Inquilab Logo

ہماری زندگی کا سب سے بڑا دہراپن دینی معاملات میں ہمارا دہراپن ہے

Updated: January 20, 2023, 1:41 PM IST | Dr Abdullah Bin Awad al Juhani | MUMBAI

سمجھدار وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے کام کرے اور لاچار وہ ہے جو خود کو خواہشات کے تابع کرے اور اللہ سے امیدیں رکھے۔

Commanding goodness is the religious duty of the Muslim Ummah; Photo: INN
نیکی کا حکم کرنا امت ِ مسلمہ کا دینی فریضہ ہے; تصویر:آئی این این

نبی کریم ﷺ  کا ارشادِ گرامی :
 ” سمجھدار وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے کام کرے اور لاچار وہ ہے جو خود کو خواہشات کے تابع کرے اور اللہ سے امیدیں رکھے۔‘‘
مسلمانو! دنیا آزمائشوں اور مشکلات کا گھر ہے اور ہوشمند وہ ہے جو اپنے نفس اور دین کے لئے احتیاط برتے تا کہ فتنوں کا شکار نہ ہو اور ان سے نجات پائے۔ مخلوق میں سب سے بڑا فریب خوردہ وہ ہے جو دنیا اور اس کی جلدی ملنے کی چیز سے دھو کہ کھائے، اسے آخرت پر ترجیح دے اور آخرت کو چھوڑ کر اس پر راضی ہو جائے۔ لہٰذا جس نے اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑا، اللہ کی روشنی سے روشنی حاصل کی اور اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لیا، وہ راہ راست پر آگیا اور نجات پا گیا۔ اور جس نے اسباب گنوا دیے، نور سے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور صراط مستقیم سے دور رہا، اللہ کی پناہ! وہ گمر اہ اور ہلاک ہو گیا۔
اللہ کے بندو! اس دنیا کے اندر انسان زندگی کے سمندر میں خیالات، افکار، وسوسوں، گمانوں، خواہشوں اور شہوتوں کی موجوں اور عوارض کے طوفانوں کے بیچ غوطے لگاتا ہے اور وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس میں اس کے افکار ، وسوسوں اور خواہشوں کو اور ان عوارض کو پیدا کیا جو اسے گھیرے رہتے ہیں، وہ ذات اس سے غافل رہی نہ اسے نظر انداز کیا، بلکہ اسے عقل و بصیرت سے نوازا اور اس کے پاس رسول بھیجا، اس پر ایسا نظام اتارا جو اس زندگی کے سفر میں اس کی رہنمائی کرے اور اس کے لئے انیسی رسی بڑھا دی ہے جو نجات کے کنارے سے ملی ہوئی ہے اور جس میں نہ ٹوٹنے والا مضبوط کڑا ہے۔ انسان ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں ایک چھوٹی ناؤ کی طرح ہے جسے موجیں اٹھاتی اور گراتی ہیں اور ہوائیں دائیں بائیں ہلاتی رہتی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ کوئی ہو جو اسے کنارے تک پہنچائے اور اس کی رہنمائی کرے، اس کا کوئی ماہر ناخد اہو جو گزر گاہوں کو جانتا ہو اور اسے ساحل تک لے جائے، اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ بھٹک جائے گا اور ڈوب جائے گا۔
 اس مثال سے ہم اس دور کے دہرے پن اور اختلاف کو سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں علم زیادہ ہو او ہیں جہالت پھیلی، جہاں دولت کی بہتات ہوئی وہیں غربت بھی بڑھی، جہاں طب نے ترقی کی وہیں بیماریاں بھی پھیلیں۔ نظریات، صنعت کاریوں اور فلسفوں کا علم بڑھا، لیکن اس زندگی میں انسان کی ذمہ داری اور اس کا پیغام کیا ہے؟ تو اس مقصد سے لاعلمی بھی بڑھی۔
 اس لئے علم بغیر تقویٰ کے ہو گیا اور ہدایت پر نہیں رہا، چنانچہ علوم کو ان مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا جن کے لئے انہیں پیدا نہیں کیا گیا، انہیں پیدا کیا گیا تا کہ وہ اپنے خالق کی قدرت و وحدانیت کی دلیل اور انسان اور اس کے خالق کے بیچ رابطہ بنیں، انہیں پیدا کیا گیا تا کہ انسان کو اپنے رب کی طاعت میں مدد دیں۔ لیکن اس وقت علم اس سے دور ہے، الا ماشاء اللہ ۔ آج بعض علوم کو تخریب کاری، تباہ کاری، اللہ کے دین سے روکنے اور کمزور کو غلام بنانے کےلئے استعمال کیا جارہا ہے، اس کا سبب ہے ایمان سے علم کو جدا کرنا، تو یہ جہالت کب تک؟
اقتصادی ترقی ہوئی اور دولتوں کی بہتات ہوئی، مگر نفسوں میں کنجوسی و بخیلی بڑھ گئی اور ان میں حرام و حلال طریقہ سے اور حق و ناحق مال اکٹھا کرنے کی حرص بڑھ گئی۔ سمندر کا پانی پینے والا اس سے جتنا پیئے گا اس کی پیاس اتنی بڑھے گی۔ کچھ لوگ سیاحتی سفر میں لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں، لیکن وہ کسی فقیر کی غمخواری نہیں کرتے اور نہ کسی یتیم پر شفقت کرتے ہیں۔ اس کا سبب اسلامی نظام اور بھلائی سے لاعلمی ہے۔
  سنو! ہماری زندگی کا سب سے بڑا دُہراپن  ہمارے دینی معاملہ میں ہمارا دہر اپن ہے۔ ہمیں خیر کا علم ہے لیکن ہم وہی خیر انجام دیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں، ہمیں شر کا علم ہے مگر ہم اسی شر سے بچتے ہیں جس سے بچنا چاہتے ہیں، ہم ہدایت کو جانتے ہیں، لیکن ہم پوری طرح ہدایت میں داخل نہیں ہوتے ، ہم گمراہی کو جانتے ہیں، مگر ہم پوری گمراہی سے نہیں نکلتے ۔
 اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے، تو اس نے یہ بھی بتایا کہ رحمت والے کون لوگ ہیں اور کون اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے، چنانچہ اس نے فرمایا:’’…میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔‘‘ 
(الاعراف: ۱۵۶)
 امت مسلمہ ! اللہ سے ڈرو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) – 
    ’’    ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول اللہ ﷺ تم پر گواہ ہو جائیں۔‘‘(البقرہ:۱۴۳)
اے اللہ! ہمیں قرآن عظیم میں برکت دے اور اس کی آیات اور ذکر حکیم سے فائدہ پہنچا۔  آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK