راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کبھی سوچا نہیں ہوگا کہ ۱۰۰؍ ویں سالگرہ پر اس کے سامنے کئی دقتیں ہوں گی۔ کیا وہ ان سے اُبھر پائے گا؟ یہ اہم سوال ہے۔
EPAPER
Updated: June 10, 2025, 12:01 AM IST | Mumbai
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کبھی سوچا نہیں ہوگا کہ ۱۰۰؍ ویں سالگرہ پر اس کے سامنے کئی دقتیں ہوں گی۔ کیا وہ ان سے اُبھر پائے گا؟ یہ اہم سوال ہے۔
ر ایس ایس کی سوویں سالگرہ ہورہی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ اس آر ایس ایس کے علاوہ بھی کسی زمانے میں ہندوستان میں بہت سی ہندو تنظیمیں تھیں جو یہ سمجھتی تھیں کہ جب بیسویں صدی میں یہ طے ہوگیا کہ برطانوی سامراج کو ہندوستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا ہی پڑے گا تو بہت سی ہندو تنظیموں کو یہ خیال آیا کہ اگر ایسا ہونا ہی ہے تو پھر برطانوی سامراج کے بجائے ہندوستان پر ہندو راج ہونا چاہئے۔ بعض تنظیمیں اس کی کوشش بھی کررہی تھیں۔ اس سے پہلے ہندوستان کی سب سے بڑی ہندو تنظیم ’ہندو مہاسبھا‘ تھی، جس کے سربراہ ہیڈگیوار تھے جو ’ وندے ماترم‘ پر غیر معمولی یقین رکھتے تھے، پھر انگریزوں نے وندے ماترم کو ممنوع قرار دے دیا لیکن ہیڈگیوار اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور یہی ترانہ گاتے رہے، آخر انگریزوں نے انہیں گرفتار کیا اور جیل بھیج دیا۔
ہمارے ایک دوست تھے (عرصے سے اُن سے رابطہ نہیں، خدا کرے وہ خوش و خرم ہوں) ان کا تعلق فلم انڈسٹری سے تھا اور وہ ممبئی شہر کے کھار علاقے میں رہا کرتے تھے، ان کا کام تحریر نگاری اور ڈائرکشن تھا۔ آدمی بہت نفیس تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ دل سے پوری طرح اور خالصتاً آر ایس ایس والے تھے۔ ان کیلئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ مسلمان آخر آر ایس ایس سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔ آپ ان کو اس طرح سے جان سکتے ہیں کہ دوردرشن کے زمانے میں ایک ہٹ سیرئل ’گل گلشن گلفام‘ بنی تھی جس کا موضوع کشمیر تھا۔ اس کے رائٹر اور ڈائرکٹر وہی تھے۔ وہ آر ایس ایس سے وابستہ ہونے کا ثبوت جگہ جگہ ثبت کرتے رہتے تھے لیکن جیسا کہ ہم نے کہا وہ ایک باشعور آدمی بھی تھے اور ہمارا ان کا ساتھ بھی تھا۔
اس زمانے میں ہمارا تعلق نہ تو ’مسلم لیگ‘ سے تھا اور نہ کسی دیگر مسلم تنظیم سے، ہماری سیاسی سوچ بالکل الگ تھی بلکہ ایک طرح سے ہم اینٹی کانگریس بھی تھے۔ اسی لئے ہماری اور اُن صاحب کی دوستی برقرار رہی۔ بات چل ہی نکلی ہے تو کیوں نہ اُن کا نام بھی ظاہر کر دیں۔ وہ تھے وید راہی۔ ایک بار اُنہوں نے پوچھا کہ مسلمانوں کو، ہندو تنظیموں خصوصاً آر ایس ایس سے اتنا بیر کیوں ہے؟ ہم نے بتایا کہ اس کا سبب مسلمانوں کا یہ عام خیال ہے کہ یہ تمام لوگ اینٹی مسلم ہیں اور ہند و مہاسبھا ان میں سب سے آگے ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم ہیڈگیوار کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ اور کیا ہم ہیڈگیوار کا کوئی مضمون ، کوئی کتاب ایسی لا سکتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ اینٹی مسلم تھے؟ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ تب تک ہم ہیڈگیوار کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ نہ جانے یہ ہماری بات کا اثر تھا یا کچھ اور کہ ویدراہی نے آر ایس ایس پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور کافی معلومات اکٹھا کیں۔ وہ ڈاکیومنٹری ونایک دامودر ساورکر پر تھی۔
وید راہی کا دعویٰ تھا کہ ہیڈگیوار اینٹی مسلم نہیں تھے۔ انہوں نے جو معلومات اور دستاویزات جمع کئے تھے ان میں ایک خط بھی تھا۔ اتفاق سے یہ خط اردو میں تھا اور ہیڈگیوار نے اس میں اردو کے کچھ شعر بھی لکھے تھے۔ ہمیں اب وہ شعر پوری طرح یاد تو نہیں ہیں لیکن ہم آپ کو وہ بتارہے ہیں جو ہم نے دیکھا تھا۔
بہرکیف جب ہیڈگیوار کو سزا ہوئی تو کچھ دنوں کے بعد اتفاق سے ونائک دامودر ساورکر کو بھی سزا ہوئی اور انہیں کالا پانی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ساورکر نے کالا پانی جانے کے بجائے انگریزی حاکموں سے خط و کتابت کی اور ان سے کہا کہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ انگریز ہندوستان میں رہیں کیونکہ ان کی موجودگی ہندوستان کی معاشی اور تعلیمی ترقی میں معاون ثابت ہوگی۔
انگریز بھی بہت چالاک تھے۔ انہوں نے سوچا کہ ایک بااثر ہوتی ہوئی ہندو تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہوجائے تو اس سے برطانوی راج کو فائدہ ہوگا چنانچہ انہو ںنے ساورکر کو کالا پانی نہیں بھیجا اور آخر ستمبر انیس سو پچیس کو ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ قائم ہوا۔ یہ وہی آر ایس ایس کی سالگرہ ہے جس کی سوویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔
جب کبھی راہل گاندھی پر بی جے پی بہت زیادہ حملہ کرتی ہے تو وہ یہ بیان دیتے ہیں کہ میرا نام گاندھی ہے ساورکر نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ گاندھی جی کی ہی طرح اپنے اصولوں پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ساورکر کی طرح ظالم اور خود غرض سرکاری سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے کہاآر ایس ایس ایک انتہائی متعصب ہندو تنظیم بن چکی تھی۔ ساورکر کے آنے کے بعد سے اب تک آر ایس ایس کے نہ جانے کتنے سربراہ بن چکے ہیں، ہمیں ان کے نام تو یاد ہی نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ وہ سب کے سب سارسوت برہمن تھے۔ نہ جانے بیچ میں کیسے ایک ٹھاکر رجو بھیا کا نام بھی آگیا۔ وہ کیسے آیا ہمیں اس کا علم نہیں۔ سارسوت برہمن وہ ہوتے ہیں جو عام طور پر مہاراشٹر یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں پیدا ہوئے۔ ساورکر کی پیدائش کس شہر کی تھی اس سے قطع نظر یہ جاننا زیادہ ضروری ہے کہ وہ تھے مہاراشٹر کے ہی۔
ان کے زمانے کا مہاراشٹر جغرافیائی اعتبار سے نہ جانے کہاںسے کہاں تک تھا لیکن جب مہاتما گاندھی کا قتل ہوا اور اس میں ناتھو رام گوڈسے جیسے لوگ پکڑے گئے جو ساورکر کے ہی ونشج تھے تو مہاراشٹر میں ایک زبردست اینٹی برہمن تحریک چلی۔ ان کے پاس زراعتی زمین بھی تھی لیکن اس تحریک کی وجہ سے وہ یہ سب چھوڑ کر بھاگے۔ زیادہ تر لوگ ناگپور ہی پہنچے اور اس طرح ناگپور آر ایس ایس کا گڑھ بنا۔
آر ایس ایس کے موجود چیف موہن بھاگوت بھی خیر سے سارسوت برہمن ہیں۔ اب ان کے بعد ایسا کوئی شخص آر ایس ایس کو ملے گا یا نہیں ملے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی شبیہ سامنے نہیں آئی ہے۔ لیکن اب جب کہ آر ایس ایس کی سوویں سالگرہ آرہی ہے تو آر ایس ایس کے سامنے بڑی دقتیں ہیں، پہلگام حملہ، ہند اور پاک تصادم (جنگ) کا اچانک رُکنا، ڈونالڈ ٹرمپ کا مداخلت کا دعویٰ اور ایسی ہی کئی باتیں۔ ان سب کے بیچ اگر ہندو پاک میں کوئی بات ہوئی تو آر ایس ایس کا اسٹینڈ کیا ہوگا؟ n