیں۔ اس کے باوجود جوبائیڈن کا شی جن پنگ سے بات کرنا اوراتنی دیر تک بات کرنا اپنے اندر کئی کہانیاں لئے ہوئے ہے۔

Joe Biden and Xi Jinping. Picture:INN
جو بائیڈن اور شی جن پنگ ۔تصویر: آئی این این

کہا جا رہا ہے کہ امریکی عوام جو بائیڈن سے بہت ناراض ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آگیا ہے۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کی فوجیں جس عالم بد حواسی سے افغانستان سے نکلی ہیں ،اسے پسند نہیں کیا گیا ہے۔ نیٹو ممالک میں برہمی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان ممالک کے عوام سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو جتنی فکر اپنی فوجوں اور اپنے شہریوں کی خیر و عافیت سے افغانستان سے نکلنے کی تھی ، اتنی فکر اپنے اتحادیوں کی فوجوں اور شہریوں کے نکلنے کی نہیں تھی۔ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک فوری اضطراری رد عمل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس برہمی اور ناراضگی میں کمی دیکھی جانے لگے گی۔ اس کی وجوہات بھی ہیں۔رائے عامہ کے مختلف سروے بتا رہے ہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت افغانستان سے نکلنے کے فیصلے کو غلط نہیں سمجھتی۔ بس جس طرح سے نکلا گیا ہے اسے ہتک آمیز سمجھا جارہا ہے، بلکہ یہ سمجھا اور کہا جا رہا ہے کہ اس طرح نکلنے کو دنیا امریکہ کی شکست سمجھ رہی ہے۔برطانوی وزیر خارجہ بین ویلیس نے تو کہہ بھی دیا کہ عسکری نقطۂ نظر سے اب امریکہ سپر پاور نہیں ،صرف ایک بڑی طاقت رہ گیا ہے۔ دوسرے انخلاء کا فیصلہ جو بائیڈن نے نہیں ڈونالڈٹرمپ نے کیا تھا۔
 در حقیقت امریکی اس وقت خفگی اور ندامت کی ایک ملی جلی جذباتی کیفیت میں گرفتار ہیں۔ خفگی صرف اس پر نہیں ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے بہت بے آبرو ہو کر نکلی ہیں۔ خفگی اس پر بھی ہے کہ وہ جن عسکری اداروں پر ہمیشہ نازاں رہے،وہ سب بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔ان اداروں میں سی آئی اے کا نام سر فہرست ہے۔ سی آئی اے کے کارنامے ناولوں اور فلموں کی کہانیوں کے عنوان بن جایا کرتے تھے۔لیکن جب اس نے امریکیوں کو یہ بتایا کہ طالبان کو کابل تک پہنچنے میں کم سے کم ۸۰؍ یا ۹۰ ؍دن لگیں گے اور طالبان اس اطلاع کے صرف ۶  ؍دن بعد کابل پہنچ گئے تو امریکیوں کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین  نہیں آیا۔ان کا بھرم پاش پاش ہو گیا۔ اس کے بعد تو جیسے ان واقعات کا تانتا بندھ گیا، جن کی یا تو  سی  آئی اے نے اطلاع ہی نہیں دی تھی یا دی تھی تو غلط دی تھی۔ان  میں پنٹاگون یعنی  امریکی فوج  کے اعلیٰ عہدیداروں  کی دی ہوئی یہ اطلاع بھی شامل تھی کہ اگر طالبان نے کابل  پر  قبضہ کر لیا  تو سارے ملک میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی اور خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی۔ایسا  کچھ  نہیں ہوا۔بلکہ جو ہوا وہ ان تمام اطلاعات کے برعکس تھا۔ایک ماہ ہونے کو ہے افغانستان میں کہیں کوئی   خانہ جنگی کی خبر نہیں ہے۔ پنج شیر  میں یقیناً   فوجی تصادم ہوئے، لیکن وہاں سے بھی کسی بڑی تباہ کاری اور قتل و غارت گری کی اطلاع  نہیں موصول ہوئی۔ طالبان نے ایک عبوری حکومت بنا لی ہے۔ امریکیوں کو سب سے زیادہ  غصہ اس پر ہے کہ امریکہ کے نہایت تجربہ کار اور جہاندیدہ ڈپلومیٹ اور حکام بھی  بزدل اور بد عنوان اشرف غنی کو نہ صرف پہچان نہیں پائے، بلکہ اس پرمسلسل اعتبار بھی کرتے رہے۔امریکی میڈیا میں اب یہ کہا جارہا ہے کہ اشرف غنی نے تین لاکھ فوجیوں کی جو ’’زبردست‘‘ فوج تیار کی تھی۔ اس میں فوجیوں کی تعداد تین لاکھ سے بہت کم تھی۔ لاتعداد فوجیوں کے نام رجسٹروں میں ضرور درج تھے، لیکن وہ فوج میں نہیں تھے۔ایسے لوگوں کے نام درج کر لئے تھے  جو در اصل پاکستان کے شہروں میں محنت مزدوری یا خوانچہ فروشی کر رہے تھے۔ ان سب کی تنخواہوں کا  بل امریکی ایڈمنسٹریشن کو بھیجا جاتا تھا  اور امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ اس طرح اشرف غنی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا۔ امریکی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اشرف غنی پر اس درجہ اعتبار کی وجہ کیا تھی۔
 ندامت کا سبب یہ ہے کہ امریکی عوام نے جب بھی اپنی حکومت کی کسی بات کو سچ سمجھا وہ جھوٹ نکلی۔ سابق صدر بش نے امریکی عوام کو یقین دلایا تھا کہ عراق پر حملہ اس لئے برحق اور جائز ہے کہ صدام حسین  نےعالمی تباہی کے کیمیائی سامان اکٹھا کر لئے ہیں۔ ایک بین الاقوامی کمیشن نے تفتیش کے اس دعوے کو غلط قرار دیا۔ امریکی پھر بھی یہ مانتے رہے کہ ان کا صدر سچ بول رہا ہے۔ جب عراق کو پوری طرح برباد کر دیا گیا تو معلوم ہوا کہ عراق میں کوئی ایسا عالمی تباہی کا سامان نہیں تھا ۔ ہاں عراق میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کی لاشیں ضرور پائی گئیں۔ افغانستان پر حملے کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں سانحہ ۱۱/۹ کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن موجود ہے اور حملے کا مقصد امریکہ پر دہشت گردانہ کارروائی کرنے والے کو اس کی سزا دینا ہے۔ حالانکہ اس سانحہ میں اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کا کوئی حتمی ثبوت نہیں تھا ، پھر بھی اگر یہ سچ تھا تو اسامہ بن لادن کو مار دینے کے بعد تو افغانستان میں ٹھہرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس سانحہ میں ایک بھی افغان شریک نہیں تھا۔ اگر امریکہ افغانوں کو اس لئے سزا دے رہا تھا کہ وہ امریکی فوجوں کے حملوں سے اپنا دفاع کر رہے تھے تو کیا حملہ آور کا مقابلہ کرنا اور اپنا دفاع کرنا کسی امریکی قانون کی خلف ورزی ہے؟ جس طرح ویت نام میں حصہ لینے سے انکار کرنے پر جب محمد علی کلے کو جیل بھیج دیا گیا تھا اور امریکی ضمیر یکایک جاگ اٹھا تھا، بالکل اسی طرح آج امریکی اہل دانش خود سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا امریکہ ایک بااصول اور با وقار ملک کہلانے کا مستحق ہے؟ اور جب ان کا ضمیر اس سوال کا جواب دیتا ہے تو ان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ندامت کا یہی احساس جو بائیڈن کے اس بیان کا سبب بنا ہے کہ امریکہ اب دنیا میں کہیں ’’پولیس مین‘‘ رول  ادا نہیں کرے گا۔ اسے امریکہ کا اپنی چودھراہٹ  چھوڑنے کا اعلان سمجھنا چاہئے ۔  ان کالموں میں کئی بار کہا جاچکا ہے کہ امریکہ چین سے فوجی ٹکراؤ کبھی مول نہیں لے گا۔ دراصل امریکہ پر یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ اب وہ سپرپاور نہیں رہ گیا ہے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ ایشیا یا دنیا میں وہ جہاں سے بھی لنگر اٹھائے گا، اس  خالی جگہ کو چین ہی  پُر کرے گا۔ افغانستان  میں اُسامہ بن  لادن کے بعد امریکی فوجوں کے رکے رہنے کا صرف ایک مقصد تھا، امریکہ چین پاکستان معاشی راہداری (سی پیک ) کا راستہ روکنا چاہتا تھا ۔ اسے معلوم ہے کہ اس راہداری کے بن جانے کے بعد ایشیا پوری طرح  چین کا معاشی  تسلط قائم ہوجائے گا۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ ایشیاء میں ایک روس، چین، ایران ، ترکی ، افغانستان اور پاکستان کا  ایک بلاک بن رہا ہے جس کے بعد ایشیائی ممالک کو کسی امریکی امداد کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی۔ گزشتہ روز جوبائیڈن نے شی جن پنگ سے فون پر بات کی ۔ فون بائیڈن نے کیا تھا شی نے نہیں ۔ بات چیت ۹۰؍ منٹ تک ہوتی رہی۔ امریکہ کے اس وقت چین سے تعلقات نہایت نیچی سطح پر ہیں۔ اس کے باوجود ان کا شی سے بات کرنا اوراتنی دیر تک بات کرنا اپنے اندر کئی کہانیاں لئے ہوئے ہے۔ افغانستان سے امریکہ کا اخراج صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ، ایک  نئی تاریخ کے رقم ہونے کا واقعہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK