Inquilab Logo

اسرائیل کے آگے اقوام متحدہ کی بے بسی اورلاچاری اس کی افادیت پر سوالیہ نشان ہے

Updated: November 19, 2023, 4:17 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنس کو ختم کرکے ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو دنیا کو یہ سبز خواب دکھایاگیا کہ اس کا مقصد طاقتور ممالک کو جارحیت سے روکنا، دنیا میں امن قائم کرنا اور مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات کا پرامن حل نکالنا ہے۔

The situation is that the United Nations has to appeal to Israel, and Israel takes this appeal on the tip of its shoes. Photo: INN
صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو اسرائیل سے اپیل کرنی پڑرہی ہے اور اسرائیل اس اپیل کو اپنے جوتوں کو نوک پر رکھتا ہے۔ تصویر : آئی این این

دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنس کو ختم کرکے ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو دنیا کو یہ سبز خواب دکھایاگیا کہ اس کا مقصد طاقتور ممالک کو جارحیت سے روکنا، دنیا میں امن قائم کرنا اور مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات کا پرامن حل نکالنا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ایک کی پہلی شق اس کے قیام کا مقصدبیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’عالمی امن و سلامتی کاقیام، اوراس کیلئے اجتماعی اقدامات کے تحت امن کو لاحق خطرات کو دور کرنا، جارحانہ اقدامات کو ناکام بنانا اور نقض امن کے دیگر عوامل کو دور کرنا نیز پرامن طریقے سے انصاف کے اصولوں  اور عالمی قوانین کے مطابق اُن بین الاقوامی تنازعات اور معاملات کوحل کرنا جو نقض امن کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘ اس کی دوسری شق عالمی امن کو تقویت پہنچاتے ہوئے یکساں  حقوق اور خود ارادیت کے حق کی بات کرتی ہے۔ چارٹر کے دوسرے آرٹیکل کی چوتھی شق اس مقصد کے حصول کی راہ طے کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف دھمکی یا طاقت کے استعمال سے، یا اقوام متحدہ کے مقاصد سے متضاد کسی دوسرے طریقے سے گریز کریں گے۔‘‘ 
 مگر یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ لیگ آف نیشنس کی طرح  اقوام متحدہ بھی کبھی اپنے مقصد میں  کامیاب نہیں  ہوسکا بلکہ وہ ۵؍ بڑی طاقتوں  کے ہاتھ میں  کٹھ پتلی بن کررہ گیا۔ تنازعات کے پُر امن حل کیلئے قائم ہونے والے اسی ادارہ کو سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قیام کیلئے استعمال کیاگیا ۔ اس طرح  جو ادارہ عالمی تنازعات کے پرامن حل کیلئے قائم ہواتھا وہ جدید تاریخ کے سب سے بڑے تنازع (مسئلہ فلسطین) میں برابر کا شریک ہے۔ اقوام متحدہ کے بنیادی مقاصد میں   سے ایک اہم مقصد نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ اور تمام اقوام عالم کے حق خود ارادیت کو تحفظ فراہم کرنا ہےمگر اہل فلسطین کو ان کے اس حق سے محروم کرنے کی جتنی ذمہ داری برطانیہ، امریکہ اوراسرائیل پر عائد ہوتی ہے،اتنی ہی ذمہ داری اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پہلے ۱۹۴۸ء میں  پھر ۱۹۶۷ء میں اہل فلسطین نہ صرف اپنی زمینوں  سے محروم ہوئے بلکہ جن بچے کھچے علاقوں  میں وہ سمٹ گئے ہیں ان علاقوں   پر بھی حکم اسرائیل کا ہی چلتا ہے۔ گزشتہ ۷۵؍ برسوں میں اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں جو’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ سے آگے نہیں  بڑھ سکے، مسئلہ فلسطین کے حل اور اہل فلسطین کے حقوق کے تحفظ کی باتیں تو خوب ہوئیں مگر ان پر عمل درآمد کی جانب کوئی پیش رفت نہیں  ہوئی۔ موجودہ صورتحال اقوام متحدہ کے تن مردہ میں  آخری کیل کے مترادف ہے۔ جس ادارہ کےقیام کا مقصد عالمی امن کو یقینی بنانا اور تنازعات کاپُرامن حل نکالنا تھا وہ غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم اور فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے میں  ناکام ثابت ہورہا ہے۔ اسرائیل کو حملے روکنے پر کامیاب ہونا تو بہت دور کی بات ہے، وہ مظلومین کو انسانی بنیادوں پر امداد فرہم کرنے کیلئے بھی اسے حملہ آورکے آگے گڑگڑا نا پڑ رہاہے۔
حماس کے ۷؍ اکتوبرکےحملے میں   ۱۲؍ سو اسرائیلی شہریوں  کی موت کے انتقام میں   اسرائیل ۱۲؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جانیں   لے چکا ہے۔ان میں  ۷۰؍ فیصد بچے اور خواتین ہیں ، اقوام عالم خاموش ہیں ، اقوام متحدہ بچوں کے قتل عام اور فلسطینیوں  کی نسل کشی اور اجتماعی طور پر انہیں بے گھر کرنے کے اسرائیل کے جنگی جرائم کو روکنے میں ناکام ہے۔ تل ابیب یکے بعد دیگرے اسپتالوں کو نشانہ بنارہاہے، اقوام متحدہ بے بس ہے، وہ ہر روز ان پناہ گزیں کیمپوں   پربمباری کررہا ہے جنہیں  خود اقوام متحدہ کے ادارے چلارہے ہیں  مگر اقوام متحدہ بے بسی سے دیکھ رہاہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے اپنے ۱۰۰؍ سے زائد اہلکار غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں مگر وہ اس کیلئے بھی صیہونی ریاست کو کٹہرے میں  کھڑا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ 
غزہ پر اسرائیلی حملوں  کے شروع ہونے کے بعد سے اقوام متحدہ کی کارگزاری ’تل ابیب کی اجازت سے ‘غزہ میں راحت رسانی تک محدود ہے۔ جنگ بندی کی کوشش کے محاذ پر جنرل اسمبلی میںصرف ایک قرارداد منظور ہوسکی وہ بھی ایسی جس پر عمل درآمد لازمی نہیں  تھا اورجس کےبعد اسرائیل کے زمینی حملوں میں شدت آگئی۔ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی کوئی بھی قرارداد جو اسرائیل کے حق میں نہ ہوامریکہ کے ’ویٹو‘کی وجہ سے منظور ہی نہیں ہوسکتی۔ اقوام متحدہ کی کارگزاری بس اتنی ہے کہ کئی کئی قرار دادیں یش کرکے ان پر لمبی لمبی تقریریں ہوئیں ، اسرائیل سے منت سماجت کی گئی ، انسانی بنیادوں  پر حملے روکنے کی دہائی دی گئی، ہر روز مذمتی بیانات جاری کئے گئے اور جنگی جرائم کا حوالہ دیتے ہوئےایسا نہ کرنے کی اپیلیں  کی گئیں۔ اقوام متحدہ کی حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اس کے سیکریٹری جنرل اگر ۷؍ اکتوبر کے حماس کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئےیہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ حملہ یوں ہی نہیں  ہوگیا بلکہ اس کی وجوہات ہیں تو وہ ملزم ٹھہرادیئے جاتے ہیں۔ ان کا استعفیٰ مانگ لیا جاتا ہے۔ایسے بے بس اور لاچار ادارہ کی کیا دنیا کو واقعی ضرورت ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK