امریکہ نے اقوام متحدہ اور نجی امدادی اداروں پر غزہ میں جی ایچ ایف کے ساتھ تعاون کرنے کا مطالبہ کیا، فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ جی ایچ ایف کے امدادی مراکز ’’موت کا جال‘‘ بن گئے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً۷۰۰؍ بھوکے فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 11, 2025, 10:00 PM IST | Washington
امریکہ نے اقوام متحدہ اور نجی امدادی اداروں پر غزہ میں جی ایچ ایف کے ساتھ تعاون کرنے کا مطالبہ کیا، فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ جی ایچ ایف کے امدادی مراکز ’’موت کا جال‘‘ بن گئے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً۷۰۰؍ بھوکے فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ امدادی اسکیم پر اقوام متحدہ کی قیادت میں مربوط نظام سے گریز کرنے پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ مئی کے بعد سے، فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ جی ایچ ایف کے امدادی مراکز ’’موت کا جال‘‘ بن گئے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً۷۰۰؍ بھوکے فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔امریکہ نے اقوام متحدہ اور عالمی امدادی ایجنسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ متنازعہ ’’غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ (جی ایچ ایف) کے ساتھ شراکت کریں — یہ امریکہ کی قائم کردہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ نئی تنظیم ہے جو غزہ کے بھوک اور محاصرے کا شکار فلسطینیوں کو کھانا فراہم کرتی ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس گروپ نے اب تک لاکھوں کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے ہیں اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’حماس کی لوٹ مار‘‘ کو روک رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹامی بروس نے جمعرات کو میڈیا بریفنگ میں کہاکہ ’’چار تقسیم مراکز پر اب تک۶؍ کروڑ۹۰؍ لاکھ کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جا چکے ہیں، اور اس سب کے دوران حماس کی لوٹ مار کو روکا گیا ہے، جو یقیناً ایک کامیابی ہے جس کی تعریف اور حمایت ہونی چاہیے۔ ہم دیگر امدادی ایجنسیوں اور اقوام متحدہ سے بھی شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘واضح رہے کہ غزہ کے لاکھ سے زائد باشندے شدید انسانی بحران کا شکار ہیں کیونکہ اسرائیل نے اپنی تباہ کن جنگ کے دوران امداد پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ موجودہ امدادی تقسیم کا نظام بین الاقوامی سطح پر مذمت کا نشانہ بنا ہے، خاص طور پر تقسیم کے مقامات پر فلسطینیوں کی جانیں ضائع ہونے پر۔غزہ کی فلسطینی وزارت صحت کے نئے اعداد و شمار کے مطابق، مئی کے آخر سے اب تک اسرائیلی فوج اور نجی ٹھیکیداروں نے اس خطے میں خوراک حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے۷۰۰؍ سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ وزارت نے مزید بتایا کہ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی امدادی تقسیم کے دوران فائرنگ میں۵۰۰۰؍فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔اس نے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ امدادی اسکیم کو مذمت کا نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی نے جی ایچ ایف کی امدادی تقسیم کو ’’گھناونی حرکت‘‘اور’’ایسا موت کا جال قرار دیا ہے جو بچانے سے کہیں زیادہ جانیں لے رہا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ اور نجی امدادی گروپوں نے انسانی اصولوں کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جی ایچ ایف کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا ہے۔ وہ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ تباہ حال خطے میں امداد وصول کرنے والوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔جی ایچ ایف نے حالیہ تشدد کی اطلاعات کو تسلیم کیا ہے، لیکن اسرائیلی فوج کے ساتھ قریبی رابطے کے باوجود دعویٰ کیا ہے کہ یہ واقعات اس کے کام کرنے والے علاقے سے باہر ہوئے۔لیکن بروس نے اس امدادی گروہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا’’اب اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جو کام کر رہا ہے، اور دوسروں کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ حسد یا سیاسی مصلحت کی وجہ سے تماشائی بنے رہنے کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ یہ تمام چیزیں ان سے بالاتر ہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق دو خصوصی نمائندوں، رچرڈ فالک اور ہلال ایلور نے کہا ہے کہ جی ایچ ایف کے آپریشن اور اس کے امدادی مقامات پر فلسطینیوں پر ڈھائے گئے تشدد’’جنگی جرائم‘‘ اور’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ ہیں۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل، آکسفیم، اور ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز سمیت۱۷۰؍ سے زائد انسانی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے ہیں جس میںجی ایچ ایف کو فوری طور پر بند کرنے اور اقوام متحدہ کی قیادت میں مربوط نظام کی طرف واپس آنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دریں اثناءاسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی حمایت یافتہ۶۰؍ روزہ جنگ بندی کے ممکنہ معاہدے پر بات چیت میں امدادی تقسیم بھی ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔اگرچہ امریکی اہلکار اشارہ دے رہے ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے، لیکن حماس نے کہا ہے کہ اس نے جنگ بندی کے حصول کی کوششوں کے حصے کے طور پر۱۰؍ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے، لیکن اسرائیل کی ’’ہٹ دھرمی‘‘ کی وجہ سے جاری مذاکرات کو ’’سخت‘‘قرار دیا ہے۔