Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ:’ ’ہمیں ان کی حب الوطنی پر ناز ہے‘‘

Updated: May 11, 2025, 4:11 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

اس دوران کچھ ایسا بھی ہوا، جس کا ذکر ضروری ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ لفظ ملّا جو مسلمانوں کیلئے بطور نفرت اور استہزا استعمال ہوتا رہا ہے، وہ اتحاد کے مظاہرے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندپاک کشیدگی کے اثر سے سوشل میڈیا بھی بچ نہیں پایا ہے۔ یہاں نیشنلزم اور جِنگوازم کا فرق مٹتا نظر آریا ہے۔ ردعمل کا ایسا سوتا پھوٹا کہ سوئے ہوئے ’اکاؤنٹس‘ بھی جاگ اٹھے۔ دونوں ہی ممالک کے صارفین کشیدگی پر خامہ فرسائی کررہے ہیں۔ کوئی طنزومزاح میں اپنی بات کہہ رہا ہے، تو کوئی استہزا سے کام لے رہا ہے۔ کسی کا غم و غصہ پھوٹ رہا ہے تو کوئی فکرمندی کا اظہار کررہا ہے۔ پل پل کی خبریں شیئر کی جارہی ہیں۔ بیانئے پھیلائے جارہے ہیں، فیک نیوز بھی پروسی جارہی ہے۔ غرضیکہ ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔ 
اس دوران کچھ ایسا بھی ہوا، جس کا ذکر ضروری ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ لفظ ملّا جو مسلمانوں کیلئے بطور نفرت اور استہزا استعمال ہوتا رہا ہے، وہ اتحاد کے مظاہرے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ دراصل ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے پاکستان کی مذمت میں اپنا ایک مختصر ویڈیو پوسٹ کیا۔ اس کے ذیل میں ایک پاکستانی ٹرول نے بدزبانی کی۔ کِرِش تیواری نامی صارف نے یہ دیکھا تو لکھا کہ’’یہ ہمارا ملا ہے جیسا بھی ہے‘ پھر اس کے بعد تو اس پاکستانی صارف کی گویا شامت ہی آگئی۔ وہی ایک کیا ہر اس پاکستانی کو دندان شکن جواب دیا گیا جس نے اویسی سمیت ہندوستانی مسلمانوں کو ہدف تنقید بنانا چاہا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہروقت اویسی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے زعفرانی ٹرولز بھی اس بار ان کے دفاع میں ڈٹ گئے۔ ایم آئی ایم سربراہ نے پاکستان کو جو کھری کھوٹی سنائی اس پر نیٹیزنس نے ان کی خوب پزیرائی کی۔ نتن شکلا نامی صارف نے لکھا کہ ’’ اوہ بھائی صاحب، یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ اویسی صاحب چھاگئے۔ ایک پاکستانی نے انہیں گالی دی تو بھِڑگیا ایک ہندو وہ بھی برہمن، غضب چل رہا ہے دیش میں، لیکن جو بھی چل رہا ہے بالکل صحیح چل رہا ہے۔ ہرہندوستانی ہمارا ہے، اسے کوئی پاکستانی گالی نہیں دے سکتا۔ ‘‘ یہ دیکھ کر جیکی یادو نے لکھا کہ ’’پاکستان نے سوچا تھا کہ ہندوستان میں کمیونل ڈیوائڈ کروا دے گا مگر آج محمد زبیر کی پوسٹ جے پور ڈائیلاگ ری پوسٹ کررہا ہے، آج اسد الدین اویسی کی اسٹوری اور اسٹیٹس دائیں بازو کے لوگ لگارہے ہیں۔ آج رینڈم سیناکی پوسٹ بائیں بازو کے لوگ ری پوسٹ کررہے۔ پاکستان نے جو ہمارے ساتھ کرنا چاہا اس کا ہم لوگوں نےبالکل الٹا کردکھایا۔ آج پورا دیش ایک ساتھ کھڑا ہے۔ ‘‘
کرنل صوفیہ قریشی بھی سوشل میڈیا گلیاروں میں ٹرینڈنگ رہیں۔ جوابی کارروائی کی بریفنگ کا ذمہ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومکا سنگھ کو سونپ کر ہندوستان نے’آپریشن سیندور‘ کی وجہ تسمیہ کو بناء کچھ کہے عملی طور پر واضح کردیا۔ اشوک کمار پانڈے نے اس پر تبصرہ کیا کہ’’نام نوٹ کیجیے، کرنل صوفیہ قریشی، سرکار نے گویا پیغام دیا ہے کہ پاکستان والو، تم سے زیادہ مسلمان ہمارے ملک میں ہیں اور ہمیں ان کی حب الوطنی پر ناز ہے۔ ‘‘ نگار پروین نے لکھا کہ ’’کسی نے کہا تھا کہ مسلمان صرف پنکچر بناتے ہیں، کرنل صوفیہ قریشی اور محمد زبیر کو دیکھ لیجئے، خود جواب مل جائے گا۔ ‘‘اپوروا بھاردواج نے لکھا کہ’’نام پوچھ رہے تھے نا، ہندوستان کی بیٹی نے بتادیا، کرنل صوفیہ قریشی....‘‘
 ایک اور خوشگوار تبدیلی کا ذکر سنئے۔ آلٹ نیوز کے صحافی اور فیکٹ چیکر محمد زبیر کیلئے بھی دائیں بازو کے ٹرول نے خوب محبتیں لٹائیں۔ دراصل محمد زبیر نے پاکستانی سوشل میڈیا کے ہر اُس پروپگنڈے اور فیک نیوز کی قلعی اتارنے کا کام بخوبی کیا، جس میں ہندوستان پر شدید پاکستانی حملے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ جھوٹی خبروں کے غبارے کی ہوا نکالنے پر زبیر کیلئے بھارت رتن تک کا مطالبہ کیا گیا۔ رجعت پسند حلقے سے بھی آوازیں اٹھیں۔ گرمہر کور نے کہا کہ’’محمد زبیر کو ان کی انتھک خدمات کیلئے قومی اعزاز سے سرفراز کرنا چاہئے، جنگ کی جھوٹی خبروں کی یلغار کے سامنے وہ تنہا ہی ایک بہادر سپاہی کی طرح لڑے۔ ‘‘ان کے اس مطالبے کی اور وں نے بھی حمایت کی۔ 
فیک نیوز کی بات نکلی ہے تو ٹی وی میڈیا کی کارستانیوں کا بھی ذکر ہوجائے۔ سائرن، کمپیوٹر گیمز کے گرافکس، پرانے اور غیر متعلقہ ویڈیوز اور جھوٹی خبروں کا تڑکا لگاکر ٹی آر پی بٹورنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ کسی نے سات آٹھ شہروں پر بمباری کئے جانے کا دعویٰ ٹھونکا تو کسی نے کراچی بندرگاہ کے تباہ ہوجانے کی خبر اُڑادی۔ جب حکومت نے کان کھینچے تو کئی چینلوں کو معافی بھی مانگنی پڑی۔ سبکدوش جج مرکنڈے کاٹجو نے اس پر یوں طنز کیا کہ ’’کل رات، آج تک نے لاہور پر، زی نیوز نے کراچی پر اور ری پبلک نے نیویارک پر قبضہ کرلیا تھا، لیکن صبح ہوتے ہوتے سب لوٹادیا تاکہ آج رات پھر وہی سب دہرایا جاسکے۔ ‘‘ حد تو تب ہوئی جب اپنے ہی اس بے گناہ شہری کو دہشت گرد بتادیا گیا جس نے پاکستانی گولی باری میں جان گنوادی۔ پرتیک سنہا نے لکھا کہ’’ قاری محمد اقبال کوئی پاکستانی دہشت گرد نہیں تھے، وہ ایک ہندوستانی ٹیچر تھے، کشمیر کے رہنے والے تھے۔ جموں کشمیر کے پونچھ میں پاکستانی گولی باری میں وہ ہلاک ہوئے، لیکن میڈیا نے جھوٹ گھڑا اور ان پر لشکر کا کمانڈر ہونے کا لیبل لگاکر جھوٹا دعویٰ کردیا کہ آپریشن سیندور میں موت ہوئی۔ ‘‘ 
کشیدگی مزید نہ بڑھے اور جنگ نہ چھڑے اس کیلئے بھی بہت ساری آوازیں بلند ہوئیں۔ جیش(نیوانت پرانی) نے لکھا کہ: جن کا کوئی اپنا جنگ میں ہوتا ہے تو وہ جنگ نہیں چاہتے۔ میرا بھائی سرحد پر تعینات ہے، ہر لمحہ اس کی فکر ستاتی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے۔ ‘‘ شیام سنگھ میرا نے لکھا کہ’’ جن کے والد محاذ جنگ پر لڑتے ہیں وہ جنگ نہیں چاہتے، جن کے بیٹے جنگ لڑتے ہیں وہ جنگ نہیں چاہتے، جن کے بھائی جنگ میں ہوتے ہیں وہ جنگ نہیں چاہتے، جن کے شوہر جنگ میں ہوتے ہیں، وہ جنگ نہیں چاہتے۔ جنگ، جنگ، جنگ صرف وہ چنگھاڑتے ہیں، جن کا جنگ میں کوئی نہیں ہوتا۔ ‘‘عارفہ خانم شیروانی نے لکھا کہ : امن وطن پرستی ہے، جنگ تباہی۔ سرحدیں لہولہان نہیں ہوتیں، انسانیت ہوتی ہے۔ اسلئے، جنگ روکئے۔ ساحر لدھیانوی کی نظم بعنوان’ اے شریف انسانو‘ کو بہت سے امن پسندوں نے شیئر کیا۔ ساحر لدھیانوی نے ہندپاک جنگ پر یہ نظم کہی تھی۔ آج ان کی گزارش کو پھر دہرانے کی ضرورت آن پڑی ہے کہ ’’جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK