Inquilab Logo

اہل فلسطین کی معاشی صورت ِحال

Updated: April 23, 2022, 10:07 AM IST | Mumbai

دُنیا کے متعدد ملکوں میں افراط زر عام انسانی زندگی کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ ایسے میں اُس قطعہ ٔ اراضی کے بارے میں سوچئے جس میں انسانی زندگی کا ہر شعبہ بذات خود چیلنج بناہوا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

دُنیا کے متعدد ملکوں میں افراط زر عام انسانی زندگی کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ ایسے میں اُس قطعہ ٔ اراضی کے بارے میں سوچئے جس میں انسانی زندگی کا ہر شعبہ بذات خود چیلنج بناہوا ہے۔ ایسے ملک کیلئے افراط زر مرے پر سو درّے کے مصداق ہے۔ یوکرین روس جنگ کی وجہ سے حالات کی خرابی ناقابل بیان ہوگئی ہے۔ ہماری مراد فلسطین سے ہے جہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دوگنا سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ گیہوں اور گوشت کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ مرغی جو ۱۰؍ شیکل (مقامی کرنسی) میں دستیاب تھی، اب اس کی قیمت ۴۵؍ شیکل ہوگئی ہے۔۱۱؍ اپریل کو آکسفم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں اوسطاً ۲۵؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ آکسفم ہی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فلسطین میں گیہوں کے آٹے کا ذخیرہ صرف اتنا رہ گیا ہے کہ تین ہفتے چل سکے۔
 یہ اُس ملک کا حال ہے جس کے شہریوں کی آزادی اور حقوق پر اسرائیلی تسلط کے سبب قدغن لگی ہوئی ہے، روزگار ہے نہیں، صنعت و تجارت اور کاروبار کے مواقع محدود ہیں، بیرونی امداد پر انحصار ناگزیر ہے اور جو بیرونی امداد حاصل ہوتی ہے وہ بھی اسرائیلی تسلط کی چھلنیوں کے چھن سے اہل فلسطین تک پہنچتی ہے یعنی جو چیز جتنی مقدار میں فلسطینیوں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا وہ اُتنی ہی پہنچے گی اُس سے زیادہ نہیں۔ ایک بے رحم اور مکار قابض طاقت کسی آبادی کو جتنا رگید سکتی ہے اور پریشان کرسکتی ہے، اسرائیلی حکومت اہل فلسطین کو اُتنا پریشان کرتی ہے بلکہ انہیں پریشان کرنے کے نت نئے بہانے تلاش کرتی رہتی ہے۔ فلسطین کے ایک ادارۂ شماریات کے مطابق اس ملک کے ۲۹ء۲؍ فیصد لوگ نادار اور ۱۶ء۸؍ فیصد مفلوک الحال ہیں۔ فی کس آمدنی کی بات کریں تو پوری دُنیا کی مجموعی اوسط جی ڈی پی کا صرف ۲۰؍ فیصد فلسطین کی فی کس جی ڈی پی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے کیا حالات ہیں جو اَب ملک بھی نہیں رہ گیا ہے، بس ایک قطعۂ اراضی ہے جو پچھلی سات ساڑھے سات دہائیوں سے تختۂ مشق بنا ہوا ہے۔بے روزگاری اس لئے بھی زیادہ ہے کہ قابض طاقت فلسطین کو پھلنے پھولنے اور اپنی صلاحیتو ںکے استعمال کی اجازت ہی نہیں دیتی بالخصوص غزہ پٹی میں جہاں ۲۰۲۱ء کی دوسری سہ ماہی میں بے روزگاری کی شرح (۴۴ء۷؍ فیصد) خوفناک حدوں کو چھو رہی تھی۔ اس سے بھی بدتر حالات کورونا کی وباء کے دوران تھے جب غزہ میں بھی لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت بے روزگاری کی شرح ۷۰؍ فیصد تھی۔ ڈھائی لاکھ لوگوں کا روزگار چھن گیا تھا۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ عطیہ دینے والے ممالک فلسطین کو تھوڑی بہت رقم فراہم کرتے ہیں مگر عالمی برادری وہ مدد نہیں کرتی جو کرنا چاہئے۔ ان کی بہترین مدد یہ ہوگی کہ انہیں اسرائیل کے استبداد سے نجات دلائی جائے، انہیں اپنا ملک چلانے کی آزادی دی جائے، انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اپنے ملک کو ترقیاتی شاہراہوں تک لے جانے کی اجازت دی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا، ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اقوام عالم بھی چاہتی ہیں کہ فلسطین کے شہری بیرونی امداد پر منحصر رہیں اور کبھی اس قابل نہ ہوں کہ اپنی محنت، اپنی صلاحیت اور اپنی قوت بازو پر بھروسہ اور ناز کرسکیں۔ بڑے ممالک جو مالی اور اثرورسوخ کے اعتبار سے بھی بڑے ہیں، اگر یہ فیصلہ کرلیں کہ فلسطین کو کم از کم معاشی آزادی ہی دے دی جائے تو یہ قوم بیرونی امداد سے نجات پاجائے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK