Inquilab Logo

بہار کے اعلیٰ تعلیمی شعبوں میں اضافہ خوش آئند ہے

Updated: February 07, 2023, 3:54 PM IST | Professor Mushtaq Ahmed | Mumbai

گزشتہ دنوں ’آل انڈیا سروے ان ہائر ایجوکیشن‘ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق بہار کے اعلیٰ تعلیمی شعبے میں۳۶؍فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اس دوران ریاست میں کالجوں کی تعداد میں بھی۱۸؍فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ خوش آئند ہے کیونکہ اس دوران قومی سطح پر یہ اضافہ صرف۷ء۴؍ فیصد کا ہی ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

مرکزی حکومت ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سمت اور اس کی رفتار کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے ہر سال آل انڈیا ہائر ایجوکیشن سروے (AISHE)کو یقینی بناتی ہے اور قومی سطح پر اس کے لئے خصوصی مہم چلائی جاتی ہے ۔واضح ہو کہ محکمۂ تعلیم حکومت کی اس سروے میں ملک کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کواپنے اداروں کے بنیادی ڈھانچوں، نصابِ تعلیم ، طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولیات ، طلبہ کی تعداد اوراساتذہ کی تعداد کی مکمل جانکاری  دینی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد حکومت اپنی ایک رپورٹ جاری کرتی ہے جس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سمت ورفتار کیا ہے۔
  بالخصوص کس ریاست میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے داخلہ شرح میں اضافہ ہوا ہے اور کس ریاست میں کمی واقع ہورہی ہے؟اس سروے کی بہ ایں معنی غیر معمولی اہمیت ہے کہ اسی سروے کی بنیاد پر حکومت تعلیمی شعبے کیلئے بجٹ مخصوص کرتی ہے۔ جس ریاست میں داخلہ شرح میں اضافہ ہو رہاہے اسے خصوصی فنڈ مہیا کرایا جاتا ہے اور جہاں کمی واقع ہورہی ہے تو ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے شرح داخلہ میں کمی آئی ہے۔ ۲۱۔۲۰۲۰ءکا آل انڈیا سروے ان ہائر ایجوکیشن رپورٹ ابھی گزشتہ دنوں شائع ہوا ہے ۔ اس رپورٹ میں بہار کیلئےبڑی خوشخبری دی گئی ہے کہ ریاست بہار میں اعلیٰ تعلیمی شعبے میں۳۶؍فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور کالجوں کی تعداد میں بھی۱۸؍فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سروے کے مطابق قومی سطح پر شرح داخلہ میں ۷ء۴؍فیصد کا اضافہ ہوا ہے،ایسے میں بہار میں ۳۶؍ فیصد کا اضافہ ایک قابلِ فخر کوشش ہے۔
  بہار کے بعد اتراکھنڈ میں۲۶؍فیصد ، کیرلا میں ۲۰؍فیصد اور مدھیہ پردیش میں۱۹؍فیصد شرح داخلہ کی تصویر سامنے آئی ہے ۔اس رپورٹ میں یہ بات بھی  سامنےآئی ہے کہ ریاست بہار میں فی کالج اوسطاً ۱۸۸۱؍طلبہ داخل ہوئے ہیں ۔ غرض کہ ریاست بہار میں اعلیٰ تعلیم کی طرف نوجوانوں کی توجہ میں اضافہ ہوا ہے اور کالجوں کی تعداد میں اضافہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ ایک طرف حکومت نئے گورنمنٹ کالج کھولنے کی پہل کر رہی ہے تو دوسری طرف نجی کالجوں کی تعداد میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ۵؍  برسوںکے سروے کے جائزہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ نجی کالجوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
 ۲۰۔۲۰۱۹ءکے سروے میں ریاست بہار میں ۸۷۴؍کالج تھے جبکہ حالیہ سروے کے مطابق کالجوں کی تعداد۱۰۳۵؍ تک پہنچ گئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال میں۱۶۱؍نئے کالج کھولے گئے ہیں۔ جہاں تک شرح داخلہ کا سوال ہے تو گزشتہ سال ۱۲ء۳؍ فیصد جی آر درج کیا گیا تھاجبکہ اس سروے میں۱۵ء۹؍ فیصد درج ہے یعنی ایک سال میں۳ء۸؍فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ریاست بہار اب بھی قومی شرح داخلہ ۲۷ء۳؍ فیصد کے اوسط کو نہیں پہنچ سکا ہے لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ بہارمیں حالیہ برسوں میں کالجوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ شرح داخلہ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
  محکمہ تعلیم ، حکومتِ بہار کے وزیر پروفیسر چندر شیکھر نے اس اضافے کی وجہ موجودہ حکومت کی کارکردگی بتائی ہے اور کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں مزید ترقیاتی اقدام اٹھائے جائیں گے تاکہ ریاست بہار کے طلباء وطالبات اعلیٰ تعلیم کیلئے دوسری ریاست کا رخ نہ کریں۔ ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ریاست بہار سے بڑی تعداد میں طلبہ دوسری ریاستوں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کیلئے ہجرت کرتے ہیں مگر اب آہستہ آہستہ اس میں کمی واقع ہو رہی ہے اور جس کا نتیجہ ہے کہ حالیہ سروے میں داخلہ شرح میں۳۶؍فیصد اضافے کی تصویر سامنے آئی ہے۔
  اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ نتیش حکومت نے پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں کے استحکام کے لئے کئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کئے ہیں اور اسے عملی جامہ بھی پہنایا جا رہا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کے لئے بھی خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ مہمان اساتذہ کی بحالی پر زیادہ زور ہے اور مستقل اساتذہ کی اسامیوں کو پُر کرنے کی رفتار سست ہے مگر مہمان اساتذہ کی خدمات کے ذریعہ کالجوں میں اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کی پہل نے اعلیٰ تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
  ان دنوں بہار اسٹیٹ یونیورسٹی سروس کمیشن کے ذریعہ ریاست کے کالجوں میں اساتذہ کی مستقل بحالی کے لئے انٹرویو لئے جارہے ہیں ۔ کئی موضوعات کے اساتذہ کی تقرری کی فہرست بھی جاری کردی گئی ہے اور ان کی پوسٹنگ بھی ہوئی ہے مگر اسی اثناء ہائی کورٹ میں اس بحالی میں ریزرویشن اور روسٹر کلیرنس کو لے کر رِٹ بھی داخل کی گئی ہے جس کی وجہ سے انٹرویو کے بعد مختلف یونیورسٹیوں میں کئی مضامین کے کامیاب اساتذہ کی فہرست تو بھیجی گئی ہے مگر ان کی پوسٹنگ نہیں ہو رہی ہے کیوں کہ عدالت نے ان کی پوسٹنگ کو فی الوقت التوا میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ 
 بہر کیف! اس سروے کی رپورٹ سے ریاست بہار کے عوام میں ایک مثبت پیغام پہنچا ہے کہ اب ریاست میں اعلیٰ تعلیم کا ماحول سازگار ہو رہاہے اور شرح داخلہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ کالجوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہاہے۔ دراصل حالیہ برسوں میں تعلیمِ نسواں کی طرف حکومت کی توجہ زیادہ مرکوز ہوئی ہے اور کئی طرح کے اسکار شپ اسکیم کا آغاز ہوا ہے جس کی وجہ سے بھی اعلیٰ تعلیم کی طرف لڑکیوں کے تعلیمی رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً میٹرک پاس کرنے کے بعد لڑکیوں کو دس ہزار ، انٹر کے بعد پچیس ہزار اور گریجویشن کے بعد پچاس ہزار روپے بطور وظیفہ دیا جا رہاہے جس سے متوسط اور کمزور طبقے کی لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لے رہی ہیں جس کی وجہ سے بھی یہ مثبت نتیجہ سامنے آیا ہے ۔ اس سروے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی ہے کہ کن اضلاع میں اعلیٰ تعلیم کی طرف رجحان بڑھا ہے اور کس یونیورسٹی کی طرف طلبہ کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
  ریاست بہار میں موجودہ حکومت نے درجنوں گورنمنٹ کالجوں میں اس سال سے داخلے کا آغاز کیا ہے اس لئے یہ امید بندھتی ہے کہ آئندہ سال کا جب آل انڈیا ہائر ایجوکیشن سروے کی رپورٹ شائع ہوگی تو بہار کے شرح داخلہ کا گراف مزید بلند نظر آئے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ معیارِ تعلیم کے معاملے میں ریاست کے تعلیمی اداروں کے اقدام کیا ہوتے ہیں کیوں کہ آج کے مقابلہ جاتی دور میں معیارِ تعلیم کی بدولت ہی طلبہ کے مستقبل روشن ہو سکتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت ریاست کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایک لاکھ ۸۳؍ ہزار ۶۱۹؍طلبہ پوسٹ گریجویٹ کر رہے ہیں جبکہ گزشتہ سال ان کی تعداد ایک لاکھ ۲۰؍ ہزار ۹۴۱؍تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوسٹ گریجویٹ میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہواہے اور اس میں بھی لڑکیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو ایک خوش آئند مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK