۱۵؍ سال قبل بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے جو انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل خود قائم کیا تھا ،پچھلے ہفتے اسی ٹریبونل نے انہیں موت کی سزاکا مستحق قرار دیا۔ حسینہ نے ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین خصوصاً جماعت اسلامی کے لیڈروں کو ٹھکانے لگانے کیلئے جس ہتھیار کا استعمال کیا تھا آج بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اسی ہتھیار سے ان پر وار کیا ہے۔
مکافات عمل بھی کوئی چیز ہے۔دولت، شہرت اور اقتدار کے نشے میں اکثر لوگ یہ آفاقی حقیقت بھول جاتے ہیں۔مرنے کے بعد تو حساب کتاب ہونا ہی ہے لیکن زندگی میں بھی بندے کو اپنے نیک اعمال کا اجر اور بد اعمالیوں کی سزا ضرور ملتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو جال ہم کسی اور کو پھنسانے کے لئے بچھاتے ہیں اس میں خود ہی پھنس جاتے ہیں۔بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش آیا۔حسینہ نے جماعت اسلامی کے لیڈروں کو سزادلوانے کیلئے ۱۵؍ سال قبل جو انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل اپنے ہاتھوں سے قائم کیا تھا پچھلے ہفتے اسی ٹریبونل نے انہیں موت کی سزاکا مستحق قرار دیا۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا کہیں گے؟ حسینہ نے ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین خصوصاً جماعت اسلامی کے لیڈروں کو ٹھکانے لگانے کیلئے جس ہتھیار کا استعمال کیا تھا آج بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اسی ہتھیار سے ان پر وار کیا ہے۔
پچھلے سال جولائی اور اگست میں عوامی تحریک کے دوران سیکڑوں نہتے بنگلہ دیشی شہری مارے گئے تھے۔ خصوصی ٹریبونل کے مطابق حسینہ اور ان کے وزیر داخلہ اسد الزماں کے آرڈر پر پولیس اور فوج نے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے طاقت کا بیجا استعمال کیا جس کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ اسی لئے حسینہ اور زماں کو انسانیت کے خلاف جرم کے ارتکاب کی پاداش میں موت کی سزا سنائی گئی۔ میں ذاتی طور پر سزائے موت کے خلاف ہو ں اور اس لئے میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گا کہ حسینہ کو یہ سزا دی جائے۔ مگر میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے وقت کا گھومتا پہیہ تو رک نہیں جائے گا۔ وقت کے ستم اور ستم ظریفیوں سے بھلا کون بچ سکاہے؟ ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ حسینہ نے طویل جدوجہد اورذاتی قربانیوں کے بعد بنگلہ دیش میں جو جمہوریت بحال کروائی، اقتدار میں آنے کے بعد خود اپنے ہاتھوں سے اسی جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا۔حسینہ کے تمام مصائب اور مسائل کا بنیادی سبب دراصل یہی ہے۔ حسینہ اپنا راج پاٹ اور عیش و آرام کھوکر آج در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر اس لئے مجبور ہیں کیونکہ وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے کے بعد تاناشاہ بن گئی تھیں۔ پچھلے سال ۵؍اگست کو اگر حسینہ ڈھاکہ سے عجلت میں فرار نہیں ہوتیں تو غصے میں بپھرے ہوئے عوام ان کو زندہ نہیں چھوڑتے۔ایران کے شاہ رضا پہلوی، فلیپائن کے فرڈیننڈ مارکوس،افغانستان کے اشرف غنی ہوں اور سری لنکا کے راجاپاکسا، سب کا یہی حشر ہوا تھا اور سب کو حسینہ کی طرح اپنے ہی عوام کے غیض و غضب سے بچنے کی خاطر یوں ہی منہ چھپاکر اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی حکمراں خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو جب وہ اقتدار کا غلط استعمال کرکے عوام کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کرنے لگتا ہے تو اس کا زوال لازمی ہوجاتا ہے۔ عوام جنہوں نے اسے کبھی سر آنکھوں پر بٹھایا تھا وہ جب بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو جابر آمروں کو عرش سے فرش پر آتے دیر نہیں لگتی ہے۔
جولائی ۲۰۲۴ء میں جب طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں غیر قانونی کوٹا سسٹم کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا تو حسینہ ان سے مذاکرات کرکے اس مسئلہ کا حل نکال سکتی تھیں۔ لیکن طاقت کے غرور میں حسینہ نے احتجاجی طلبہ سے بات کرنا اپنی توہین تصور کیا اور ان کی تحریک کو کچلنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔دیکھتے ہی دیکھتے طلبہ کی تحریک عوامی بغاوت میں تبدیل ہوگئی۔ ۵؍ اگست کو جب برہم لوگ گن بھون کی جانب مارچ کرنے لگے اور ملٹری نے ان پر فائرنگ کرنے سے انکار کردیا اس وقت حسینہ کو احساس ہوا کہ جس اقتدار پر ان کو اتنا غرور تھا وہ ان کے ہاتھوں سے پھسل چکا ہے۔
۲۰۰۹ء میں حسینہ جب دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں اس کے بعد سے ہی انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے شروع کردیئے۔ وہ پولیس اور عوامی لیگ کے غنڈوں کے ذریعہ اپنے سیاسی مخالفین کو چن چن کر نشانہ بنوانے لگیں۔ بی این پی اور جماعت اسلامی کے ورکرز، سماجی کارکنوں اورصحافیوں کوپکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کردیا گیا۔ اپوزیشن پارٹی کے سیکڑوں ورکرز ماردیئے یا پر اسرار طور پر غائب کردیئے گئے۔ ۲۰۰۹ء سے ۲۰۲۲ء کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ڈھائی ہزار سے زیادہ بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسینہ کے ۱۵؍سالہ دور حکومت میں بنگلہ دیش ترقی اور خوشحالی کی نئی بلندیاں چھونے لگااور اس کی معیشت دنیا کی سب سے تیز رفتاری سے بڑھنے والی معیشتوں میں شمارہونے لگی۔ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی وجہ سے بنگلہ دیشی عوام حسینہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، انتخابی دھاندلیوں اور جمہوری اقدار کی پامالی کو ایک عرصے تک نظر انداز کرتے رہے۔
عبوری حکومت کے سربراہ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس کو بھی حسینہ کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ جس شخص نے ملک کے لاکھوں مفلوک الحال لوگوں کو غریبی کی دلدل سے نکالاحسینہ نے ان کو بھی جیل بھجوانے کا پلان بنالیا تھا۔حسینہ نے سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاکو بھی بے حد ستایا۔ خالدہ کے دونوں بیٹوں طارق رحمٰن اور عرفات رحمٰن کو گھربار اور وطن چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ عرفات کی غریب الوطنی میں ہی موت ہوگئی۔ طارق لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ خالدہ کو شدید علالت کے باوجود حسینہ نے علاج کیلئے امریکہ یا برطانیہ جانے کی اجازت نہیں دی۔ انہیں حسینہ نے برسوں تک پہلے جیل میں اور بعد میں گھر میں نظر بند رکھا۔خالدہ کا پورا خاندان حسینہ کی انتقامی سیاست کا شکار ہوگیا۔
پس نوشت: ۱۹۷۵ء میں فوجی بغاوت کے دوران حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے پورے کنبے کو قتل کردیا گیا لیکن حسینہ بچ گئیں کیونکہ وہ ان دنوں یورپ میں تھیں۔ ۲۰۰۴ء میں ڈھاکہ میں ان کی ریلی پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا جس میں عوامی لیگ کے ۲۴؍ ورکرز مارے گئے لیکن حسینہ بال بال بچ گئیں۔ ۵؍اگست ۲۰۲۴ء کے دن بھی وہ اس لئے بچ گئیں کیونکہ خون کی پیاسی بھیڑ کے حملے سے بیس پچیس منٹ قبل ہی فوج نے انہیں بحفاظت ملک سے باہر روانہ کردیا۔خصوصی ٹریبونل نے حسینہ کو موت کی سزا سنائی تو ہے لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ڈھاکہ کے مطالبہ کے باوجود ہندوستان حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گا اس کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔حسینہ بچ جائیں گی کیونکہ حسینہ قسمت کی دھنی بھی ہیں اورsurvivorبھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا سیاسی کریئر بچے گا یا نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان کی جلاوطنی کبھی ختم ہوگی اور کیا وہ کبھی بنگلہ دیش واپس لوٹ سکیں گی؟n