• Fri, 05 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قرآن کریم کا سب سے بڑا اعجاز انسانی قلوب کی کیفیت کا تبدیل ہوجانا ہے

Updated: December 13, 2019, 2:59 PM IST | Sumaiya Ramzan | Mumbai

ہر وہ شخص جو قرآن مجیدکا کتابِ ہدایت و شفا کے طور پر خیر مقدم کرتا ہے اور قرآن مجید کے ساتھ اس کا طرزِ عمل حقیقی ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں قرآن انقلاب پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے

قرآن پڑھنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ جاگرن
قرآن پڑھنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ جاگرن

تمام مسلمان یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے نازل ہونے والا ایک عظیم معجزہ ہے۔ مگر یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس معجزے میں وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے یہ تمام سابقہ معجزوں پر سبقت لے گیا ہے؟ بعض اہلِ علم کا خیال ہے کہ قرآن کا اعجاز اس کے اسلوبِ بیان اور بلاغت میں ہے اور قرآن نے اس کا چیلنج بھی دیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن ہر زمان و مکان کے لئے موزوں و مناسب ہے، اس لئے معجزہ ہے۔ بلاشبہ قرآنِ کریم کے یہ سب وجوہِ اعجاز ہیں مگر قرآن کریم کا سب سے بڑا اعجاز اس کی انسانوں کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت ہے۔ ہر انسان کو بدل ڈالنا تا کہ وہ ایک نئی قسم کا انسان بن جائے۔ اللہ کی معرفت رکھنے والا، عبادت گزار، اپنے تمام امور و حالات میں اللہ کی اطاعت کرنے والا۔
تبدیلی کی کیفیت
قرآن جو تبدیلی پیدا کرتا ہے اس کا آغاز دل میں قرآنی نور کے داخل ہونے سے ہوتا ہے۔ یہ نور دل میں گناہوں، غفلتوں اور خواہش کی پیروی سے جنم لینے والی تاریکی کو دور کرتا ہے۔ دل میں نور دھیرے دھیرے بڑھتا چلا جاتا ہے اور دل کے تمام احساسات میں روشنی اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یوں قرآن سمجھنے سے صاحبِ قرآن ایک نئی زندگی سے متعارف ہو جاتا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
’’بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ ‘‘(الانعام:۱۲۲)
معلوم ہوا کہ قرآن ایک روح ہے جو دل میں جا کر اسے زندہ کر دیتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’سو اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روحِ (قلوب و ارواح) کی وحی فرمائی (جو قرآن ہے)، اور آپ (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں)(۱) مگر ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اِس (نور) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں۔‘‘ (الشوریٰ:۵۲)
یہ روح جب دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے تو دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتا ہے، خواہشات اور حبِ دنیا دل سے نکل جاتی ہے اور اس کا واضح اثر انسان کے طرزِ عمل پر پڑتا ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ نے پوچھا تھا کہ؛
’’ اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (الزمر:۲۲)میں شرح صدر سے کیا مراد ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
 ’’ جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو دل کھِل اور کھُل جاتا ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کی کیا علامت ہے؟ فرمایا ہمیشہ کے گھر کی طرف رغبت و رجوع اور دنیا سے بے رخی و بے توجہی اور موت آنے سے پہلے اس کے لئے تیاری۔‘‘(الحاکم، البیہقی فی الزہد)
قرآن کی قوتِ تاثیر
ارشادِ الٰہی ہے:
’’ اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ (الرعد:۳۱) 
یقیناً قرآن مجید کی تاثیر ہمارے تخیل سے بھی بہت زیادہ قوی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی مثال یوں فرمائی بیان فرمائی ہے:
’’ اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی حالت پر غور کریں۔‘‘  (الحشر:۲۱)
علامہ قرطبی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:’’اگر پہاڑوں کو عقل دی جاتی اور پھر اس قرآن کے ذریعے ان سے خطاب کیا جاتا تو پہاڑ قرآنی مواعظ کے سامنے جھک جاتے اور اپنی سختی و مضبوطی کے باوجود انہیں ہم خوفِ خدا سے پھٹا ہوا دیکھتے۔‘‘ (الجامع لا حکام القرآن، ج۱۸)
اس مثال سے واضح ہے کہ قرآن مجید اپنی قوتِ تاثیر کی وجہ سے ہر ایک پر حجت ہے، لہٰذا اس شخص کا دعویٰ غلط ہے جو کہتا ہے کہ وہ قرآن سمجھنے کا اہل نہیں۔
قرآنی تبدیلی کا نمونہ
ہر وہ شخص جو قرآن کریم کا کتابِ ہدایت و شفا کے طور پر خیر مقدم کرتا ہے اور قرآن مجید کے ساتھ اس کا طرزِ عمل حقیقی ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں قرآن انقلاب پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ قرآنی تبدیلی کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ ہیں۔ وہ اسلام سے پہلے جاہلیت کی انتہا پر تھے مگر تعلیماتِ قرآنی سے آراستہ و پیراستہ ہوئے تو ایسے انسان تھے جن پر انسانیت آج تک فخر کرتی ہے۔ اس کتابِ عظیم میں انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کی قوت و تاثیر اور استعداد کس قدر ہے، اس کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے؟ کون یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک قوم جو صحرا میں رہتی ہو، غریب ہو، ننگے پاؤں ہو، لباس کا اہتمام نہ ہو، علم و دانش سے تہی ہو، اپنے زمانے کی سپر پاورز میں اس کا شمار نہ ہو، اس قوم کو بدلنے کے لئے قرآن آتا ہے تا کہ اس کی تشکیل جدید کرے، اسے زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی تک پہنچا دے، اس قوم کے دلوں کو اللہ سے جوڑ دے تا کہ اس قوم کی غایت و مقصد صرف اللہ ہی بن جائے۔ قرآن مجید نے یہ تبدیلی چند برسوں میں کر دی اور ثابت کر دیا کہ اس بنیادی تبدیلی کے لئے ایک مختصر عرصہ کافی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہوا؟ دراصل قرآن کریم کے ذریعے تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ قوم اس تغیر کے لئے آمادہ ہو:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔‘‘ (الرعد:۱۱۱)
چند ہی برسوں کے بعد اس صحرا کے قلب سے ایک نئی قوت ابھری جس نے روم و فارس کی عظیم و قدیم سلطنتوں کو مٹا کے رکھ دیا اور عزت و ذلت کے پیمانے بدل دیئے۔
قرآن مجید پر رسول اللہ ﷺکا عمل
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں قرآن کے ذریعے جو بنیادی تبدیلی آئی اس کا سبب ان کا قرآن سے تعلق تھا۔ وہ قرآن کی قدر و قیمت سے آگاہ تھے اور اس کے مقصدِ نزول کو خوب سمجھے ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں ان کے لئے نمونہ و اسوہ ان کے استاد و معلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تو زندگی کا محور ہی قرآن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی قرآن کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر سورہ کو ترتیل سے پڑھا کرتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم پوری رات اپنی نماز تہجد میں اس ایک آیت کو ہی دہراتے رہے:
’‘اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔‘‘(المائدۃ:۱۱۸)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کی قوتِ تاثیر سے کس قدر اثر لیتے تھے، اس کا کچھ اندازہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہو سکتا ہے ’’مجھے سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں نے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا۔‘‘ (الجامع الصغیر)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پر عمل کرنے میں مسلمانوں کے لئے اعلیٰ و ارفع نمونہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پاک کے ترجمان تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بجا فرمایا تھا "کان خلقہ القرآن۔" قرآن آپ کا خلق و کردار تھا۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ کتاب کی شکل میں قرآن پڑھنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا بھی مطالعہ کریں، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآنِ متحرک تھے۔ آپ ﷺ کی سیرت، افعال و اقوال سب قرآن کی عملی شکل ہیں۔ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اترتا تھا، اس لئے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی اس پر عمل کرتے تھے۔ قوانین قرآنی کی پیروی سب سے پہلے آپ ؐ ہی فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ مجبوراً نہیں بلکہ بطیب ِ خاطر کرتے تھے۔ قرآن کی محبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب ِ مقدس میں پیوست تھی۔ قرآن کی پیروی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دل دھڑکتا تھا۔ اتباع قرآن آپ ﷺ کی فکر کا مرکز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآنی حکم کی تعمیل کے لئے بے تاب رہتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے تزکیہ نفس اور ہمت عالیہ کو خوب کام میں لاتے۔ آئیے یہاں پر ہم چند مثالیں دیکھیں کہ آپ ؐ کس شان کے ساتھ قرآن کے ہر حکم کی تعمیل فرمایا کرتے تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین قرآن شریف کو جلد جلد پڑھ ڈالنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ ان میں سے ایک رات میں دو یا تین بار قرآن مکمل کر لیتےہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا، ان لوگوں نے پڑھا مگر نہ پڑھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوری رات قیام فرماتے تھے اور اس میں البقرۃ، آل عمران اور النساء جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ اگر اس میں خوش خبری ہوتی تو اللہ تعالیٰ سے اسے طلب کرتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسی آیت پڑھتے جس میں ڈرایا گیا ہے تو اللہ سے اس کی پناہ مانگتے۔ (ابن المبارک نے یہ حدیث الزہد میں بیان کی ہے) 
قرآن مجید سے استفادے کا درست طریقہ
قرآن مجید کا مطالعہ یہ سمجھ کر کرنا چاہئے کہ یہ پڑھنے والے سے براہ راست خطاب ہے اور انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کی کنجی یہی کتاب ہے۔ انسان کی حالت خواہ کیسی ہی خراب کیوں نہ ہو، یہ کتاب اسے بدل سکتی ہے۔ قرآن پڑھنے والا اگر یہ شعور رکھتا ہے تو اسے قرآن مجید سے استفادے کا طریقہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہی احساس اس میں تبدیلی لانے کے لئے کافی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارا قرآن خوانی کا طریقہ صدیوں سے ایسا چلا آ رہا ہے کہ ہم قرآن سے صحیح معنوں میں استفادے سے محروم ہیں، گویا صدیوں سے ہمارے مسلسل غلط طرزِ عمل نے ہمارے اور قرآن شریف کے نفع پہنچانے کے مابین ایک نفسیاتی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔
اگر ہم قرآن شریف سے واقعی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے:
 قرآن مجید سے دلچسپی: قرآن مجید سے ہمارا تعلق اتنا مضبوط ہو، ہمیں اتنی دلچسپی ہو کہ یہ ہماری تمام تر توجہات کا مرکز بن جائے۔ ہماری اولین ترجیح یہی ہو۔ خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ہم روزانہ باقاعدگی سے اس کی تلاوت کریں۔ ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، اس کے لئے ہر حال میں وقت نکالیں۔ یاد رہے کہ مطالعۂ قرآن کے نتیجے میں‌ ہونے والی تبدیلی کی رفتار تیز نہیں ہوتی۔ یہ تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ مطالعہ ٔ قرآن کا عمل تب ہی ثمر آور بنتا ہے جب اسے تسلسل و دوام کے ساتھ کیا جائے اور ہمارا ایک دن بھی قرآن کریم کی تلاوت و ملاقات کے بغیر نہ گزرے۔ ہم جتنا قرآن کو وقت دیں گے، اتنا ہی وہ ہمیں نفع دے گا۔ جو خوش نصیب دن میں کئی بار قرآن شریف کا مطالعہ کرتا ہے وہ کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ قرآن کے لفظ و معنی دونوں ہی سے استفادہ کرنا چاہئے۔
 مناسب جگہ: قرآن شریف کے ذریعے تبدیلی لانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس کے مطالعے کیلئے موزوں و مناسب جگہ منتخب کریں۔ ہم ایک معزز مہمان کا استقبال اجس طرح کرتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر اور احترام سے قرآن پاک کا خیر مقدم کریں۔ شور و شغب سے خالی پُر سکون جگہ میں قرآن کریم سے ملاقات کریں۔ اس سے حسنِ فہم میں مدد ملتی ہے۔ گوشہ تنہائی میسر ہو تو از بس غنیمت ہے۔ ہم وہاں بیٹھ کر دورانِ مطالعہ اپنے احساسات کا بخوبی اظہار کر سکتے ہیں۔ تنہائی میں رونے، دعا کرنے اور سبحان اللہ کہنے میں خاص لطف آتا ہے۔ قاری متعلقہ آیات کے مطابق اپنی باطنی کیفیت کے اظہار کا موقع پاتا ہے۔
 موزوں وقت: مناسب جگہ کے ساتھ ساتھ موزوں وقت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انسان اس وقت قرآن شریف پڑھے جب ہو چست، چاق و چوبند اور جسمانی و ذہنی لحاظ سے مستعد و آمادہ ہو۔ اگر انسان تھکا ماندہ ہو، نیند آ رہی ہو، بخار یا درد ہو تو ایسی حالت میں مطالعہ قرآن نہ کرنا چاہئے۔
 ترتیل سے پڑھنا: ہم رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید پڑھیں، الفاظ کی ادائیگی درست ہو۔ حروف و الفاظ مکمل اور درست ادا کریں۔ اس طرح تیز تیز پڑھنا کہ حروف ٹوٹ جائیں، الفاظ ادھورے رہ جائیں، حسنِ ترتیل کے خلاف ہے اور محض ایک بے فائدہ عمل ہے۔ ہمیں ’’قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘ ے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
ہمارا مقصد قرآن ختم کرنا یا سورہ مکمل کرنا نہ ہو۔ ختم قرآن کے لئے ہم تلاوت کی رفتار بڑھا دیتے ہیں۔ خاص طور پر رمضان شریف میں کئی کئی ختم کرنے کا ہمارا شوق ہمیں تیز رفتاری پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ہم اب تک نہ جانے کتنے ختم کر چکے ہیں۔ رمضان شریف میں ایک ایک مسلمان نے کئی کئی ختم قرآن کر ڈالے مگر اس کا فائدہ کیا ہوا؟ اس سے ہمارے اندر کیا تبدیلی آئی؟ اپنے بہن بھائیوں اور دوست واحباب کے ساتھ ہمارا مقابلہ مقدارِ تلاوت میں نہ ہو بلکہ اس بات پر ہو کہ ہم نے آیاتِ قرآنی سے کتنی باتیں سمجھی ہیں؟ کتنے نکات ہمارے ذہنوں میں آئے ہیں؟ ہمارے ایمان و یقین میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟
 توجہ سے مطالعہ کرنا:قرآن کریم کا مطالعہ ہم کم از کم دنیا کی کسی کتاب کی طرح تو کریں۔ ہم جب کسی کتاب، رسالے یا اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم جو کچھ پڑھتے ہیں، اسے سمجھتے جاتے ہیں۔ جو بات سمجھ نہیں آتی، اسے دوبارہ پڑھتے ہیں تاکہ سمجھ میں آئے۔ قرآن مجید کو بھی ہم کم از کم اسی طرح پڑھیں۔ ذہنی طور پر حاضر ہوں۔ اگر کسی وجہ سے ذہن پراگندہ ہو یا بھٹکنے لگے تو آیات کو دوبارہ پڑھیں۔ ہمیں پہلے پہل اس طرح مطالعہ کرنے میں دقت محسوس ہو گی کیوں کہ ہم الفاظ کو معانی سے الگ کر کے پڑھنے کے عادی ہیں لیکن مسلسل مشق سے ہماری یہ پرانی عادت جاتی رہے گی۔
 سرِ تسلیم خم: قرآن مجید کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ یہ ان سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔ اس خطاب میں سوال و جواب ہیں، وعدے وعید ہیں اور اوامر نواہی ہیں۔ لہٰذا پڑھتے وقت ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن کے سوالوں کے جوابات دیں۔ اس کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے، سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور استغفر اللہ کے کلمات حسبِ موقع و محل ادا کریں۔ سجدے کی آیات پر سجدہ کریں۔ دعا کے بعد آمین کہیں۔ جہنم کا بیان پڑھیں تو آگ سے پناہ مانگیں، جنت کا تذکرہ پڑھیں تو پروردگار سے جنت کا سوال کریں۔ آنحضرت ؐ اور صحابہ کرام ؓ کا یہی طریقہ تھا۔ اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنے سے ہم پراگندہ ذہنی اور عدم توجہی سے محفوظ رہیں گے۔
 ہدف - معانی: بعض پر جوش مسلمان جب تدبر قرآن کا آغاز کرتے ہیں تو ایک ایک لفظ پر غور و فکر کرتے ہیں مگر چند دنوں تک ہی اسے نبھا پاتے ہیں، اکتا کر پھر اسی پرانی ڈگر پہ چل پڑتے ہیں اور فہم و تدبر کے بغیر ہی پڑھنے لکھنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ ہے کہ تدبر و تفکر بھی ہو اور غیر معمولی تاخیر بھی نہ ہو۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم آیت کا اجمالی مطلب سمجھتے جائیں۔ جن الفاظ کے معانی، عربی جاننے کے باوجود نہیں جانتے، سیاق و سباق سے ان کے معنی سمجھیں، جیسے ہم انگریزی میں کوئی مضمون یا خبر پڑھتے ہیں تو ہمیں ہر لفظ کا تفصیلی مفہوم معلوم نہیں ہوتا مگر ہم کلام کے اسلوب و انداز اور سیاقِ کلام سے اس عبارت کا اجمالی مطلب سمجھ لیتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے’’قرآن یوں نہیں اترا کہ اس کا بعض حصہ دوسرے حصے کی تکذیب کرتا ہو، بلکہ اس کا ہر حصہ دوسرے حصوں کی تصدیق کرتا ہے۔ تم لوگ قرآن میں سے جو سمجھ جاؤ اس پر عمل کرو اور جس کا مطلب نہ سمجھ پاؤ اسے قرآن جاننے والے کی طرف لوٹاؤ (یعنی اس سے سمجھ لو)۔‘‘(یہ حدیث حسن ہے۔ مسند امام احمد، سنن ابن ماجہ)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم الفاظ کے معانی جاننے کی کوشش نہ کریں، یا کتب تفاسیر کی طرف سرے سے رجوع ہی نہ کریں۔ مطلب صرف یہ ہے کہ ہم تفسیر کے لئے الگ وقت رکھیں اور مطالعہ کتاب اللہ کے لئے الگ وقت مختص کریں۔ تلاوت سے ہمارا مقصد ’’دل کو زندہ‘‘کرنا ہو۔ اس کے لئے ہمیں تفاسیر کے بغیر قرآن مجید سے براہ راست ملاقات کرنا ہو گی۔
 آیات کو بار بار پڑھنا:ہم نے قرآن شریف سے استفادے کے لئے اب تک جو معروضات کی ہیں، یہ سب عقل سے تعلق رکھتی ہیں جو علم و دانش کا مرکز ہے۔ اب جو ہم طریقہ بیان کر رہے ہیں یہ قلب کے لئے ہے۔ قلب ایمان کا محل ہے۔ دل انسان کے اندرونی جذبات و احساسات کا مرکز ہے۔ دل میں جتنا ایمان زیادہ ہو گا اتنے ہی اعمال صالح ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان جذبہ و احساس سے عبارت ہے۔ ہمارا اثر قبول کرنا، سرِ تسلیم خم کر دینا، متاثر ہونا، نماز، دعا اور تلاوت کلام اللہ میں ایمان کا بڑھنا سب کا تعلق دل سے ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:’’ اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘(الانفال:۲)
قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ
 ہمارے پاس بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تھا۔ قرآن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ایک منفرد انسانی گروہ میں بدل دیا۔ کیا قرآن اب اس طرح کی تبدیلی لانے سے قاصر ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قرآن مجید تو ایک دائمی معجزہ ہے۔ یقیناً نقص ہمارے اندر ہے، کوتاہی ہماری ہے۔ قرآن ہر گھر میں موجود ہے۔ پوری اُمتِ اسلامیہ میں اس وقت قرآن مجید کے لاکھوںحفاظ موجود ہیں، اتنے حفاظ تو عہدِ نبوی اور عہدِ خلفائے راشدین میں نہ تھے۔ اس سب کے باوجود، اس قدر اہتمام کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی عمل میں نہیں آ رہی؟ اس کی وجہ کیا ہے؟
 واضح بات ہے کہ ہم ان شرطوں کو پورا نہیں کر رہے جو قرآن کے معجزانہ اثرات کے ظہور کے لئے ضروری ہیں اور جن کی تکمیل سے قرآن تبدیلی کا عمل سر انجام دیتا ہے۔ ہماری ساری توجہ قرآن کے الفاظ پر ہے۔ ’’تعلیم قرآن‘‘ کا مطلب ہم نے صرف یہ سمجھا ہے کہ قرآن کے الفاظ سیکھے جائیں اور قرآن کو پڑھنے کی کیفیت سیکھ لی جائے، اس کے الفاظ کو صحیح مخارج سے ادا کرنے کا طریقہ ہمیں آتا ہو، اور ان حروف کی صفات کو صوتی لحاظ سے درست ادا کیا جائے۔ ہم نے قرآن کے معانی تک رسائی پر توجہ دی ہے نہ اس میں کچھ زیادہ دلچسپی لی ہے اور عمل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
 قرآن کے ساتھ ہمارے اس ظاہری شکل تک محدود طرزِ عمل نے ہمیں قرآن کے حقیقی منافع پانے سے روک دیا ہے۔ اس رویے کا نتیجہ خود ہمارے لئے نہایت مہلک ہے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز کہ وہ نفوس میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے، ہماری بے عملی و کاہلی کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو رہا ہے۔ قول و فعل میں تضاد بڑھ چکا ہے۔ ہماری دلچسپیاں بدل چکی ہیں۔ دنیا سے تعلق اور اس کی محبت میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ہماری حالت وہی ہو چکی ہے جس کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش گوئی فرمائی تھی: ’’قریب ہے کہ قومیں تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو ایسے بلائیں جیسے کھانا کھانے والے دسترخوان پر ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہیں۔ ایک شخص نے عرض کیا ’ کیا ہم اس وقت تھوڑی تعداد میں ہوں گے؟‘ ‘فرمایا:’’ نہیں بلکہ اس وقت تم لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہو گے۔ مگر سیلاب کے جھاگ کی مانند ہو گے۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا دبدبہ ختم کر دے گا۔‘‘ دریافت فرمایا:’’ یا رسول اللہ وہن کیا چیز ہے؟ فرمایا ؛ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔‘‘(السلسلۃ الصحیحۃ)
اگر ہم مسلمان اپنے اندر حقیقی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیے قرآن کی طرف رجوع کرنے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہیں۔

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK