Inquilab Logo

سوشل میڈیا سےملنےوالے فائدے اس وقت کےمقابلےمیں کم ہی ہیں جوآپ اس پرصرف کررہےہیں

Updated: October 31, 2021, 12:52 PM IST | Dr. Shadab Munawar Musa

اب کوئی بھی پوسٹ ایک گہرے اجتماعی تجربے کا مرکز بن جاتی ہے کہ میرے دائرے میں کتنے لوگ ہیں جو اسےپسند کرتے ہیں؟ اس طرح ہمیں بار بار نیوز فیڈ چیک کرنے اور نوٹیفکیشن ٹون سننے کی عادت ہوگئی ہے، یہ ایک لت بن گئی ہے

People don`t get comfortable without looking at social media apps or sites on their phones or laptops..Picture:INN
اپنے فون یا لیپ ٹاپ پر سوشل میڈیا ایپس یا سائٹس دیکھے بغیر لوگوں کو سکون نہیں ملتا۔۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ ۲۰؍ سال میں کئی تکنیکی ایجادات سامنے آئی ہیں لیکن ان میں سے ایک چیز جو شاید ہی کسی کے ذہن میں آئے، وہ Like بٹن ہے۔ جب ایک بھولے بسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Friend Feed نے ۲۰۰۷ء میں اسے متعارف کروایا تو یہ صرف گزرتے وقت کی بات تھی کہ آہستہ آہستہ یہ فیچر ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا ایک لازمی جزو بن گیا۔ بہرحال یہ ایک سیدھا سادا فیچر اور اس کی بدولت ظاہر ہونے والے نوٹیفکیشن کا ایک لامتناہی سلسلہ بہترین طریقہ ہے جس کے ذریعے ہماری پسند و ناپسند کے تئیں ڈیٹا اکٹھا کیا جاسکتا ہے اور صارفین کو ہر دم مشغول رکھا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ لوگ آخرکار سوشل میڈیا سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہونے لگا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی شاید فائدے سے زیادہ نقصان کا پیشہ خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یقیناً ٹھوس بنیادوں پر مبنی تحقیق کے اخذکردہ نتیجے نے سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے مضر اثرات کو ہماری آنکھوں کے سامنےلا دیا ہے۔
 پروفیسر کال نیوپورٹ نے اس ضمن میں ایک تجربہ کیا جس میں ۱۶۰۰؍ رضاکاروں نے ان کی رہنما ہدایات پر عمل کیا اور ٹیکنالوجی سے ایک مہینے کی چھٹی لی اور انہیں قیمتی آراء سے نوازا۔ اس تحقیق کا نتیجہ ڈجیٹل مینیمالزم ہے : ایسا راستہ جس کے ذریعے ڈجیٹل دنیا کے انتشار و خلفشار سے پیچھے ہٹا جاسکے اور ایک نفع و اطمینان بخش زندگی بسر کرنے کا راستہ تلاشا جائے۔سوشل میڈیا گویا ایک نشہ آور شے کی صورت کیوں اختیار کرگیا ہے، یا یہ کہ آپ کی توجہ تیل سے بھی زیادہ بیش قیمت کیوں کر ہوگئی ہے اور Attention Economy کے مضبوط ہاتھوں سے چھنی ہوئی اپنی زندگی کو کیسے واپس لیا جاسکتا ہے ۔
 حالیہ دنوں میں ٹیلیفون اور میوزک ڈیوائس کی جگہ لینے والے ڈیوائس ایک خطرناک لت کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
 ۲۰۱۶ء میں نیویارک میگزین نے مشہور مصنف اینڈریو سلیوان کا ایک مضمون شائع کیا تھا۔ مصنف نے ۷؍ہزار الفاظ میں بیان کیا تھا کہ کس طرح مسلسل چلتی خبروں، تصویروں اور آن لائن بکواس نے اسے توڑ کر رکھ دیا۔ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ آپ ان علامات کو جانیں جن کے بارے میں سلیوان نے لکھا ہے۔ بار بار فون نکال کر چیک کرنے کی عادت، اپنا لکھا ٹیکسٹ ، ای میل یا سوشل میڈیا فیڈ بار بار کھول کر دیکھنا ، اگر ڈجیٹل میڈیا استعمال میں نہ ہو تو ایک عجب بوریت یا بوجھل پن کا احساس ہونا۔ ہم اس مرحلے پر کس طرح آن پہنچے ہیں؟
 ایک اہم بات یہاں سمجھنے کی یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا مقصد یہ نہیں تھا جس ڈھنگ پر اب اسے استعمال کیا جارہا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں جب پہلا اسمارٹ فون بازار میں آیا تو اسٹیوجابز نے اس کا تعارف بہترین آئی پوڈ کے طور پر کروایا۔ یہ ایک ایسا بہترین ڈیوائس تھا جس کے ذریعے آپ فون کال بھی کرسکیں اور میوزک بھی سن سکیں۔ اینڈی گریگنا کا یہ ماننا ہے کہ آئی فون کی رونمائی کے موقع پر ایپل کے انجینئر اسٹیوجابز نے آئی فون کو تھرڈ پارٹی ایپس یا گیم کے پلیٹ فارم بنائے جانے کے خیال کو مسترد کردیا تھا۔
 جہاں تک فیس بک کا تعلق ہے ، ۲۰۰۴ء میں فیس بک صرف ایک بہترین اختراع یا ایجاد کے طور پر جانا گیا۔ ایک ایسا طریقہ جس کے  ذریعے دوست کے دوست کو جانا جاسکے نہ کہ خبریں حاصل کرنے یا وقت برباد کرنے کا ذریعہ۔ ۲۰۰۴ء میں بیشتر کالج کے طلبہ کے نزدیک کمپیوٹر گیمSnoodفیس بک سے زیادہ مقبول تھا۔
  پس جب لوگ فیس بک آئی اور آئی فون کو پہلی بار اپنی زندگی میں لے آئے تو ان کے نزدیک یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس میں لاگ ان کرکے یہ لوگ گھنٹوں گھنٹوں تکتے رہیں۔ ٹیکنالوجی کا یہ خطرناک پہلو جو لت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، بعد کی چیز ہے جو سوشل میڈیا کے انجینئروں کا قصداً ایجادکردہ ہے۔ ۲۰۱۷ء میں ایچ بی او کے ٹاک شو ریئل ٹائم میں بِل مہر نے سوشل میڈیا کے اس طوفان کو جدید دور کی نشہ آور اشیاء سے تعبیر کیا کہ مصنوعات کو مصنوعات کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ یہ ایک لت کی طرح ہم سے چمٹ کر رہ جائیں۔ یقیناً کسی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے طریقوں اور ہتھکنڈوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ انہیں ہتھکنڈوں کی مدد سے ٹیکنالوجی کمپنیاں معاشرتی توجہ اپنی طرف کرانے اور سماج کی منظور نظری حاصل کرنے کی بشری خواہش کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں اس سمت ایک اہم پیش رفت ہوئی اور فیس بک نے انگوٹھے کے نشان کا بٹن متعارف کرایا۔ اب جو کوئی چیز پوسٹ کرتا ہے وہ ایک گہرے اجتماعی تجربے کا مرکز بن جاتی ہے کہ میرے دائرے میں کتنے لوگ ہیں جو میری پوسٹس کو پسند کرتے ہیں؟ اس طرح ہمیں بار بار نیوز فیڈ چیک کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے اور ہم بھی نوٹیفکیشن ٹون بار بار سننے اور اس کا جواب دینے کے گویا عادی ہوگئے ہیں۔
 اگر ہم سلیکون ویلی کے روشن خیال دماغوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں۔جو ہمارے ہر کمزور پہلو کا فائدہ اٹھانا جانتے ہیں، تو ہمیں اپنا دفاع مضبوط کرنا ہوگا۔ اس کحلئے کال نیوپورٹ نے ایک ایسا طرز زندگی تجویز کیا ہے جسے انہوں نے ڈجیٹل مینیمالزم کا نام دیا ہے۔  اس موقع پر کئی لوگ فوری علاج کے طور پر نوٹیفکیشن کو Disable یعنی غیرفعال کردینے کی تجویز رکھتے ہیں لیکن نیوپورٹ اس قسم کے چھوٹے موٹے اقدامات پر یقین نہیں رکھتے جبکہ آپ کو ایک لمبے عرصے کے لئے خود میں تبدیلی لانی ہو۔ جیسا کہ اس قسم کے مضامین کے کسی مؤلف نے خود ۱۱۲؍ ایپ ڈس ایبل کئے تھے۔ لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کو اتنے سارے ایپ کی واقعی ضرورت ہے؟
 Cue Digital Minimalism کا فلسفہ وقت کی قدر کرنا سکھاتا ہے اور یہ کہ کم سے کم میں قناعت کرکے بہتر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ اس فلسفہ کا نام اسی مینیمالسٹ طرز زندگی سے ملتا جلتا ہے جسے میری کونڈو جسے کئی لوگوں نے فروغ دیا ہے۔ ان کے نزدیک بہتر اور خوشحال زندگی اسی صورت میں میسر ہوسکتی ہے جب آپ اپنی زندگی میں صرف ان چیزوں کو آنے دیں جن سے آپ کو خوشی ہو۔ نیوپورٹ اسی اصول کا اطلاق آپ کے فون میں انسٹال ایپ اور ڈجیٹل میڈیا پر کرتے ہیں۔ آپ کو ہر موقع پر اپنے آپ سے یہی پوچھنا چاہئے کہ کیا یہ ویب سائٹ، ایپ یا سروس واقعتاً میرے لئے لازمی ہے جس کے بغیر میں گزارا نہ کرسکوں؟
 ایک اور قدم اٹھا کر اس ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ نفع بخش بنانے اور اس پر آپ کا وقت اور طاقت کم از کم صرف کرنے کا راستہ بتلاتا ہے۔ پس اگر ٹویٹر ایسی چیز ہے جو آپ کے کریئر کیلئے نفع بخش ہے تو آپ اسے مزید حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کیلئے سخت اصول و ضوابط بنا سکتے ہیں۔ ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں۔
  ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا سے ملنے والے فائدے اس وقت کے مقابلے میں قلیل ہی ہیں جو آپ اس پر صرف کررہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK