Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے حکم نامے پر پابندی

Updated: July 11, 2025, 10:01 PM IST | Washington

امریکی جج نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے حکم نامے پر پابندی لگا دی، وفاقی جج نے جمعرات کو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو امریکہ میں پیدا ہونے والے کچھ بچوں کی شہریت سے انکار کرنے سے پھر روک دیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ایک وفاقی جج نے جمعرات کو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو امریکہ میں پیدا ہونے والے کچھ بچوں کی شہریت سے انکار کرنے سے پھر روک دیا۔ٹرمپ انتظامیہ نے اس مقصد کے لیے ایک استثناء کا استعمال کیا تاکہ امریکی سپریم کورٹ کے اس حالیہ فیصلے کو عبور کیا جا سکے جس نے ججوں کی دیگر پالیسیوں کو پورے ملک میں روکنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا تھا۔ٹرمپ نے جنوری میں صدارتی دفترکے پہلے ہی دن اس حکمنامے پر دستخط کئے تھے، تاہم اس حکم نامے کے خلاف یہ فیصلہ قطعی نہیں ہے، جج نے اپنا فیصلہ سات دن کے لیے روک دیا تاکہ ٹرمپ انتظامیہ کو اپیل کرنے کا موقع مل سکے۔ اس سے پہلے ۲۷؍جون کو سپریم کورٹ نے۳؍ بمقابلہ ۶؍ کے فیصلے میں، ٹرمپ کے ہدایت نامے کے خلاف الگ الگ چیلنجوں میں ججوں کے جاری کردہ تین قومی پابندیوںکو تنگ کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلےسے  امریکہ کے کچھ حصوں میں پیدا ہونے والے ان بچوں کو شہریت سے انکار اور ملک بدری کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا جن کے والدین امریکی شہری یا قانونی مستقل رہائشی (گرین کارڈ ہولڈر) نہیں ہیں۔

یہ بھی پرھئے: امریکہ: گرین کارڈ کے ذریعے امریکی شہریت پانے والوں کی شہریت منسوخ ہونے کا خطرہ

لاپلانٹی، جنہوں نے پہلے ہی ایک متعلقہ مقدمے میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ٹرمپ کا حکم نامہ غیر آئینی ہے، نے کہا کہ پابندی جاری کرنے کا سوال کوئی مشکل نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ٹرمپ کے حکم نامے سے بچوں کو شہریت سے محروم کیا جا سکتا تھا۔ تاہم، اس فیصلے میں کلاس ایکشن مقدمات کے لیے ایک استثناء موجود تھا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ حکم نامہ ۲۷؍ جولائی سے نافذ ہونا تھا۔سماعت کے دوران انہوں نے کہا’’یہ ناقابل تلافی نقصان ہے، صرف شہریت کا معاملہ ہی کافی ہے۔ اے سی ایل یو کے  وکیل کوڈی ووفسی نے اس فیصلے کو سراہا۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان مہاجر خاندانوں میں ’’تشویش، الجھن اور خوف‘‘ پیدا کر دیا تھا جن کے بچے ٹرمپ کے حکم نامے سے متاثر ہوتے۔حالیہ فیصلے کے تعلق سے انہوں نے کہا’’یہ پورے ملک کے ہر ایک بچے کو اس غیرقانونی، غیر آئینی، ظالمانہ ایگزیکٹو آرڈر سے تحفظ فراہم کرے گا۔‘‘
تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان ہیریسن فیلڈز نے ایک بیان میں اس فیصلے کو یونیورسل ریلیف کے خلاف سپریم کورٹ کے واضح حکم کو نظر انداز کرنے کی ایک واضح اور غیرقانونی کوشش قرار دیا۔انہوں نے کہا’’اس جج کا فیصلہ کلاس ایکشن سرٹیفیکیشن کے طریقہ کار کا غلط استعمال کر کے قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ کو جن پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، ان میں رکاوٹ ڈالنے والے ان باغی ڈسٹرکٹ کورٹ ججوں کی کوششوں کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ شدت سے لڑے گی۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ۵۰؍فیصد ٹیریف پربرازیل برہم، امریکہ کو جوابی اقدام کا انتباہ

واضح رہے کہ ٹرمپ کا حکم نامہ وفاقی ایجنسیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ان بچوں کی شہریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں جن کے والدین میں سے کم از کم ایک امریکی شہری یا قانونی مستقل رہائشی (گرین کارڈ ہولڈر) نہ ہو۔مختلف مقدمات میں چیلنج کرنے والے مدعا علیہم کے مطابق، اگر ٹرمپ کا حکم نامہ قومی سطح پر نافذ ہوتا ہے تو سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد نوزائیدہ بچوں کو شہریت سے انکار کر دیا جائے گا۔۲۲؍ ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت والی ریاستوں اور مہاجرین کے حقوق کے علمبرداروں کے اصرار پر، لاپلانٹی سمیت چار ججوں نے سال کے شروع میں اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے پایا تھا کہ یہ امریکی آئین کی چودہویں ترمیم کے شہریت کے شق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
ججوں نے سپریم کورٹ کے 1898 کے فیصلے یونائیٹڈ اسٹیٹس بمقابلہ وونگ کم آرک کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس میں عدالت نے اس ترمیم کی تشریح کی تھی کہ یہ پیدائشی شہریت کے حق کو تسلیم کرتی ہے چاہے بچے کے والدین کی امیگریشن کی حیثیت کچھ بھی ہو۔اس سے قبل سپریم کورٹ کا فیصلہ صرف تین قومی عدالتی احکامات سے متعلق تھا جس میں ججوںنے نچلی عدالتوں کو ہدایت کی کہ وفاقی امور پر فیصلہ دیتے وقت ان احکامات کے دائرہ کار پر دوبارہ غور کریں۔ انہوں نے پایا کہ ججوں کے پاس اتھارٹی نہیں ہے کہ وہ ایسی ’’یونیورسل پابندیاں‘‘جاری کریں جو ان لوگوں کا احاطہ کریں جو جج کے سامنے زیر سماعت مقدمے کے فریق نہیں ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو بڑی کامیابی قرار دیا، لیکن وفاقی ججوں نے ٹرمپ کے ایجنڈے کے اہم حصوں کو روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر فیصلے جاری کرنا جاری رکھا ہے جو غیرقانونی پائے گئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK